چاندنی میں آئیو میاں بندڑے۔۔۔۔سبرینا خان

وہ شادی کے دوسرے دن جب میکے آئی تو کچھ بجھی بجھی سی تھی۔ گھر والے خود تھکے ماندے تھے۔ کزنز کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے جب مہر نے دلہا بھائی کا پوچھا تو مائرہ چپ سی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں خوف سا اتر آیا تھا۔

“کیا ہوا یار! تم تو ایسے سیریس ہوگئی ہو ، جیسے سچ مچ شیر دیکھ لیا ہو”۔۔۔۔ مہر نے ہنستے ہوئے کہا۔

“ہاں شیر ہی سمجھو!”

مائرہ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔

“ہائیں! کیا واقعی؟ ایسا کیا ہوگیا کہ تم نے طلحہ بیچارے کو شیر سے تعبیر کر ڈالا؟ “ ۔

مہر حیران و پریشان اسے دیکھتی رہ گئی۔

“حد ہے یار ! یہ مرد بھی نا کتنے روپ رکھتے ہیں۔“

مائرہ بولی “ ہم پہلی دفعہ ملے تھے نا ، بندہ کچھ کہتا سنتا ہے، لیکن بس وہ تو ۔۔۔۔” مائرہ خاموش ہوگئی۔ “

اچھا ۔۔۔تو یہ بات ہے ! “ فائزہ ہنسی۔”ویسے لگتا تو اتنا باتونی ہے، شاید کسی نے سکھایا ہوگا کہ ایسے کرنا” فائزہ ابھی بھی ہنس رہی تھی۔ “جاؤ یار تم دونوں تو ہر چیز بس مذاق میں اڑا دیتی ہو” مائرہ روہانسی ہوگئی۔ “جو انسان دو جمع دو کے فارمولے پر عمل کرتا ہو اس کے ساتھ زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوتا ہے! “ ۔

اچھا یار پریشان نہ ہو، کچھ کرتے ہیں ۔ شہیر سے بات کرتی ہوں۔” مہر نے اپنے شوہر سے بات کرنے کا سوچا۔ پھر اس نے مائرہ کو کچھ باتیں سمجھائیں اور ارادہ کیا کہ اپنے شوہر کے ذریعے اس کے میاں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرے گی ۔ ویسے عجیب بات ہے نا کہ ہم شادی کی تمام جزئیات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ لیکن میاں بیوی کے جملہ تعلقات پر کوئی بات نہیں کرتا ، جو کہ بعد میں بڑی تباہی و بے برکتی کا سبب بنتا ہے ۔

نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے تربیت لینا لازمی ہے تاکہ بہت سی اَن کہی اَن دیکھی پریشانیوں کے فوری حل مل سکیں۔ شادی یا  نکاح فی زمانہ ایسا بوجھل رشتہ بنایا جارہا ہے کہ خواہش رکھنے کے باوجود نوجوان اس سے کنی کتراتے نظر آتے ہیں۔ جو کام شادی کے بعد حلال اور باعث ثواب ہیں وہ تمام کام نوجوان بغیر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے کرتے نظر آتے ہیں۔۔ اور معاشرتی اور خاندانی تباہی کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ اگر نوجوان نسل کو خاندان، میاں بیوی کے رشتے کے اخلاق و آداب ، حقوق و فرائض سِکھا  دئیے جائیں کہ ایک دوجے کا ساتھ کہاں تک دینا ہے، کب کیا کیسے کرنا ہے ۔۔۔تو زندگی کسی حد تک پرسکون ہوجاتی ہے ۔ آج کل تو معمولی سا کام کرنے والے کو بھی تربیتی عمل سے گزارا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دلہن کو نشست و برخاست کے رائج طریقوں  کی بھی مشق کروائی جاتی ہے، تو فریضۂ نکاح سے ایسی سرد مہری کیوں؟ ۔جیسے گاڑی سڑک پر لانے سے پہلے اس کو مانوس کرکے اپنے قابو میں کرتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح زندگی کی گاڑی کو اپنے شریک حیات کے ساتھ مانوس کرنا چاہیے۔

نکاح خواں  کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے  کہ فریقین  کو نکاح کی شرائط، ازدواجی تعلق، طلاق، عدت، عقد ثانی، بچوں کی پرورش کے احکام پر مبنی بنیادی اسلامی تعلیمی مواد فراہم کرے اور نکاح نامہ بھروانے سے پہلے اس سے متعلق ایک ایک سوالنامہ دلہا دلہن سے ان کے والدین کی موجودگی میں خود پُر کروائے اور بعد میں نکاح نامے پر دستخط کروائے جائیں۔ قرآن میں نکاح کے احکام کے بعد رب تعالیٰ نے فرمایا “بالمعروف” یعنی اچھے طریقے سے ادا کرو اور فرمایا “آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو” ۔

شادی  و رخصتی کے بعد دلہا دلہن کو اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ مقصد ِزیست کا شعور حاصل کرنا ہے۔ آداب معاشرت، اخلاقیات و دیگر آداب جن کا ازدواجی زندگی سے براہ راست تعلق ہوتا ہے جن میں سسرال ،میکے ا ور  قریبی  رشتہ دار  بھی شامل ہوتے ہیں، ان سب  کو سیکھنا چاہیے ۔ معاشرے اور خاندانی روایتوں کو شریعت کے تابع کرنا ہے۔ ان تمام معاملات میں فیاضی، سخاوت اور وسعت قلبی کا مظاہرہ الجھنوں سے بچائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نسل انسانی کو پروان چڑھانے کے متعلق  آگاہی حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ شوقیہ لے ہی آئے تو اب اس کی تربیت کیسے کرنی ہے؟۔ اس کا خیال کیسے رکھنا ہے۔ اسی طرح جاننا چاہیے کہ بچے کی ذمہ داری اٹھانے سے پہلے میاں بیوی   دونوں  اس فیصلے پر متفق ہوں ،اس لیے اسے سر سے اتارنا جرم سمجھا جائے۔ اس کی مکمل ذمہ داری قبول کی جائے۔ مزید یہ کہ کیسے بڑا کرنا ہے کن مراحل سے گزرنا، گزارنا ہے۔سیکھنے کی باتیں ہیں۔ مگر ہم لوگ بزنس، ڈرائیونگ، دیگر فنون، علوم غلوم سیکھتے ہیں جب کہ مقصد ِ حیات کے اہم رکن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بس کھونٹا ٹھونکتے ہیں اور باندھ دیتے ہیں دونوں کو۔ جب وہ کھلتے ہیں تو بس مشینیں بن کر ۔ خدارا ہوش کریں ۔۔ دل ِ زندہ پیدا کریں کہ یہ سلسلہ تربیتِ  نوع ِ انسانی چلتا رہے، کہ بعد اَز مرگ کوئی ہاتھ اٹھے دعائے مغفرت کے لیے اور بنے کوئی صدقہ ء جاریہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply