جب سے مزاج نے فطرت کی نزاکتوں اور لطافتوں کو محسوس کرنا شروع کیا ہے تب سے خُنک موسم اور ٹھٹھرتی راتوں سے ایک خاص دلچسپی ہوئی ہے۔ سرد رات، گرم چائے اور پسندیدہ کتاب میرے وہ خواب ہیں جن کی تکمیل کے لئے میں ہر موسم سرما میں اہتمام کیا کرتا ہوں۔ سردیوں کی راتوں میں گرما گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پسندیدہ کتابوں کے اوراق سے پھیلتی خوشبوؤں کا ذائقہ فقط باذوق انسان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ شہری زندگی میں انسانی ایجادات کی فراوانی اس فطرتی احساس کی رسائی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تاہم دیہی زندگی میں اس احساس کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلتستان میں جہاں قدرت کے اور کرشمے سر چڑھ کر بولتے ہیں وہاں سردیوں کی راتوں میں مطالعے کا شوق بھی بدرجہ اتم پورا کیا جا سکتا ہے۔ انگیٹھی کے سامنے نمکین چائے کا بڑا سا کپ ہاتھ میں لئے پڑھنے کا لطف بلتستان میں نہ رہنے والوں کو شاید محض کہانی ہی لگے۔۔۔ یقین مانیے کہ اس لطف کے بدلے میں اپنی پوری زندگی کا ایک ایک سانس لٹانے کے لئے حاضر ہوں۔
ہم تو بچپن سے ہی سردی کی لذت سے واقف ہیں۔ لیکن لڑکپن کی نادانیوں سے جوانی کی رنگین وادی میں قدم رکھنے تک طبیعت کراچی کی مرطوب و گرم ہواؤں کی عادی رہی۔اب چند سالوں سے ایران کے شہر قم کے سرد و خنک موسم نے پھر سے جنت نظیر وادی بلتستان کی یادیں تازہ کر دی ہیں ۔ایسے میں سردیوں کی طویل راتیں بادہ و تریاک کے بغیر نہیں کٹتیں ۔بادہ و تریاک سے مراد کوئی شراب انگور نہ سمجھیے کہیں شیخ حرم فتویٰ نہ لگا دے۔ ہمارا بادہ و تریاک وہی تلخ و تریاک چائے ہی ہے جس کے بغیر سردیوں کی راتیں طویل سے طویل تر ہوتی جاتی ہیں ۔ بادہ و تریاک کی بات نکلی ہے تو یہ بھی سُن لیجیے کہ بادہ و تریاک کی لذت سے آشنا ہونے کےلیے ،چائے کی تاریخ ،اقسام سے واقف ہونے کےلیے “غُبار خاطر”میں سے “حکایت بادہ و تریاک”ضرور پڑھ لیجیے ۔علم و ادب کے شہسواروں میں سے “آزاد”نے جس طرح چائے کی خوبیوں پر ہر جہت سے جو لطیف خامہ فرسائی کی ہے شاید ہی کسی اور نے کی ہو ۔عجب ذوق کے مالک ،چائے کے بے حد رسیا تھے۔خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را۔
ہم بھی تو اسی وادی عشق کے سرپھیروں میں سے نہ سہی خاک چھاننے والوں میں سے تو ضرور ہیں۔بقول حسرت؛
ہے مشق سُخن جاری ،چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
چکی کی مصیبت نہ سہی مشق سُخن تو جاری ہے۔طالب علمی کی زندگی سے کون واقف نہیں ،صبح کی سپیدی پھیلنے سے لے کر شب کی سیاہی پھیلنے تک خشک و ثقیل نصابی کتابوں کی درس و بحث ، مطالعہ و مذاکرے کی گہما گہمی طبع آزاد پر گراں گزرتا ہے۔لذا بقول مولانا آزاد ؛”حمضو مجالسکم”اپنی مجلسوں کا ذائقہ بدلتے رہو۔ مولانا آزاد “غُبار خاطر” میں کہتے ہیں؛”اگر گاہ گاہ میں اس تحمیض کا موقع نکالتا نہ رہوں تو میرا دماغ بے کیف اور خشک مشغولیتوں کے بارِ مسلسل سے تھک کر معطل ہوجائے”۔اس لیے ہم بھی سردیوں کی راتوں میں چائے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔چائے بھی تلخ و تریاک ہو، چینی و شکر نہ ہو یا بہت کم ،ساتھ میں شعر و ادب سے مربوط کسی قادر القلم مصنف کی کتاب ہو ،شب کٹتی رہے اور ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کتابوں کی دنیا میں مست رہیں ۔٢٠٢٣ءکی سردیوں کی راتوں میں”یاد رفتگان” دو جلد مولانا ماہر القادری،”یاد رفتگان”سید سلیمان ندوی سے گزر کر آج کل عبد المجید سالک کی کتابوں میں سے “یاران کہن ” زیرِ مطالعہ ہے۔لفظ لفظ پڑھتے ہوئے تقسیم ہندوپاک سے قبل و بعد کے خوبصورت عہد آنکھوں کے سامنے رقصاں ہو کر طبیعت میں لذت و درد کی ملی جُلی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔اب ان دنوں کی گہما گہمی وہ راتوں کی رونقیں وہ باتوں میں لطافت ،وہ مزاج و مذاق کی نزاکتیں،وہ ہجرو فراق کی اذیتیں ،وہ شبِ وصال کی راحتیں کہاں، سب قصہ پارینہ بن گئے۔اب وہ عہد ساز شخصیتوں کی یادیں تاریخ کے نہاں خانوں میں دفن ہو گئیں ۔اب نسل نو کے پاس وقت ہی کہاں “عفریت عظیم “انٹرنیٹ کی دنیا سے نکل کر تاریخ کے نہاں خانوں میں چھپے ان گوہرِ نایاب شخصیتوں کی زندگی سے آشنا ہو۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغِِ رُخِ زیبا لے کر
عبد المجید سالک “یاران کہن “میں مولانا محمد علی” کامریڈ والے “سے لے کر مولانا بیدل شاہجہان پوری تک کی ہر ادا نہایت سادہ لفظوں میں زیب قرطاس کیا ہے۔محمد علی جوہر کے شیوا بیانی ،فصیح اللسانی،جرآتِ ایمانی،غیرت و حمیتِ ملی کے نغمے مولانا شوکت علی کے شوخی پن ، ظرافت و حس مزاح کے ترانے،تحریک خلافت سے لے کر کانگریسی رہنماوں سے جنگ ،”قندھار چلو “سے لے کر “مولانا کی بدپرہیزی ” تک ہر گوشے حیات پر نہایت زمہ داری سے خامہ فرسائی کی ہے۔”لطیفوں کا مخرن” کے عنوان سے لکھتے ہیں۔اک دن کسی نے مولانا شوکت سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی ذوالفقار علی خان کا تخلص گوہر اور مولانا محمد علی کا تخلص جوہر ہے مگر آپ کا کیا تخلص ہے تو انہوں نے بے تکلف ہو کہا کہ ‘شوہر۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں