عبد الملک بن مروان کا دورِ حکومت ہے ، مصر پر نیا سپہ سالار مقرر کیا جاتا ہے ، موسیٰ بن نصیر اس کا نام ہے ، کہنے کو ایک آزاد کردہ غلام ہے لیکن حقیقت میں نہایت ہی ذہین و سمجھدار آدمی ہے ، جہاں سپہ سالاری نے اسے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کر رکھا ہے وہیں زمامِ گورنری بھی اسی کے ہاتھ میں ہے ، ایک عجیب قوم سے اس کا سامنا ہوتا ہے بڑی ہی جنگجو اور نڈر قوم ، جو سنبھلنے کو ہی نہ آئے ، لیکن آخر کب تک کوئی حق کے سامنے ٹہر سکتا ہے کچھ عرصے بعد ایک وقت آتا ہے اور وہ قوم مسلمان ہو جاتی ہے ۔
کل کے دشمن آج کے یار دوست بن جاتے ہیں ، کل تک مخالفت میں نکلنے والی تلواریں آج دفاع میں آگے آگے نظر آنے لگتی ہیں ، کل تک مارنے کے ارمان رکھنے والے آج کٹ مرنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔۔۔
یوں موسی بن نصیر شمالی افریقہ میں حکومت کرنے لگ جاتے ہیں ، اسلامی طرز حکومت کی برکتیں چہار سو پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں ، عجیب عدل و انصاف اور امن و امان کی فضا قائم ہو جاتی ہے ، پڑوسی ریاستیں جو پہلے مارے خوف کے کانپ رہی تھیں اب ان کی نظریں اسی جانباز کی طرف اٹھ جاتی ہیں ، شاہِ اندلس راڈرک کے ظلم و جبر سے پریشان قوطیہ قبائل کا سردار “کاؤنٹ جولین” اپنی قوم کی طرف سے موسی بن نصیر کو دعوت دیتا ہے اور راڈرک کے خلاف مدد کیلئے پکارتا ہے ، اور پھر یہ تو شیوہ مسلمانی ہے کہ مظلوم کی پکار پر لبیک کہے۔۔۔۔اسی پکار پر تو محمد بن قاسم عرب کے صحراؤں میں سرپٹ گھوڑے دوڑاتا ہندوستان کے دریاؤں کو چیرتا ہوا راجہ داہر کے سر پر قہرِ الٰہی بن کر نازل ہوا تھا۔۔۔۔پھر بھلا موسی بن نصیر کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔۔
وہ بھی لبیک کہہ دیتے ہیں۔۔۔۔اور نئے نئے مسلمان ہونے والے سپاہیوں کو یہ ذمہ سونپ دیتے ہیں۔۔۔۔
طارق بن زیاد نامی ایک سالار سات ہزار فوج لے کر اندلس (اسپین) کی جانب رواں دواں ہوتا ہے اور مظلوم عیسائی قوم کی مدد کو پہنچ جاتا ہے ، شاہِ اندلس راڈرک کی فوج کو سخت ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اپنی اس ہزیمت کو “بربریت” (barbarism) کا نام دے دیتے ہیں۔۔۔۔۔
پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ یہ لشکرِ جرار اور اس کا لیڈر طارق بن زیاد یہ سب “بربر” قبیلے کے لوگ تھے۔۔۔۔۔وہ قوم جو موسی بن نصیر کے ہاتھ پر ایمان لائی پوری کی پوری “بربر” قوم تھی۔۔۔۔کیونکہ مظلوموں کی صدا پر لبیک کہنے والے سارے جنگجو “بربر” تھے۔۔۔۔
لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم “بربریت” کو ظلم و جبر اور زیادتی کے نام سے یاد کرتے ہیں ، کیا یہ ہماری اپنے اسلاف کے ساتھ زیادتی نہیں؟ کیا بربر قوم کی طرف ظلم کو منسوب کرنا بذاتِ خود ایک ظلم نہیں؟
یا پھر مظلوموں کی داد رسی کرنا ظلم ہے ؟ اور ظالم کو شکست دے کر مار بھگانا جبر و زیادتی ہے؟
یا پھر ہم انگریز کی تقلید میں ایسے اندھے ہو گئے ہیں کہ اگر وہ ہمارے بزرگوں کو گالی دے تو ہم بھی اس میں شریک ہوں گے؟ اور جانے ان جانے میں ان عدل و انصاف کے میناروں کی کاوشوں کو ظلم و ستم سے تعبیر کرنے لگیں گے؟؟
پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ:
اس قومِ بربر کی عظمتوں کا سلسلہ یہیں نہیں رک جاتا بلکہ طارق بن زیاد کے بعد ایک اور عظیم جرنیل اور حکمران “یوسف بن تاشفین” بھی بربری تھے جن کے کردار اور کاوشوں کو سونے کے پانی سے لکھا جائے تو بھی شاید کم ہو۔۔۔۔اسی طرح عظیم مفکر و مؤرخ “ابن خلدون” بھی بربری تھے جن کے “مقدمہ” نے علمِ تاریخ میں نئی جہتیں متعارف کروائیں اور دنیا کو ایک الگ سوچ و طرزِ فکر سے نوازا۔۔۔۔پھر معروف سیاح “ابن بطوطہ” بھی بربری تھے جنہوں نے صرف سفر ہی سفر میں زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف کیا اور اقوامِ عالم و احوالِ عالم کو اس خوبصورتی سے رقم کیا کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔۔۔ان سب سے بڑھ کر علم و حکمت کے بحرِ بے کراں “امام غزالی” بھی بربری تھے کہ جن کی حکمت و دانائی کی ایک دنیا معترف ہوئی۔۔۔۔
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو؟
تو بات یہ کہ:
ہمیں تو بربریت کا معنی عدل و انصاف کا قیام ، قوم و ملت کی خدمت ، علوم و فنون میں مہارت ، علم و حکمت کا پرچار اور سب سے بڑھ دینِ امن و سلام کے ذریعے نفاذ امن و سلامتی ہی کے نظر آتے ہیں۔۔۔۔اور کہاں ہم ہیں کہ اس کی نسبت ظلم و زیادتی کے ساتھ کر کے اپنے ہی اسلاف پر طعن کر رہے تھے۔۔۔۔اسی لئے آج بھی ہمیں ضرورت ہے کہ:
اپنی تاریخ کو پہچانیں ، اپنے اسلاف کو پڑھیں ، اور کچھ تو اپنی اقدار کا پاس رکھیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں