ٹی ایل پی کو بُننے والوں اور استعمال کرنے والی طاقتوں کے کیا عزائم تھے، پورے ہوئے، نہیں ہوئے یا کسی حد تک ہوئے, طاقتیں اور ان طاقتوں کو پیدا کرنے والی طاقت جانتی ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے رویوں میں کتنا تضاد ہے، رویے مناسب ہیں یا ہم رویے اپنانے سے ہی خائف ہیں۔ ہم بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ٹی ٹی پی دہشت گردوں کا ٹولہ ہے لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹی ٹی پی کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ بڑی طاقتوں کا اپنی طاقت کا اظہار اور جس سے کرائے کے ملازمین کی روزی روٹی یا کسی مقصد کا جڑا ہونا ہے کے کاندھوں کو طاقت کے نشے میں دھت بندوقیں چلانے کے لیے استعمال میں لایا گیا۔ ایسا اس لیے کیا کیونکہ امن اور دہشت ایک ہی دکان کی پراڈکٹس ہیں۔
اگر ریاست کسی گروہ کو کھڑا کرے، غیر ریاستی اعمال و افعال کے لیے اکسائے، ہڈیاں پھینکے اور ریاست کے ٹٹ پونجیے سی حیثیت والا گروہ وہی کرے جیسا مالک کہہ رہا ہے تو ایک منصف سے یہی توقع رکھنا چاہیے کہ وہ ریاست پہ بھی اسی طرح غرائے جیسا ٹی ایل پی کے حصے میں آیا لیکن منافقت کہیں یا عقل دشمنی, یہاں یا تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے یا سورج مغرب سے نکلتا ہے۔ اس ریاست کی سیٹی، تالی، انگلی اور اشارے پہ ناچنے والے کو برا کہا گیا جبکہ کام ہو جانے پہ مالک کو اپنے ہی ظلم و بربریت کی دکان بند کرنے پہ شاباشی بھی دی گئی۔ ٹی ایل پی کے پیچھے کون ہے, کوئی کون ہوتا ہے نام اگلے لیکن سب اچھے سے جانتے ہیں کہ کون ہے۔ طاقت کا نشہ کرنے والے کے آگے حسین علیہ السلام جیسا کردار ہی کھڑا ہو سکتا ہے لیکن یہ کونسی کتاب سے ماخوذ ہے کہ ‘اپنا کام بنتا, بھاڑ میں جائے جنتا’ جیسا رویہ اپنائے دہشتگردوں کی نرسریاں بنانے والی ریاست کو محض ٹی ایل پی کے دکان بندی پہ شاباشی دی جائے؟ یاد کریں جب ایک ‘مجاہد ختم نبوت’ ووٹوں کے لیے مذہب کا غلط استعمال کر رہا تھا اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسی کردار کی کمر توڑنے کی بجائے اس کے لیے سروں پہ صوفے سجائے جا رہے ہیں۔
ہم نے یہ دیکھا کہ گلیوں میں فرائض منصبی کی ادائیگی پہ معمور وردیوں کو واصل جہنم کیا گیا حالانکہ وہ فساد فی الارض کے مرتکب لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتے دکھاتے شہادت کے رتبے پہ فائض اور کئی زندگی و موت کی کشمکش میں ہیں۔ یاد رہے جو نوکریاں بچانے کے لیے اور اپنے بچوں کے لیے بہتر سے بہتر افطاریوں کا بندوبست، عید کے کپڑوں کا انتظام، سکول فیسوں، بلوں کی ادائیگی اور دیگر لوازمات کو ممکن بنانے کے لیے گلیوں کوچوں میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آتے ہیں وہ بے قصور ہیں۔ اگر اتنا ہی عشق مچل رہا ہے تو اس کے آگے کیوں گھٹنے ٹیک دیے جو دور ہاتھی پہ بیٹھا اشاروں پہ نچوا رہا ہے؟ یہ مان لیا کہ یہ جیتے جاگتے انسان تھے اور گستاخوں میں ان کا شمار تھا لیکن کیا غریب کا رکشہ، ملازم کی گاڑی اور بے روزگار کا بائیک بھی گستاخی کا مرتکب ہوا تھا؟ امیر کے جرم کا بدلہ غریب اپنے ہی غریب سے کب تک لے گا؟ ایسی جی دار خواتین بھی نظر آئیں جنھوں نے عاشقوں کے ہجوم سے اپنے لیے ایسے راستہ بنایا جیسے پانی بنایا کرتا ہے۔
سوشل میڈیا مجاہدوں کا ماننا ہے کہ جواز تراشنا نظریہ ضرورت کے ماننے والوں کے لیے از حد ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی بھی تو تین ماہ یہی کچھ کرتی رہی ہے۔ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایک سو چھبیس دن اور تین دنوں کا موازنہ دیکھا جائے کہ وہاں صرف گملے ٹوٹے حالانکہ ستاروں کا علم رکھنے والوں کے مطابق وہ سب کیا جا سکتا تھا جتنا ان میں دم تھا کیونکہ ان کے پیچھے بھی ریاستی عناصر کا دخل تھا۔ گملوں سے معاملہ آگے بھی لے جائیں مثلاً ٹی وی چینلز اور صحافیوں پہ حملے وغیرہ تب بھی پچھلے دو دنوں سے موازنہ کریں تو قیامت کے مقابل کچھ اشاریے کا زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تو زبردستی کلمے پڑھائے گئے اور خدا جانے زندیق، کافر، گستاخ اور مرتد تک کے فتوؤں سے زبانیں تر رہیں۔ ایک سیاسی انتخابی مہم یا سیاسی مخالفین کے خلاف احتجاج کے مقابلے میں خالص مذہبی تحریک یا احتجاج عوامی خوف پیدا کرنے میں آگے نکل گیا ہے۔

ریاست کو للکارنے سے پہلے دو لاکھ تیار رہے اور جیل میں رہنے کا ہنر سیکھ لیا جانا چاہیے۔ ان کے بدمعاش رویوں پہ متفق علیہ عوامی رویہ خاموشی یا محدود احتجاجی آواز ہے البتہ یہ اختلاف جائز ہے کہ گندے مرجھائے ہوئے کردار کی کمر پہ تھپکیاں دے کر اسے کاندھے اچکانے کا موقع مت فراہم کیا جائے۔ ریاست نے گناہ دھویا نہیں بلکہ اپنے گناہ پہ سیاسی پردہ ڈالا ہے۔
Facebook Comments