• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عظیم برادر (کش) ہمسایہ ملک افغانستان کے عظیم کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ ۔۔۔۔رانا اظہر کمال/قسط1

عظیم برادر (کش) ہمسایہ ملک افغانستان کے عظیم کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ ۔۔۔۔رانا اظہر کمال/قسط1

ڈاکٹر نجیب اللہ کا تعلق احمد زئی قبیلہ سے تھا، وہی قبیلہ جس سے موجودہ افغان صدر اشرف غنی تعلق رکھتے ہیں۔ 1947 میں پیدا ہونے والے نجیب اللہ نے کابل یونیورسٹی سے میڈیسن میں گریجوایشن کی تھی جہاں وہ کمیونسٹ نظریات سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے 1965 میں افغان کمیونسٹ پارٹی پی ڈی پی اے کے پرچم دھڑے میں شمولیت اختیار کی جہاں وہ ببرک کارمل کے قریب آگئے۔ کارمل جب ایوان زیریں کے رکن منتخب ہوئے تو نجیب ان کے ذاتی محافظ دستے کے سربراہ کے طور پر سیاسی حلقوں میں جانے لگے۔ 60 کی دہائی کے اواخر اور 70 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں افغان دارالحکومت میں کمیونسٹ سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہو چکے تھے۔ انہی برسوں میں پاکستانی پختون اور بلوچ قوم پرست رہنما بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رہے تھے۔ پاکستان چونکہ سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کے ذریعے امریکی حلیف تھا تو سوویت یونین میں بھی پاکستان کے لیے سرد جذبات پایا جانا قدرتی امر تھا۔ دوسری جانب بھارت کا پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اور اس تکون میں تیسرا کونا افغانستان خود تھا جسے روز اول ہی پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر تحفظات تھے۔ اس طرح سوویت یونین، بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان کی مغربی سرحد پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوشاں تھے جس میں انہیں پاکستانی قوم پرست جماعتوں اور رہنماؤں کی خدمات حاصل تھیں۔ اگرچہ ہمارے قوم پرست بھی متضاد نظریات رکھتے تھے یعنی بیک وقت کمیونزم اور قوم پرستی کے دعویدار تھے تاہم فی الوقت یہ دو رنگی ہمارا موضوع نہیں۔

ڈاکٹر نجیب اللہ جو 70 کی دہائی شروع ہونے تک کمیونسٹ نظریات کے باعث خود کو صرف ڈاکٹر نجیب کہلانا پسند کرتا تھا، ان دنوں کابل میں پاکستانی قوم پرستوں سے بھی ملنے جلنے لگا۔ افغان رہنماؤں کی یہ “خوبی” بہرحال تسلیم کی جانی چاہیے کہ ظاہر شاہ ہو یا داؤد خان یا کمیونسٹ رجیم، سب یکساں طور پاکستان کے لیے منفی جذبات رکھتے تھے۔ اگرچہ اس رویے میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں کیونکہ صدیوں سے انتشار اور ناکامی سے دوچار قوم میں ایسے جذبات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب ان کے پاس ایک روشن لیکن حقیقتاً فرضی اور خیالی تاریخ بھی ہو۔اسی نام نہاد عظمت پر جب کمیونزم کا تڑکا لگا تومفلوک الحال افغانی خود کو سوویت یونین کا ہم پلہ سمجھنے لگے۔ اسی ذہنیت کے ساتھ کمیونسٹ رہنما جیسے میر اکبر خیبر، ببرک کارمل، نور محمد ترہ کئی اور نجیب پاکستانی قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے جو ان دنوں کابل کے مہمان تھے۔ نجیب اس وقت تک پرچم پارٹی میں کافی مقبول ہوچکا تھا اور “بیل یا سانڈ” کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس نام کی دو وجوہات مشہور ہیں جن میں سے ہم صرف دوسری اور نسبتاً معقول وجہ کا تذکرہ کریں گے۔ اپنے نظریات کے پرچار میں شدت اور مخالفین کے لیے اس کے افعال میں سخت گیری کے باعث پرچم پارٹی میں اس کا یہ نام معروف ہوا تاہم کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسے یہ نام سوویت ایجنسی کے جی بی نے دیا تھا۔

ڈاکٹر نجیب اللہ احمد زئی

افغانستان میں انقلاب ثور 1978 میں برپا ہوا جس میں نور محمد ترہ کئی نے صدر داؤد خان کو قتل کروا کے زمام اقتدار سنبھالی۔ نجیب اس انقلاب سے ایک برس قبل کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا رکن منتخب ہو چکا تھا۔ انقلاب کے بعد پی ڈی پی اے کے دونوں دھڑوں میں اختلافات بڑھ گئے تھے۔ اس دور میں نجیب کو پہلے ایران میں سفیر مقرر کر کے کابل کے منظر نامے سے ہٹایا گیا کیونکہ خلق دھڑے والے اسے نا پسند کرتے تھے۔ بعد ازاں اسے سفارت سے بھی معزول کر دیا گیا اور نجیب نے مشرقی یورپ میں جلا وطنی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ادھر کابل کے اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشیں عروج پر تھیں، حفیظ اللہ امین نے نور محمد ترہ کئی کو ہٹا کر اقتدار سنبھال لیا اور کچھ دن کے بعد ترہ کئی کو قتل کر دیا گیا۔ البتہ ترہ کئی سوویت یونین کے ساتھ “دوستی و تعاون کا بیس سالہ معاہدہ” کر چکا تھا اور سوویت ایجنسی کے جی بی بگرام میں اپنا بڑا مرکز قائم کر چکی تھی۔ حفیظ اللہ امین کے بارے میں کے جی بی کو شبہ تھا کہ امین درپردہ طور پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہے لہذا سوویت فوجی دستوں نے حفیظ کو قتل کر کے اقتدار کی کرسی پر اپنے کٹھ پتلی ببرک کارمل کو بٹھا دیا۔ اقتدار میں اس تبدیلی کے بعد نجیب پراگ سے واپس کابل پہنچا ۔

افغانستان میں سوویت افواج کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور اسلام پسند مجاہدین پاکستان کی مدد سے جہاد لانچ کر چکے تھے، ان حالات میں سوویت یونین کو افغانستان میں ایک مضبوط بلکہ خونخوار خفیہ ایجنسی کی ضرورت تھی جو اندرونی محاذ سنبھالنے کے علاوہ پاکستان کو بھی سبق سکھا سکے۔ سوویت کے جی بی کا سربراہ پولٹ بیورو کا اہم ترین رکن یوری آندروپوو تھا جسے آگے چل کر صدر برزنیف کے بعد روس کی صدارت بھی سنبھالنا تھی۔ اس نے افغان خفیہ ایجنسی “خاد” کو وسعت دینے اور فعال کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کی ذاتی ہدایات پر نجیب کو میجر جنرل کا عہدہ دے کر خاد کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ نجیب نے خاد کو مکمل طور پر کے جی بی کے مشیروں کی ہدایات کے مطابق فعال بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ اس کی آمد سے قبل خاد میں صرف 100 سے 150 ایجنٹ کام کر رہے تھے۔ نجیب نے خاد کے کام کو چار مختلف ڈویژنز میں تقسیم کیا اور چار ڈپٹی ڈائریکٹرز کا تقرر کیا۔ البتہ مشرقی روایات کے عین مطابق اہم عہدوں پر اپنے رشتے داروں کو ترجیحاً تعینات کیا تاہم اس کے دور میں خاد کے ملازمین کی تعداد 150 سے بڑھ کر تیس ہزار تک جا پہنچی، ایک لاکھ سے زائد مخبر اور جزوقتی ملازمین اس سے الگ تھے۔ خاد کو افغان حکومت سے دفاعی بجٹ میں ایک بڑا حصہ ملنے کے ساتھ ساتھ کے جی بی سے بھی بھاری فنڈز ملنے لگے۔ خاد کا سب سے بڑا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظریات کی ترویج، مخالفوں کا صفایا اور پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں تھے۔ خاد کے تربیتی پروگراموں میں جو کچھ پڑھایا سکھایا جاتا تھا اس کا خلاصہ تھا کہ ہر ایجنٹ کے ایک ہاتھ میں کمیونسٹ نظریات کی کتاب ہونی چاہیے اور دوسرے میں بندوق ۔۔۔۔ یعنی جسے یہ نظریات تسلیم کرنے میں تامل ہو، وہ موت کا حقدار ہے۔

افغان خفیہ ایجنسی خاد (خدمات اطلاعات دولتی) کے سربراہ اور منسٹر فار سٹیٹ سکیورٹی کے طور پر ڈاکٹر نجیب کا کردار افغان تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ افغان کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر سوویت افواج افغانستان میں داخل تو ہو گئیں تھیں لیکن انہیں بہت بڑے پیمانے پر عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ افغانستان کو “کمیونائز” کرنے کے لیے کے جی بی نے خاد کی بھرپور سرپرستی کی۔ اسی سرپرستی کے باعث ڈاکٹر نجیب افغانستان میں ببرک کارمل کے برابر اہمیت کا حامل تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ نجیب سوویت پولٹ بیورو اور کے جی بی میں اپنے تعلقات کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ اس کے دور میں خاد میں موجود اس کے رشتے دار اور دوست کرپشن کی گنگا میں جی بھر کر نہائے، اسی طرح جیسے کچھ عرصہ قبل افغان پولیس کا سربراہ اور خود ساختہ نیم خواندہ جرنیل عبد الرازق اچکزئی اپنے عہدے اور اختیارات کو کرپشن کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

نجیب نے خاد کو اندرون ملک دو بڑے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ خاد کا ایک نشانہ اسلام پسند مجاہدین تو تھے ہی لیکن اس نے پی ڈی پی اے میں پرچم کے مخالف دھڑے “خلق” کو بھی نہیں بخشا۔ خاد کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا تاہم صرف کابل ہی میں خاد کے کم از کم آٹھ حراستی مراکز تھے جن میں سب سے زیادہ بدنام پل چرخی جیل تھی۔ نجیب کے چھ سالہ دور بطور سربراہ خاد، صرف پل چرخی جیل میں 27000 افراد کو تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا جن میں پروفیسر، ڈاکٹرز، انجنئیرز، طلبا، سرکاری ملازمین، سابق فوجی اورمعاشرے کے سرکردہ افراد شامل تھے۔ ان میں سے تقریباً 3000 افراد کا تعلق خلق دھڑے سے تھا اور ان کا قصور محض پرچم دھڑے کی مخالفت تھی۔ دیگر افراد وہ تھے جو افغانستان میں کمیونزم کو خوش آمدید کہنے پر تیار نہیں تھے یا انہیں حکومتی پالیسیوں سے اختلاف تھا اور وہ تحریر و تقریر پر کمیونسٹ پابندی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ نجیب کے بارے مشہور تھا کہ وہ ان حراستی مراکز میں تشدد کے متعدد سیشنز میں خود موجود ہوتا تھا اوراس عمل کی نگرانی کرتا تھا۔سوویت افواج کے انخلاء اور نجیب کے دور صدارت کے خاتمے تک کابل کے تمام حراستی مراکز میں تشدد کے ذریعے اگلے جہان روانہ کیے جانے والوں کی کل تعداد 50000 سے تجاوز کر چکی تھی۔

ہمارے ہاں بعض نام نہاد سوشلسٹ حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تشدد کی کہانیاں محض مغربی ذرائع ابلاغ کا پراپیگنڈا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 14 اکتوبر 2005 کو ہالینڈ کے شہر “دی ہیگ” کی عدالت نے خاد کے ان دو سینئر افسروں کو 12 اور 9 سال کی سزائے قید سنائی جن پر کابل میں سیاسی مخالفین پر تشدد میں ملوث ہونے اور انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا الزام تھا۔حسام الدین حسام اور حبیب اللہ جلال زئی نے 90 کی دہائی کے دوران ہالینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی۔ مختلف عدالتی مراحل سے گزرنے کے بعد ڈچ سپریم کورٹ نے 10 جولائی 2008 کو ان سزاؤں کی توثیق کر دی۔

افغانستان میں سوویت افواج کی آمد اور کمیونزم کے پھیلاؤ کی کوشش نے افغان عوام کو جو تحائف دیے، وہ ہمارے سوڈو دانشور حلقوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اس جنگ نے 50 لاکھ سے زائد افغانیوں کو ہجرت پر مجبور کیا جن میں سے 30 لاکھ سے زائد نےصرف پاکستان میں پناہ لی جبکہ لاکھوں ایران اور دوسرے ممالک میں دربدر ہوئے۔ ان مہاجرین کے علاوہ 20 لاکھ افراد افغانستان کے اندر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے (انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز)۔ اتنا بڑا انسانی سانحہ صرف اس لیے وقوع پذیر ہوا کہ عوام پر ان کی مرضی کے بغیر ایک درآمد شدہ نظریہ نافذ کیا جا رہا تھا۔ اس جنگ میں سوویت افواج کے انخلا تک کم و بیش 60000 مجاہدین جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ دوسری جانب 16000 سوویت فوجی بھی محض اپنی قیادت کی ہوس ملک گیری کی نذر ہوئے۔ ان کے علاوہ 23000 افغان فوجی کابل انتظامیہ کی جانب سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ان سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس جنگ میں جاں بحق ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے جن میں سے اکثر سوویت اور افغان فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔ سوویت افواج نے افغان فورسز اور خاد کے ساتھ مل کر 17000 گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ اس مقصد کے لیے سوویت فضائیہ، افغان فضائیہ اور بھاری توپخانے کا استعمال کیا گیا۔ پورے پورے دیہاتوں کو آتشگیر مادے سے جلا کر خاکستر کیا گیا، جس شخص کے بارے میں خاد کے مخبر یہ اطلاع دیتے کہ اس کا تعلق مجاہدین سے ہے، اس کے پورے گھرانے کو ٹینکوں سے روند دینا اس دور میں ایک معمول کی کارروائی تھی۔ ان تمام مظالم کے باوجود کابل انتظامیہ اور سوویت افواج افغانستان کے محض ایک چوتھائی حصے پر ہی کنٹرول رکھ پائیں۔ بقیہ افغانستان مستقل طور پر ایک میدان جنگ بنا رہا جس کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سوییت در اندازی کے خلاف بر سر پیکار مجاہدین میں سنی اور شیعہ گروپ دونوں ہی شانہ بشانہ لڑ رہے تھے اور ان گروپوں کو پاکستان، سعودی عرب اور مغربی دنیا کے علاوہ ایران کی انقلابی اسلامی حکومت کی بھرپور امداد بھی حاصل تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بحوالہ:
Afghanistan: The Soviet Invasion and the Afghan Response by Mohammed Hassan Kakar … P 156-161
Afghanistan: The First Five Years of Soviet Occupation by J. Bruce Amsutz … P264-268
The Encyclopedia of Middle East Wars: The US in the Persian Gulf, Afghanistan and Iraq Conflicts
By Spencer Tucker 2010
The Russians in Afghanistan 1979-1989 by Rodric Braithwaite
The Hague Justice Portal
US-Pakistan Relationship: Soviet Intervention in Afghanistan by A. Hilali 2005
Afghanistan’s Forgotten War Crimes ….abc.net.au/news
Afghanistan: The Soviet Invasion and the Afghan Response 1979-1982 by M. Hassan Kakar 1995

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply