مکالمہ کا ایک سال ,مکالمہ میرا استاد۔۔۔ ابراہیم جمال بٹ

ایک استاد وہ  ہوتا ہےجس کے سامنے زانوئے تلمذ اختیار کر کے فیض حاصل ہوتا ہے اور دوسرا استاد وہ جو سامنے تو نہیں ہوتا لیکن سامنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ ثانی الذکر کی بات کی جائے تو بلا مبالغہ میں کہہ سکتا ہے ہوں کہ ان میں میرا ایک استاذ ادارہ “مکالمہ” ہے۔ اس استاذ سے میں نے جس قدر فیض اٹھایا اور اٹھا رہا ہوں اس کے بارے میں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ استاذ سامنے تشریف فرما ہیں اور میں اس کے فیض سے فیضیاب ہو رہا ہوں۔
دراصل بات یہ ہے کہ جب سے میں نے اپنی ادھوری اور ٹوٹی پھوٹی تحریریں “مکالمہ” کو ارسال کیں، اُس نے مجھے کبھی نااُمید نہیں کیا، بلکہ ایک شفیق اُستاذ کی طرح میرے کمزور حروف پر نظر ثانی کر کے ان کو اس طرح مالا میں پرودیا کہ مجھے نہ صرف امید پیدا ہوئی بلکہ مجھ میں اس بات کا احساس پیدا  ہواکہ استاذ کی نرم دلی اور شفقت کیا ہوتی ہے۔
یوں آج اُستاذ کی طرح دور سے ہاتھ پکڑ کر اس طرح میری تربیت ہورہی ہے کہ آج میں لکھنے سے قبل بار بار سوچتا ہوں کہ ارسال کروں یا نہ کروں۔۔۔۔۔ کیوں کہ مجھے میری اصل حقیقت معلوم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ مجھ پر یہ عیاں ہو چکا ہے کہ میں لکھ تو سکتا ہوں لیکن اسے قابل اشاعت نہیں بنا سکتا۔۔۔۔ !
“مکامہ” میرے ان استاذوں کی فہرست میں ایک ہے جن سے مجھے لکھنے میں مدد ملی۔ کم پڑھا لکھا آدمی اپنی بات کو زبان پر تو لا سکتا ہے لیکن تحریری صورت نہیں دے سکتا، میں خدا کے ہاں شکر بجا لاتا ہوں کہ جس نے مجھے ایسے بے شمار غیبی استاذ فراہم کئے جن سے میں نے فیض حاصل کیا، حالانکہ کم لکھا پڑھا ہونے کے باعث میرے لفظوں میں دم نہیں تھا، تاہم استاذوں کی مہربانی اور ہمدردی کی وجہ سے میں اپنے آپ کو مطمئن پارہا ہوں کیوں کہ میں جو بات زبان پر لانا چاہتا ہوں، اللہ کے فضل وکرم سے سے زبان پر کم، کاغذ پر الفاظ کی صورت میں زیادہ استعمال کرتا ہوں اور یہ “تقریر کو تحریر” کی شکل دینا میرے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔۔ اس کے لیے میرے لیے ذریعہ کے طور پر “مکالمہ” جیسے استاذ ملے۔
آج ایک سال ہونے پر میں کیا کہوں۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر یہ کہوں کہ میں بچہ تھا اور آج کسی قدر بچپنے سے نکل کر کچھ جوان ہوچکا ہوں تو مبالغہ نہ ہو گا۔۔۔۔ اور یہ طفلانہ مزاج سے کسی قدر جوانی کی دہلیز پر پہنچنا ہی میرے لیے حیرت کی بات ہے۔ “ادارہ مکالمہ” کو سال بھر کی محنت کا ثمر ملا ہو یا نہ ملا ہو ،البتہ جب سے میں اس کے ساتھ جڑا، مجھے اس قدر ملا کہ بیان نہیں کر سکتا۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں مبالغہ آرائی کر کے ادارے کی تعریف کر رہا ہوں ،بلکہ یہ ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو میں دل کی عمیق گہرائیوں کے ساتھ آپ تک پہنچا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔!
ادارہ “مکالمہ” کو مجھ ناچیز کی طرف سے ایک سال مکمل ہونے پر مبارک باد،اور یہ دعا کہ اللہ کرے کہ ادارہ سے وابستہ کارکنان کی اس جدوجہد میں اور زیادہ خلوص اور لگن پیدا ہو۔ آمین

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply