• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امیرجان حقانی کے ساتھ ایک فکر انگیز مکالمہ(حصّہ اوّل)۔۔۔مرتب ومکالمہ: حافظ محمد فہیم علوی

امیرجان حقانی کے ساتھ ایک فکر انگیز مکالمہ(حصّہ اوّل)۔۔۔مرتب ومکالمہ: حافظ محمد فہیم علوی

سوال: تاریخ پیدائش،ابتدائی تعلیم اور خاندانی پس منظر سے آگاہ کیجیے۔

جواب:          امیرجان میرا نام ہے۔ حقانی تخلص ہے۔ والد گرامی کا نام شہزادہ خان ہے۔ دادا ابراہیم خان بن دوران خان بن نمبردار قربان ہے۔گلگت بلتستان کا قدیم علاقہ گوہرآباد ضلع دیامر چلاس سے تعلق ہےشناختی کارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش  دو جنوری انیس سو پچاسی( 1985/01/02) ہے۔ابتدائی تعلیم گوہرآباد ہائی اسکول، سٹیلائٹ ٹاؤن پرائمری اسکول چلاس اور گورنمنٹ ہائی سکول چلاس سےحاصل کیا ہے۔دسمبر 1999میں گوہرآباد ہائی اسکول سے جماعت ہشتم پاس کیا۔نورانی قاعدہ کا کچھ حصہ گھر میں اور باقی گوہرآباد کے معروف قاری، جناب قاری اشرف صاحب سے پڑھا، آخری دو پارے بھی قاری صاحب سے حفظ کیے۔2000ء کو اپنے عم مکرم موسی ولی خان کے ساتھ کراچی سدھار گیا  وہاں 2003ء تک حفظ مکمل کیا  اور ساتھ ہی کراچی بورڈ سے پرائیوٹ میٹرک پاس کیا۔حفظ جامعہ انوارالعلوم، جامعہ اشرف العلوم کورنگی اور دارالعلوم عربیہ تحفیظ الرحمان گلستان جوہر سے کیا۔قرآن کا دورہ  ،قاری طاہر رحیمی کے شاگر قاری فضل الرحمان سے کیا۔

سوال: بچپن کی کچھ حسین یادیں ، قارئین کے ساتھ شیئر کریں گے۔

جواب:      بچپن کا مطلب ہی حسین ہے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ بچپن کی ساری یادیں حسین ہیں۔ہمارا بچپن گاؤں میں گزارا ہے۔ کچھ اوقات چلاس شہر میں بھی بغرض تعلیم گزرے ہیں،  تاہم سارا بچپن  کا پس منظر دیہاتی ہے۔ بہت ساری شرارتیں کی۔درختوں پر چڑھ کر پھل اتارنا خاص مشغلہ تھا۔ ماموں لوگوں کی بکریاں تھی۔ کزنز کے ساتھ بکریاں چرانے چلے جاتا۔ بکریوں کی باقاعدہ پٹائی کرتا جیسے اساتذہ طلبہ کی پٹائی کرتے ہیں۔بچپن میں  گلی ڈنڈا، بسرا، والی بال  بڑے شوق سے کھیلتا۔گھر سے باہر کبھی چوری نہیں کی، البتہ اپنے والد صاحب کے پیسے چرائے۔خاص صندوق کی چابی ہاتھ لگی تھی ۔ تو آہستہ آہستہ پانچ چھ ماہ میں بہت سارے پیسوں پر ہاتھ صاف کیا۔ یہ غالبا جماعت ہفتم کی بات ہے۔ تب میں اکلوتا بھائی ہوتا تھا ۔ کوئی کچھ نہیں کہتا۔اپنے کزن کیساتھ ملکر اپنے تایا چاچا  کے جیب پر بھی کھبی کبھار ڈاکہ مارلیتے۔بچپن میں دادا دادی، نانا ، نانی کا بے حد پیار ملا۔ ایک دفعہ گھر سے بھاگ کر ماموں کے پاس چلا گیا تھا۔ ایک دفعہ شیشے کے پیالے توڑ کر گاؤں میں ایک گھر سے بھاگ کر دوسرے گھر جہاں دادا دادی رہتے تھے پہنچ گیا تھا۔رات بھر میری تلاش جاری رہا۔جب رات کو والد صاحب لوگ مجھے ڈھونڈ کر دادا جی کے ہاں پہنچے ، میں دادا کیساتھ سویا ہوا تھا، والد صاحب نے مارنا چاہا تو دادا نے ان کی خوب خبر لی ۔ یہ مجھے جوانی کے بعد معلوم ہوا۔یعنی ابو کو لینے کے دینے پڑگئے۔

سوال: ادب کی طرف رجحان کا  سبب کیا بنا؟

جواب:        یہ تو ذہن میں نہیں کہ بچپن میں ادب سے وابستہ ہونے کا کیا سبب بنا ، البتہ میرے چاچا مولوی موسی ولی خان کی گھر میں سینکڑوں کتب موجود تھی اسی طرح تایا عذر خان صاحب بہت ہی مطالعہ کرنے والے انسان ہیں۔ گھر میں اخبارا ت بالخصوص جنگ اور اخبارجہاں بہت زیادہ آتے تھے۔ان میں کہانی بڑے  شوق سے پڑھتے۔تیسری جماعت سے اخبار پڑھنے کا معمول بن گیا تھا۔نوائے وقت بھی پڑھتا تھا۔تایا   روزنامہ ڈان بھی لاتے لیکن ہم وہاں صرف تصاویر دیکھتے اور ڈان اخبار سے کتابوں اور کاپیوں کی جلدیں بناتے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جماعت ہشتم سے پہلے کوئی ادبی کتاب بالاستیعاب پڑھی ہو، تاہم کراچی جانے کے بعد حفظ کے ساتھ ادبی کتب کا رجحان پیدا ہوا۔اشرف العلوم میں ضرب مومن  خریدتا اور مفتی عاشق الہی ؒ، شیخ حکیم اخترؒ اور مفتی تقی عثمانی مدظلہ کی بہت ساری کتابیں اور رسائل حفظ کے پہلے سال پڑھا۔ ساتھ ساتھ نویں کی  تیاری بھی کرتا تھا۔ حفظ کے آخری سالوں میں نسیم حجازی کے کئی ناول ایک رات میں ایک مکمل کرتا۔ ان دنوں جنگ اخبار کے کالم بلاناغہ عصر کے بعد ہوٹل میں پڑھتا تھا۔

سوال: تعلیمی سفر کے آغاز اور اختتام پر کچھ روشنی ڈالیں۔

جواب:  تعلیمی سفر کا آغاز نورانی قاعدہ اور سکول کے  قاعدہ میں الف ب سے شروع ہوا۔پہاڑہ یاد کرتے کرتے پہلا سال بیت گیا۔اور تعلیمی سفر کا اختتام نہیں ہوا۔ 2020 میں ایم فل مکمل کیا۔اب ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کا سفر جاری ہے۔ تاہم 2002 میں حفظ مکمل کیا۔2010 میں جامعہ فاروقیہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹر کیا ، کراچی یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس میں ایم اے، قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی سے  بی ایڈ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے  فکراسلامی، تاریخ و ثقافت میں  ایم فل کیا۔علامہ اقبال اوپن یونی سے اے ٹی ٹی سی بھی کیا ہے۔

سوال:  آپ نے ابلاغیات، دینیات اور سیاسیات میں ماسٹر کیا اور ڈگریاں حاصل کی۔متنوع موضوعات کے انتخاب کی خاص بات؟

جواب:  میں نے دیہات میں ہی اسکول کے ساتھ حفظ شروع کیا تھا تو شروع سے ہی دینی تعلیم کیساتھ عصری تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ ویسے بھی میں تعلیم میں دوئی یعنی عصری اور دینی کی تقسیم کا قائل نہیں ہوں۔  تعلیم بس تعلیم ہے۔ اس میں تقسیمات کا عنوان ہی اچھا نہیں لگتا۔ ہاں اپنے ذوق کے مطابق کسی خاص مضمون میں اختصاص ضروری ہے۔ جب بی اے  کررہا تھا تو اس وقت میں نے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ خامسہ کے سال ، ہفت روزہ چٹان گلگت  اور کے ٹو گلگت میں میرے کالم چھپنا شروع ہوئے تھے پھر سادسہ کے سال اسلام اخبار کے تعلیمی صفحہ پر میرا ایک فیچر شائع ہوا تھا جو پورے صفحے پر مشتمل تھا۔سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رضی الدین صاحب سے لیاقت لائیبریری میں دوستی ہوئی تھی۔ ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا ” پاکستان میں صحافت اور کالم نگار ی کے لیے دینیات اور سیاسیات پراچھی گرفت ہونا ضروری ہے۔ چونکہ آپ لکھنے کے حوالے سے شوقین ہیں ۔ صحافت میں ماسٹر بھی کرنا چاہتے ہیں تو پولٹیکل سائنس میں بھی ماسٹر کریں۔ یوں وفاقی اردو یونیورسٹی سے ریگولر ایم اے صحافت کیا   اور کراچی یونیورسٹی سے پرائیوٹ ایم اے پولٹیکل سائنس میں کیا۔میں پاکستانی مدارس کا پہلا طالب علم جس نے درس نظامی(سادسہ و سابعہ) کے ساتھ ساتھ ریگولر ایم اے صحافت کیا۔یوں آج تک عصری علوم و دینی علوم کا طالب علم بھی ہوں اور استاد بھی۔دونوں قسم کے بڑے اداروں سے عملی طور پر منسلک بھی ہوں۔اس حوالے سے اچھے تجربات ہیں۔ مزید بھی تجربات ہورہے ہیں۔

سوال: پوری تعلیم کراچی سے حاصل کی ہے۔ کراچی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب:        پورا کراچی میری  مادر علمی ہے۔کراچی کے پانچ دینی مدارس اور دو یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ لیاقت لائبیریری میں سالوں جاتا رہا۔ اردو سے محبت کی وجہ کراچی ہی ہے۔ زندگی کی گیارہ بہاریں کراچی میں گزری ہیں۔جامعہ فاروقیہ میں سات سال گزارے۔بہرصورت گلگت شہر اور کراچی کے دل میں جو وسعت ہے وہ بہت کم شہروں کے حصے میں آئی ہے۔ پورا پاکستان کراچی میں بستا ہے۔ اور پورا گلگت بلتستان ، گلگت شہر میں بسیرا ڈالا ہوا ہے۔اب بھی مستقل سکونت کے لیے  ملک بھر کے کسی شہر کا انتخاب کرنا پڑے تو کراچی کا ہی انتخاب کرونگا۔کراچی میں تہذیب بھی ہے ، علم بھی ہے، دولت بھی ہے اور سچ کہوں تو انسانیت بھی ہے۔کراچی میں مجھے سب سے اچھے اردو سپیکنگ والے لگے ہیں۔یعنی مہاجر۔

سوال:  کیا دینی علوم کیساتھ جدید عصری علوم و فنون کی تحصیل ضروری ہے؟ کیا دونوں کا حصول ساتھ ساتھ ممکن ہے؟

جواب:           یہ سوال مجھ سے سینکڑوں دفعہ ہوا ہے۔ میرے کئی دوستوں کا سوال یہ ہے کہ میں دینی علوم کے ساتھ جدید فنون کی پخ کیوں لگاتا ہوں ؟ اور دونوں میں بُعد ہے لہذا ایک ساتھ تحصیل کیسے ممکن ہے؟ اسکا مختصر خاکہ/ جواب ملاحظہ ہو۔
میرے کئی ایسے دوست ہیں جو عالم ہونے کیساتھ کسی عصری فن کے بارے میں آگاہی بھی رکھتے ہیں اور ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔
مثلاً  میرے ایک دوست ایم بی اے ہیں۔ذیشان پنجوانی جو کراچی کے میمن ہیں۔جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کے فاضل اور جامعۃ الرشید سے ایم بی اے کیا ہوا ہے۔ وہ قرآن اور حدیث میں بیان کردہ مالیاتی و تجارتی احکام و امور مجھ سے بدرجہ ہا بہتر سمجھتے ہیں.وہ بہت سے اسلامی مالیاتی مباحث کو سلیس انداز میں بیان کرتے ہیں جو مجھے درست سمجھ میں بھی نہیں آتے. کیونکہ میں جدید معاشیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔
کئی عالم دوست ایل ایل بی، ایل ایل ایم،وکلاء اور ججز ہیں۔یقین کیجیے وہ قرآنی قوانین اور فقہ و اصول فقہ کے مباحث بیس بیس سال فقہ کی تدریس کرنے والوں سے زیادہ باریک بینی کیساتھ سمجھتے ہیں۔اور جدید ریاست کے عدالتی اور قانونی معاملات کی اسلام کی روشنی میں درست تفہیم رکھتے ہیں۔ اور دوران مکالمہ بیان بھی کرتے ہیں۔
کچھ عالم دوست ایم ایجوکیشن ہیں، وہ بہر صورت اسلام کا نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور طرق تدریس مجھ سے ہزار گنا بہتر سمجھتے ہیں۔
کچھ ایم اے اردو ہیں جن کا درس قرآن و حدیث اور دینی موضوعات پر گفتگو بہت شائستہ، سلیس اور قابل فہم ہوتی، وہ جدید ذہن کو فورا اپیل کرجاتی ہے۔ان کی زبان بہت بااثر ہوتی اور گفتگو اشعار و محاورات سے مملو ہوتی۔محاروہ و روزمرہ کو خوب استعمال کرتے ہیں۔
میں نے ایم اے ماس کمیونیکیشن اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا ہوا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ میں اپنے ہم عمر فضلاء دوست، جنہوں نے صرف درس نظامی کی تکمیل کی ہیں سے، اسلام کا نظریہ اقتدار اعلی، نظام حکومت، طرز ہائے حکومت، شعبہ جات،آئین و قانون سازی، اولوالامر، شورائی نظام، انتخاب حاکم اور معاشرہ و فیملی سسٹم زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرسکتا ہوں۔ وہ صرف اس لیے کہ مجھے قدیم و جدید طرق ہائے حکومت اور کچھ مغربی و مشرقی سیاسی مفکرین اور جدید دنیا کے آئین پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملا ہے۔اگر مجھے علم سیاسیات اور اسلامی علوم میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل جاتا تو یقیناً  میں کافی کام کرسکتا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ مبادیات کی حد تک رہ گیا۔
اگر ہمارے احباب کو بنیادی عربی و اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد قرآن و حدیث کیساتھ اپنے ذوق کے عصری مضامین پڑھنے کا موقع فراہم کیا جاوے تو بعید نہیں کہ جدید دنیا کی ہر فیلڈ کے اسلامی  ماہرین تیار ہوں اور ان کے پاس اسلامی علوم کا بڑا حصہ بھی محفوظ ہو۔وہ آج کی دنیا کے مسائل اور معاملات کو دینی احکامات کا رعایت کرتے ہوئے چلاسکیں۔
مثلاً  میٹرک کے بعد آٹھ سالہ نظام میں ابتدائی چار سالوں مین قرآن وحدیث کیساتھ صرف و نحو اور عربی و انگریزی کلاسز ہوں۔ اگلے چار سالوں میں قرآن و حدیث کیساتھ کسی ایک مضمون مثلاً معاشیات، لاء، ٹیکنالوجی، ایجوکیشن، فزکس، کیمسٹری، بیالوجی یا کسی اور مضمون کے مبادیات اور اعلیٰ  کتب پڑھائی جائیں۔
مثلا  ً ان چار سالوں میں ہر سال، تین تین مضامین قرآن و حدیث کے ہوں باقی چار چار مضامین اسی مخصوص مضمون( مثلامعاشیات یا  ایجوکیشن، سوشیالوجی وغیرہ) کے ہوں۔ تو اسی مضمون کی سولہ کتب بالاستیعاب استاد سے پڑھنے کے بعد طالب علم قرآن و حدیث کیساتھ متعلقہ فن کا بھی بڑی حد تک ماہر ہوسکتا ہے۔یہی ترتیب مدارس اور سرکاری جامعات میں آسانی سے لاگو کی جاسکتی ہے، ایسا سلیبس اور تعلیمی نظام  ڈیزائن کیا جاسکتا ہےاور ان تمام مضامین کے لیے اساتذہ بھی آسانی سے مل سکتے ہیں۔ آج تو ہر مضمون کے ایم فل اور پی ایچ ڈی لوگوں کی بہتات ہے۔ایم اے کے بعد یہی طلبہ متعلقہ مضمون میں قرآن و حدیث کے تجزیہ و تحلیل اور استدلال کیساتھ تخصص(ایم فل، ایم ایس، ڈاکٹریٹ اور پوسٹ ڈاکٹریٹ) کریں تو ان کی تحقیقات سے پوری دنیا استفادہ کرسکتی ہے. بہر صورت اس کو مزید وضاحت سے بیان کیا جاسکتا ہے۔

اگر مدارس و جامعات اور یونیورسٹیاں ایسا نصاب تعلیم مرتب  کرتی ہیں تو یہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی شروعات ہونگی۔ البتہ موجود ہ سسٹم میں درس نظامی کیساتھ کالج یونیورسٹی کی تعلیم یا کالج یونیورسٹی کی تعلیم کیساتھ درس نظامی کی تحصیل بہت مشکل اور صعب کام ہے۔ بہت سارے لوگ میری طرح تجرباتی عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن کمال جامعیت کے ساتھ ان علوم میں دسترس حاصل نہیں کرسکتے۔ دونوں کا ساتھ ممکن تو ہے البتہ دشوار بہت ہے۔ ادارہ علوم اسلامی بارہ کہو اسلام آباد اور دیگر کچھ ادارے کافی عرصے سے دونوں کے” امتزاج والا” تجربات کررہے ہیں۔ خاطرخواہ نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

سوال: دینی جامعات، کالج اور یونیورسٹی میں جن اساتذہ سے فیض اٹھایا، ان کا کچھ ذکر ہوجائے۔

جواب:        میرے تمام اساتذہ میرا فخر ہیں۔حفظ سے لے کر ایم فل تک کے تمام اساتذہ قابل احترام ہیں۔جامعہ فاروقیہ میں سات سال بتائے۔استادمحترم مولانا عبداللطیف، مولانا حبیب اللہ زکریا،مولانا ولی خان المظفرسے بہت قریبی تعلق رہا۔ مولانا ولی خان المظفر سے بہت انسپائریشن لی۔ وہ طلبہ کو آگے بڑھنے میں بے حد اکستاتے۔استاد منظور مینگل سے بھی بڑی دل لگی ہوتی تھی۔مولانا یوسف افشانی جیسے بزرگ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جامعہ فاروقیہ کے لائبیریرین مولانا خادم الرحمان میرے اچھے دوست تھے۔استاد محترم مولانا عبدالستار(بیت السلام) سے بھی بہت رہنمائی لی۔اب تک ان سے گہرا تعلق ہے۔باقی اساتذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔وفاقی اردو یونی ورسٹی میں ڈاکٹر توصیف سے پڑھا۔بڑے لبرل اور دلچسپ انسان تھے۔ ڈاکٹر وحیدالرحمان(یاسررضوی) سے ماس کمی نیکیشن میں کئی سبجکٹ پڑھے۔تب وہ کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے تھے جامعہ اردو میں پڑھا رہے تھے۔ ہمارے بعد، جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر بنے تھے انہیں شہید کردیا گیا۔ میرے بہت اچھے استاد تھے۔میری بطور لیکچرر تقرری پر بے حد خوشی کا اظہار کرکے ایک طویل میسج بھی کیا تھا۔ایم فل میں بھی بہت سارے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی، ڈاکٹر علی اصغر چشتی، ڈاکٹرحافظ سجاد، ڈاکٹر معین الدین ہاشمی اورسے خوب استفادہ کیا۔ ایم فل میں میرے سپروائزر ڈاکٹر محی الدین ہاشمی تھے۔ اتنے شفیق، ہمدرد اور دوستانہ ماحول بنانے والے کم اساتذہ ہوتے ہیں۔وہ کلیہ عربیہ و علوم اسلامیہ کے ڈین بھی تھے اور  شعبہ فکر اسلامی تاریخ و ثقافت کے چیئر مین بھی اور ساتھ ہی ایم فل کے داخلوں کے کوارڈینٹر بھی تھے۔چار سال کے طویل عرصے میں کبھی ہلکی سی خفگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔

بخاری شریف کا کچھ حصہ استادالحمدثین مولانا سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ، کچھ حصہ استاد محترم مولانا انورصاحب مدظلہ اور کچھ حصہ ڈاکٹر عادل خان شہید سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔مولانا سلیم اللہ خان ؒ اور مولانا انورصاحب کی مستقل مزاجی اور درس حدیث سے محبت کا یہ عالم تھا کہ حدیث پڑھاتے تھکتے نہیں تھے ۔ان کے ہاں غیرحاضری کا خیال ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عادل خان شہید جیسے تحریکی اور وژنری انسان کم دیکھنے کو ملے ہیں۔اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔ایک ایک استاد کا ذکر مشکل ہے ورنا بہت طویل فہرست ہے۔ اللہ سب کا فیضان جاری وساری رکھے۔

استادمحترم مولانا ابن الحسن عباسی سے میرا گہرا تعلق تھا۔کمال کے لکھاری تھے۔  کئی  کتابیں لکھی ۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب متاع وقت اور کاروان علم کئی بار بالاستیعات پڑھی۔ اب تک پڑھ رہا ہوں۔میری تحریر میں مولانا حبیب زکریا کے ساتھ عباسی صاحب کی بہترین رہنمائی شامل ہے۔

سوال: تدریس کے سفر کا آغاز کب کیا؟

جواب:        جولائی 2010 میں جامعہ فاروقیہ سے فراغت ہوئی تھی۔تب گلگت بلتستان کالجز میں لیکچرار کی اسامیاں مشتہرہوئی تو علم سیاسیات کے استاد کے لیے اپلائی کیا۔ ستمبر 2010 سے ستمبر 2011 تک ٹیسٹ انٹرویو کے مراحل سے گزرا۔ تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے درمیان پورا ایک سال تھا۔ اسلام آباد کے ایک مدرسے میں تین ماہ   متوسطہ سال سوم  کی بہشتی گوہرپڑھایا۔اسی دوران  میں ہی  سالانہ تعطیلات میں گوجرخان  کی جامعہ علی المرتضی میں عربی لینکویج کا کورس کرایا۔جس میں طلبہ کے ساتھ چند علما بھی تھے۔ستمبر 2011 میں بطور پولٹیکل سائنس کے استاد ، پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت میں جوائنگ دی۔فرسٹ آئیر کی سوکس اور فورتھ آئیر کی پولیٹیکل سائنس پڑھانا شروع کیا اور ساتھ ہی جامعہ نصرۃ الاسلام میں بھی تدریس شروع کی جہاں پہلے سال زاد الطالبین، معلم الانشاء اور قصص النبین پڑھایا۔ دوسرے سال قدری و اصول شاشی پڑھانا شروع کیا جو مسلسل تین سال پڑھایا۔مدرسے کے طلبہ کو میٹرک کی تیاری بھی کراتا، جہاں انہیں انگلش گرائمر خصوصیت کے ساتھ پڑھاتا رہا۔2015 اور 2016 چلاس کالج پوسٹنگ ہوئی تھی۔ کالج کے ساتھ میرے دوست مولانا سمیع الحق کی بنات کا مدرسہ ہے جہاں قدروری، تیسرمصطلح الحدیث،شرح مائتہ عامل اور مختارات من ادب العربی پڑھایا۔ 2018 سے مدرسے میں تدریس کا سلسلہ رک گیا ہے تاہم کالج میں جاری وساری ہے۔جمعہ کو بالترتیب درس قرآن دیتا۔ یہ بھی کلاس روم کا درس جیسا بیان ہوتا ہے۔تدریس کی ایک شکل یہ بھی ہے۔

سوال: آپ کے مطالعے کا معمول کیا ہے؟ اس حوالے سے کیا اصول وضع کیے ہیں؟

جواب:      زمانہ طالب علمی  درسی کتب کے علاوہ کئی ادبی کتب کا مطالعہ استاد ابن الحسن عباسی کی نگرانی میں کیا۔ جمعرات اور جمعہ کے دن  ہفت روزہ القلم، ضرب مومن  اور ادبی  کتب کا مطالعہ مسلسل سات سال کیا۔فاروقیہ میں جمعہ  اورجمعرات کا بڑا وقت ملتا تھا جس میں ادبی کتب کا مطالعہ کرتا۔

مطالعہ کے حوالے سے میرا معمول یہ ہے کہ ہسپتال کے دروازے پر بھی کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔ گزشتہ سات اٹھ سالوں سے مطالعہ کرنا اتنا سہل ہوا ہے کہ آدمی کہیں پر بھی بیٹھ کر آن لائن  کتب و رسائل کی تحریریں اور پی ڈی ایف بکس کا مطالعہ کرسکتا ہے۔میرا تو یہی معمول ہے۔میرے نزدیک مطالعہ،  موبائل کی سکرین پر کسی ادبی شہہ پارے  کا ہو یا محقق کتب  کا، بہر صورت سب مطالعہ کہلاتا ہے۔میں موبائل کے سکرین سے بھی اتنا ہی فائدہ اٹھاتا ہوں جتنا مجلد کتابوں سے۔اس لیے دن کے ہر لمحے مطالعہ جاری رہتا ہے۔کئی سالوں سے اہم اخباری کالم موبائل پر ہی پڑھتا۔اور مختصر کالمز بھی موبائل پر ہی لکھ کر اخبارات اور ویب سائٹس کو ارسال کرتا۔

ایک بات ، پرنٹڈ کتاب کے مطالعہ کا اپنا الگ مزہ ہوتا ہے۔ طبع شدہ کتاب کے مطالعہ میں کچی پنسل ساتھ رکھتا ہوں۔ اہم پوائنٹ کی نشاندہی کرتا ہوں اور ضرورت محسوس کی  تو نوٹس بھی کتاب کے حاشیہ میں ہی لکھتا ہوں۔تاریخ بھی لکھتا ہوں کہ کب کس وقت کس صفحے پر پہنچا ہوں۔میرے ایک دوست ہیں پروفیسر احمد سلیم سلیمی صاحب، وہ ادبی کتب عنایت کرتے ہیں۔اور میں بڑے شوق سے پڑھتا بھی ہوں اور کمنٹس بھی لکھتا ہوں۔ ان کی دسیوں کتب پر بالاستیعاب  مطالعہ کے بعد طویل طویل کمنٹس لکھے ہیں۔

ایک ترتیب جو البتہ خاص ہے۔ رمضان المبارک میں  تفاسیر کا مطالعہ، ربیع الاول میں سیرت کی کتب کا مطالعہ، محرم  الحرام میں اہل بیت  پر مشتمل کتب کا ترجیحی بنیادوں پر مطالعہ کرتا ہوں۔اس کے علاوہ ریسرچ اور مختلف موضوعات اور ریڈیوپاکستان کے دینی  لیکچرز کے لیے سلیکٹڈ کتب کا مطالعہ کرتا ہوں۔ گوگل سے متعلقہ موضوع پر مواد جمع کرتا ہوں اور ان خاص موضوعات کا مطالعہ بھی چلتا ہے۔اصل مطالعہ یہی ہے جو کتاب کا بالاستیعاب کیا جائے۔

سوال: آپ کی پسندیدہ یا محسن کتابیں کون کونسی ہیں؟

جواب:        یہ بہت مشکل سوال ہے۔ سوال سے زیادہ اس کا جواب مشکل ہے۔ ایک طالب علم کے لیے اس سوال کا جواب دینا بھی مشکل ہے اور کتابوں کا احاطہ بھی مشکل ہے۔تفاسیر قرآن میں  معارف القرآن  لشیخ ادریس کاندھلوی، امام رازی کی احکام القرآن،صابونی کی صفوۃ التفاسیر، تفسیر عثمانی،تفہیم القرآن اور ترجمان القرآن اور آسان ترجمہ قرآن سے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔دوران طالب علمی  تفسیر عثمانی کا بڑا حصہ بار بار پڑھا۔

شروحات حدیث میں شیخ سلیم اللہ خان کی کشف الباری، اور دیگر صحاح ستہ کی اردو شروحات شروحات ، بذل المجہود، ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری،اور معارف الحدیث سے حتی المقدور استفادہ کیا۔کشف الباری کی کئی جلدیں بالاستیعاب پڑھی ہیں۔سچ کہوں تو کشف الباری سے محقق، سہل اور معیاری شرح بخاری شریف کی اردو میں کوئی نہیں۔

سیرت میں  رحمۃ اللعالمین، الرحیق المختوم،سیرۃ مصطفی، سیرت النبی(شبلی نعمانی) اور ضیاء النبی ، سے بھرپور استفادہ کیا۔مولانا نافع صاحب ؒ کی رحماء بینہم سمیت تمام کتب شاندار اور انتہائی عالمانہ ، محققانہ اور اعتدال و شائستگی پر مبنی ہیں۔

ناول میں احمد ندیم قاسمی کی  خدا کی بستی، قدسیہ بانو کی راجہ گدھ، قدرت اللہ شہاب   کا یاخدا،عنایت اللہ کی میں کسی کی بیٹی نہیں، عمیرہ احمد کی  پیرکامل،آگ کا دریا،احمد سلیم سلیمی کا دشت  آرزو بہت اچھے لگے ہیں۔ اور نسیم حجازی ، عنایت اللہ  کے تمام ناول، محی الدین نواب اور اسلم رہی کے کچھ ناول بہت اچھے لگے۔

سوانح عمریوں اور آپ بیتیوں میں آپ بیتی شیخ زکریا،دیوان سنگھ مفتون کی ناقابل فراموش اور سیف و قلم، یادوں کی بارات،دارالعلوم دیوبند میں بیتے آیام،اور ٹوٹ گئی زنجیر،یہ خاموشی کہاں تک،میرا فسانہ وغیرہ بہت شوق سے پڑھا۔

تاریخ میں البدایہ والنہایہ المعروف تاریخ ابن کثیر،جریرطبری کی تاریخ الامم والملوک، تاریخ اسلام معین الدین ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت،مولوی حشمت اللہ کی تاریخ جموں، پروفیسر احمد حسن دانی کی تاریخ گلگت سے ضرورت کے مطابق استفادہ کیا۔

وفیات میں یادرفتگاں، نقوش رفتگاں، مالک رام کی وہ صورتیں الہی،شورش کاشمیری کی نورتن کمال کی کتب ہیں۔

انٹرویوز میں  پروفیسرخورشید احمد کی، ملاقاتیں کیا کیا، اور جاویدچوھدری کی گئے دنوں کے سورج بہت ہی اچھی لگی ہیں۔ اس طرح کچھ بڑوں سے انٹرویوز کرکے لکھنے کی مشق بھی کی ہے۔

خطوط میں  غبار خاطر، بڑے لوگوں کے خطوط اور مولانا سمیع الحق کے نام مشاہیر کے خطوط انتہائی شاندار ہیں۔

سفرناموں میں  دنیا مرے آگے،جہان دیدہ،دریائے کابل سے دریائے یرموک تک،گوروں کے دیس میں،علامہ اسد کا روڈ ٹو مکہ(شاہرہ مکہ)، انبیاء کی سرزمین بہت اچھی لگی۔

شاعری کی تشریحات میں مطالب اقبال اور نقوش اقبال بھی شاندار ہیں۔

فکر و نظر میں  تفہیمات، تعبیر کی غلطی، مختارالدین شاہ کی دہریت سے اسلام تک،ڈاکٹر محمد فاروق کی کتب، اور جاوید احمد غامدی صاحب کی کتب سے ٹھیک ٹھاک استفادہ کیا ہے۔

کیرئیر کونسلنگ اور گائیڈینس میں متاع وقت اور کاروان علم، قیمۃ الزمن عندالعلماء،شاہراہ زندگی پر کامیابی کا سفر،اسٹیفن  آر ،کوے کی کتب کے اردو تراجم میں ”پراثر لوگوں کی سات عادات، ” لیڈر شپ اور ضروری کام پہلے،قاسم علی شاہ   کی جملہ کتب،عارف انیس کی صبح بخیر زندگی، ابوالحسن علی ندوی پاجاجاسراغ زندگی، عائض قرنی کی لاتحزن۔وغیرہ سے استفادہ جاری ہے۔

ابوالکلام آزاد ، شورش کاشمیری ، ابوالحسن علی ندوری،او رمولانا مودودی کی ہر ہر کتاب میری پسندیدہ کتب میں شامل ہیں۔ میرے استاد محترم مولانا ابن الحسن عباسی کی جملہ کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ ان کی کتاب  متاع وقت اور کاروان علم نے میری زندگی کا رخ بدل دیا ہے۔مطالعہ کے حوالے سے ان کی کتاب ” یادگارزمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ” اپنی نوعیت کی شاندار کتاب ہے۔ یہ کتاب داراصل  ماہنامہ النخیل کا خصوصی شمارہ ہے جو بہتر کتاب بن گئی ہے۔ افسوس کہ کتاب کی اشاعت کے بعد استاد محترم دنیا سے رخصت ہوئے۔

ان چند کتب اور مصنفین کے نام یاد آرہے تھے عرض کیا ورنا کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے جن سے برابر استفادہ کیا۔اور استفادہ جاری و ساری ہے۔

سوال:  عام آدمی کو مطالعہ کی طرف کس طرح راغب کیا جاسکتا ہے؟

جواب:        عام آدمی کیا، آج تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ریگولر مطالعہ نہیں کرتے۔مجھے نہیں لگتا پاکستانی لوگ مطالعہ کا روگ پالیں گے۔تاہم پھر بھی ایک طالب علم ہو یا عام آدمی اس کو مطالعہ کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔سوشل اسٹڈیز کے ماہرین کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔

سوال: اردو قومی زبان ہونے کے باوجود قومی نہ بن سکی،کیا وجوہات ہیں؟ روکاوٹ کیا اور کہاں ہے؟

جواب:        عوامی ،آئینی اور عدالتی سطح پر آج بھی اردو ہی قومی زبان ہے۔ البتہ سرکاری سطح پر آج تک قومی زبان نہ بن سکی، 1973  کے آئین میں صراحت کے ساتھ لکھ دیا گیا تھا کہ اردو کو دفتری زبان بھی بنایا جائے۔ 2017 میں اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیےسپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ بھی آیا۔وجوہات بہت ہیں تاہم سب بڑی رکاوٹ خودساختہ ایلیٹ کلاس اور بیورکریسی ہے جو اردو کو دفتری و قومی زبان بننے نہیں دے رہی ہے۔اس عنوان پر میں نے کئی کالم لکھے ہیں۔آج بھی مقابلے کے امتحانات اردو زبان میں ہو تو اردو خود بخود قومی زبان بن جائے گی۔ باقی ملک بھر میں اردو ہی واحد رابطے کی زبان ہے ۔ گلگت بلتستان کا مشہور خونی پہاڑ نانگا پربت کے دامن میں رہنے والا ساٹھ سالہ بوڑھا  چرواہا  اور بلوچستان تربت کا پچاس سالہ  مزدو آدمی اگر کوئی زبان میں مکالمہ کرسکتے ہیں تو وہ واحد اردو زبان ہے۔اسی معنوں میں قومی بھی ہوئی اور مکالماتی و تبلیغی زبان بھی اردو ہی ہوئی۔تاہم پاکستان کے دفتری بابو  اردو کے زوال کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔میری دانست میں اس وقت عربی کے بعد دینی علوم کا سب سے زیادہ لٹریچر اردو زبان میں موجود ہے۔ہر فن و موضوع کے متعلق اردو میں پرنٹڈ اور آن لائن مواد آسانی سے مل جاتا ہے۔ یہی اردو کے لیے کافی و شافی ہے۔

سوال: پاکستان میں اردو ادب ترقی کی طرف گامزن ہے یا اس کے برعکس؟

جواب:        شاید گامزن ہے۔ اردو  کی لاکھوں کتب مختلف موضوعات پر مارکیٹ میں موجود ہیں۔ کونسا موضوع ایسا ہے جس کے متعلق اردو میں مواد موجود نہ ہو؟ہزاروں  عربی، فارسی، انگلش  اور دیگر زبانوں کی اہم کتب کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ پھر ہزاروں اردو کتب اس قابل ہیں کہ ان کو بار بار پڑھا جائے۔ پاکستان کی دینی جامعات و مدارس اور عصری دانش گاہوں سے بھی بہت سارے موضوعات پر، اردو میں تحقیق و تجزیہ کا کام ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام علمی و تحقیقی کاوشوں کو منظرعام پر لایا جائے اور عام آدمی تک رسائی دی جائے۔اس نقطہ نظر سے ہم دیکھ لیں تو اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔اور ہاں  آج بھی پوری دنیا میں موجود پاکستانی و ہندوستانی طبقہ فوری طور پر نیٹ کے ذریعے اردو اخبارات اور بلاگز کا مطالعہ کرتا ہے۔یہ سب چیزیں اردو کو ترقی کی طرف گامزن ہی کررہی ہیں۔

سوال: آپ نے شعوری طور پر اپنے پیشے کا انتخاب کیا یا یہ اتفاقی تھا اور حادثاتی طور پر تھا؟

جواب:           میرا اگر سات دفعہ بھی جنم ہوتا تو بھی استاد ہی بنتا۔جب سے شعور سنبھالا تب سے استاد بننے کا شوق تھا۔ درجہ ثانیہ  اورگیارہویں کلاس میں اپنے اہداف طے کیے تھا۔ ان میں پہلا ہدف مدرسے کا مدرس کے ساتھ کالج  کاپروفیسر بننا تھا۔ الحمد اللہ یہ شوق  بلکہ عشق احسن طریقے سے پورا ہوا۔تدریس میرا شوق و پیشہ نہیں اعلانیہ عشق ہے۔اور عشق جب پیشہ بن جائے تو اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے۔

سوال: پاکستان میں موجود نظام تعلیم و نصاب تعلیم کو آپ بطور استاد کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب: اس میں بہت تفصیل ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم و نصاب تعلیم پر ایک تفصیلی ارٹیکل لکھ بھی چکا ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو بلا توقف جواب دونگا۔ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم۔ میری سوچی سمجھی اور دیانتدارانہ رائے ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس و جامعات اور اسکول و کالجز  اور یونیورسٹیز  کا  نہ سلیبس اپ ٹوڈیٹ ہے نہ ہی نظام تعلیم و تربیت  کوئی معیاری ہے۔میری  2000 سے 2021 تک زندگی کی سب سے جوان بہاریں دینی مدارس اور اسکول وکالجز و یونیورسٹیز میں گزری ہیں۔ دونوں نظام ہائے تعلیم و تربیت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ دس سالہ پڑھانے کا تجربہ بھی ہے۔اس بنیاد پر بلاجھجک کہہ سکتا ہوں کو پاکستانی نظام تعلیم(دینی و عصری) میں  ”خونریز انقلاب/تبدیلی” کی ضرورت ہے۔تمام مسائل کی بنیادی جڑ نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور تقسیم تعلیم ہی ہے۔ اس سے بڑا کوئی المیہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کو کئی خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔بدقسمتی سے اس تقسیم کی عمر دو تین سو سال سے زائد نہیں۔

اگر سچ کہاجائے تو  ”یکساں قومی نصاب” کے نام سے بھی کھلواڑ ہورہا ہے۔اگر ملک میں یکساں نصاب تعلیم بنایا اور لاگو کیا بھی جارہا ہے تو بیرونی اشاروں اور معاونت سے کیا جارہا ہے۔برطانیہ کی واٹر ایڈ (Water Aid) جیسے این جی اوز جن کا کام صاف پانی مہیا کرنا ہے، ہمارے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے میں مصروف ہے تو اسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہماری پستی کا حال۔ پھر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینیات اور قرآن کی تعلیم کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے۔سیکولرلبرل لابی سرکاری نصاب میں مختصر سے دینی عنوانات کو بھی برداشت نہیں کرپارہا ہے۔جب بھی توحید و رسالت اور سیرت پر ابتدائی کتب میں تھوڑا مواد شامل کیا جاتا ہے تو لبرل لابی کے ساتھ اقلیتوں کے نام نہاد نمائندے،  یو ایس کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی پشت پناہی، معاونت اور سرپرستی میں نصاب سے مختصر اسلامی مواد بھی نکلوانے کے لیے شور وغل کرتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب سے اسلامی اقدار کو خارج کرکے ہیومنزم یعنی سیکولر اقدار کو شامل کرنے کی ہر ممکن سعی جاری ہے۔ ایسے اقدامات کے لیے واٹر ایڈ، برٹش کونسل اور دیگر این جی اوز کرڈووں خرچ کررہے ہیں اور نصاب میں اسلامی اقدار اور موضوعات کے خاتمہ کے لیے باقاعدہ میڈیا میں شورڈالاجاتا ہے اور مضامین لکھوائے جاتے ہیں۔

ایسا ہی ملا جلا حال دینی وفاقوں کا بھی ہے۔ یہاں صدیوں پرانی غیر ضروری کتابیں داخل نصاب ہیں جن کا  آج کی دنیا کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دینی وفاقوں کے بورڈ شاندار سلیبس خود تیار کرتے۔اور سالانہ کی بنیاد پرمواد  اور موضوعات  اپ ٹوڈیٹ کیا جاتا  مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔جن دینی وفاقوں میں نصابی کمیٹیاں بنی ہوتی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانی کسی کتاب کو اپنے نصاب سے خارج کرکے چار سوسال پرانی کسی فنی کتاب کو نصاب میں شامل کرتے ہیں۔حال یہ ہوتا کہ کہ شامل کرنے والوں نے خود اس کتاب کا ایک دفعہ بھی بالاستیعاب مطالعہ نہیں کیا ہوتاہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ضروری موضوعات پر خود نصاب ڈیزائن کیا جاتا اورکتب تیار کروائی جاتی۔

سوال: پاکستانی تہذیب و ثقافت میں کیا کمی ہے کہ ہمارا طبقہ اشرافیہ اسے اپنانے میں شرم محسوس کرتا؟

جواب:          پاکستانی  تہذیب و ثقافت میں کوئی کمی نہیں۔ ہمارا  طبقہ اشرافیہ احساس کمتری کا شکار ہے۔ وہ غیروں کی نقالی کو عزت و احترام اور بڑائی سمجھتا ہے اس لیے اپنی ثقافت سے دور بھاگتا ہے۔ کتے کی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کونسی بڑائی کی بات ہے۔

سوال:ادبی ثقاقتی ورثے کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے  آپ کیا تجاویز دیتے ہیں؟

جواب:          نئی نسل کو اگر درست بنیادوں پر یہ سمجھایا گیا کہ ہم ایک شاندار تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے کے مالک ہیں اور ہمارا ادبی سرمایہ بھی اتنا ہی قیمتی ہے تو یقینا  آسانی سے اگلی نسلوں میں ادبی ورثہ منتقل ہوجائے گا۔

سوال: بطور مدیر کن اداروں سے وابستگی رہی؟ اس حوالے سے کچھ یادیں شیئر کریں۔

جواب:        یہ میرے لیے ایک مشکل سوال ہے۔کئی ایک دینی و عصری اداروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے سابق جنرل سیکریٹری و موجودہ امیر مولانا عطاء اللہ شہاب کی معیت میں بطور  بانی  ایڈیٹر ماہنامہ شہاب کا اجراء کیا۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت سے گلگت بلتستان کی تاریخ  میں مدارس وجامعات سے پہلا سہہ ماہی مجلہ ”سہہ ماہی نصرۃ الاسلام” کا بطور بانی ایڈیٹر اجراء کیا۔ماہنامہ بیاک، ماہنامہ وائس آف گلگت بلتستان، سہہ ماہی خیر کثیر، ماہنامہ دارالقرآن گلگت کا اولین ادارتی بورڈ میں شامل رہا۔یونائٹڈ آرگنائزیشن فار پیس اینڈ ڈیلویلیپمنٹ  گلگت بلتستان ، رجسٹرڈ کروایا اور اس کا اولین سیکریٹری جنرل رہا اور کئی سال بغیر معاوضے کی خدمات انجام دی۔ گلگت بلتستان لیکچرار اینڈ پروفیسر ایسوسی ایشن کا دو دفعہ پریس اینڈ انفارمیشن سیکریٹری رہا۔ پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت کی لائبریری کمیٹی اور پبلکیشن کمیٹی کا ممبر ہوں۔ اس طرح دیگر کئی اداروں کے ساتھ وقت اور علم کا نذرانہ شیئر کرتا رہا ہوں۔ بہر صورت کئی اداروں کے ساتھ بطور ذمہ دار کام کرنے کا موقع ملا۔ان کی یادیں بہت تلخ و شیریں ہیں۔ شیئر کرنے پر بہتوں کی دل آزاری ہوگی۔

بس اتنا کہوں گا کہ ہمارے دینی اور عصری اداروں میں گروپ ورک کا کنسپٹ موجود نہیں۔ جو لوگ کام کرتے ہیں۔ بلکہ کام کو بطور خدمت اور عبادت کرتے ہیں ان کی قدر نہیں ہوتی۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اداروں اور  محکموں میں جو افراد ”بنیاد کا پتھر” ہوتے ہیں انہیں زک پہنچانے میں ہمارے اداروں کے بڑے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ بس چمچوں اور کاسہ لیسوں کا راج ہوتا ہے۔بالخصوص دینی مدارس و جامعات میں باصلاحیت اور انتہائی لائق فائق شخص اور چمچہ صاحب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو ٹیلنٹ کی جتنی تذلیل ان اداروں میں ہوتی ہے کوئی سوچ سکتا ہے۔اس سے گریز کرنا بہت ضروری ہے لیکن شاید یہ بہت مشکل بھی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply