• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کعب بن اشرف کو کس جرم پر قتل کیا گیا تھا ؟(پہلا حصّہ)۔۔۔۔علامہ مبین قریشی

کعب بن اشرف کو کس جرم پر قتل کیا گیا تھا ؟(پہلا حصّہ)۔۔۔۔علامہ مبین قریشی

مستشرقین کی جانب سے لکھی جانے والی کتب میں رسول اللہ ص پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک اعتراض کعب بن اشرف کا باوجود معاہد ہونے کے محض رسول اللہ کی ذات پر ہجو کردینے پر دھوکے سے قتل کا بھی ہے۔ جبکہ اسکے قتل کی اصل وجہ رسول اللہ کی  ذات پر بطور ہجو تنقید و تنقیص نہیں تھی۔ رسول اللہ پر ہجو کہنے والے عرب میں اور بھی لوگ موجود تھے لیکن حسان بن ثابت کے مقابلے میں انھیں اس کا شدید نقصان بھی ہوا۔ حسان رض کے اشعار ہوا کی طرح پھیل کر زبان زد  عام ہوجاتے تھے اور مقابلے پر کہی ہوئی  ہجو حسان رض کے قصائد کے سامنے دب کر رہ جاتی تھی ۔ اس کا سراسر فائدہ اسلام کو ہوتا تھا۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے کہ ہمارے تیر و تلوار وہ کام نہیں کرتے جو حسان بن ثابت کے اشعار کرتے ہیں۔

آپکی  ذات پر تنقید تو آپکے دشمنوں میں سے بہت لوگ تھے جو کرتے تھے اور آپ نے محض اس جرم پر کبھی کسی کے قتل کا حکم نہیں دیا۔ کفار کی تنقید تو بہت دور کی بات قانونی طور پر مسلمانوں کی صفوں میں موجود لوگوں (منافقین) کی جانب سے بھی تنقیص اور بے جا اپوزیشن کے کئی  واقعات موجود ہیں ۔ سب سے نمایاں مثال تو عبداللہ بن ابی کی ہے جس نے متعدد مقامات پر رسول اللہ کی گستاخی کی جبکہ اس کے بیٹوں ( تین شادیوں سے اسکے ۹ لڑکے لڑکیاں تھے ، سبھی مسلمان تھے) نے بھی بارہا رسول اللہﷺ سے متعلق اسکی بدزبانی سے تنگ آکر اسکے قتل کردینے کی اجازت چاہی مگر آپ نے انہیں کبھی اجازت نہ دی۔ یہ اس وقت تک زندہ رہا جب تک کہ رسول اللہ ﷺکا غلبہ پورے جزیرہ عرب پر ہوچکا تھا اور آخری وقت تک رسول اللہﷺ کے خلاف سازشیں کرکے نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کرتا رہا لیکن یہ بالاخر ( رسول اللہ ﷺکی وفات مبارک سے محض پندرہ ماہ پہلے) اپنی طبعی موت مرا اور رسول اللہﷺ نے اس کا جنازہ بھی پڑھایا۔ اس کو قتل کردینے یا زہر دے دینے کے راستے میں کوئی  رکاوٹ موجود نہ تھی لیکن رسول اللہﷺ نے اسکے گھر اور باہر دونوں جانب سے اس طرح کی تجاویز ملنے کے باوجود انھیں ہمیشہ رد فرمادیا۔

کعب بن اشرف سے متعلق بخاری و مسلم نے چونکہ اس کے قتل کا واقعہ تو بیان کیا ہے لیکن اس قتل کی وجوہات بیان نہیں کیں اس لئے عموماً اسی ایک روایت ، جو وجوہات کی بجائے دراصل واقعہ کی تفصیل ہے ، کو بطور اپنے اعتراض کی دلیل کے طور پر مستشرقین کی جانب سے اٹھایا گیا۔ وجوہات کی تفصیل جو مختلف مصادر میں آئی  ہے اس کو سمجھنے کے لئے پس منظر کا خلاصہ سمجھنا ضروری ہے:

۱: مدینہ کا میثاقی / دستوری پس منظر :
مدینہ (یثرب) پر صدیوں سے اوس و خزرج (یمنی الاصل قبیلے بنی ازد/جرھم کی شاخیں) کا غلبہ تھا۔ ویسے تو جزیرہ عرب میں کئی  یہودی قبائل موجود تھے لیکن مدینہ کے تین یہودی قبائل بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو کاہنوں (cohens) کی نسلوں سے ہونے کی وجہ یہود ء عرب کی سیادت حاصل تھی۔ ان میں سے بنو قینقاع قبیلہ خزرج کا حلیف تھا اور بقیہ دو یہودی قبائل بنو اوس کے حلیف تھے۔ اوس و خزرج صدیوں سے باہمی خانہ جنگی اور دشمنی کا شکار تھے ۔ ہجرت سے عین پہلے ان میں آخری جنگ بعاث لڑی گئی  تھی۔ اس جنگ سے دونوں قبائل نے شدید نقصان اٹھایا تھا اور ان کے مابین کے صلح پسند لوگ صدیوں سے جاری خانہ جنگی کا واحد حل مدینہ کو کسی ایک مرکزی سربراہی میں دے دینے میں ہی دیکھتے تھے۔ اسی کشمکش میں انکا تعارف رسول اللہ سے ہوگیا اور وہ تیزی سے مشرف بہ ا سلام ہوتے چلے گئے۔ ہجرت کے موقع تک اوس و خزرج دونوں قبائل بمعہ اپنے سرداروں کے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس طرح ان دونوں قبائل کو ایک مشترکہ غیر جانبدار نظم اجتماعی ایک سردار یا حکمران سے بہت اوپر اٹھ کرایک پیغمبر و واجب الاطاعت خدا کے سفیر کی صورت میں حاصل ہوگئی۔
اوس و خزرج کی خانہ جنگیوں میں ان کے حلیف یہودی قبائل بھی آپس کی دشمنی میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ جنگ بعاث کے دوران یہ چپقلش بہت  زیادہ اس لئے بڑھ گئی  تھی کیونکہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے چالیس لوگوں کو جنگی سازشوں کی وجہ سے بنو خزرج نے بنو قینقاع کی مخبری پر قیدی بنالیا تھا۔ خزرج نے تاوان کے طور پر ان دونوں قبائل کی زمینیں مانگی تھیں ۔ بنو اوس نے دونوں قبائل کو زمینیں نہ حوالے کرنے کا مشورہ دے کر انکا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بنو قینقاع کے مشورے سے خزرج نے دباؤبڑھانے کے لئے قیدیوں کو قتل کرنا شروع کردیا تھا جس سے جنگ شدید ہوگئی۔ بالآخر اوس اور اسکے موالیوں کو جنگ میں جزوی برتری ملی تھی لیکن اس جنگ نے جانبین کے سرداروں کے قتل سمیت ایک دوسرے کے لئے انمٹ اثرات چھوڑے۔ اوس و خزرج کی باہمی عداوت کا غیر جانبدار مداوا تو رسول اللہﷺ کی شکل میں میسر آگیا تھا لیکن یہود چونکہ رسول اللہﷺ پر ایمان نہیں لے کر آئے اور نہ  ہی آپس میں کوئی  نظم اجتماعی بنا سکے اس لئے ان کی باہمی رنجشوں میں کمی واقع نہ ہوسکی۔

رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت کے بعد اوس و خزرج کی سربراہی اور نتیجتاً مدینہ کی حکمرانی سنبھالی۔ یہود سے آپکا جو تحریری معاہدہ ہوا اسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تحریری معاہدے کے  کچھ نکات درج ذیل ہیں؛
ان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم۔ وان بینھم النصر علی من حارب اھل ھذہ الصحیفہ، وان بینھم النصح والنصیحہ والبر دون الاثم، وانہ لم یاثم امرو بحلفیہ، وان الجصر للمظلوم، وان الیھود ینفقون مع المومنین ما داموں محاربین، وان یثرب حرام جوفھا لاھل ھذہ الصحیفہ، ۔۔۔۔ وانہ ماکان بین اھل ھذہ الصحیفہ من حدث او اشتجار یخاف فساعہ فان مردہ الی اللہ عزوجل و الی محمد رسولا اللہ۔۔۔۔۔وانہ لاتجار قریش ولا من نصرھا ، وان بینھم النصر علی من دھم یثرب۔ علی کل اناس حصتم من جانبھم الذی قبلھم ( ابن ھشام ج ۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)۔
یہ کہ یہودی اپنا اجتماعی خرچ خود اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خود ( یعنی نظم اجتماعی کی ضرورت کے لئے زکواہ و صدقات کا بوجھ یہود پر نہیں ہوگا)، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کسی بھی فریق پر بیرونی حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ پورے خلوص کیساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی چاہیں گے، اور ان کے مابین باہمی خیر خواہی اور بھلائی  کا تعلق ہوگا ناکہ باہمی حق تلفی و بدخواہی کا۔ اور یہ کہ کوئی  اس معاہدے سے بننے والے حلیف کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ زیادتی کی صورت میں شرکاء مظلوم کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہونے کے پابند ہونگے۔ جنگ ہوجانے کی صورت میں مسلمان اور یہود مل کر جنگ کے مصارف اٹھائیں گے،   اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا ممنوع ہے، اور یہ کہ اگر اس معاہدے کے شرکاء کے مابین ہی اگر کوئی  قضیہ پیدا ہوجائے جس سے فساد کا خوف ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون ( تورات /قرآن) کے مطابق محمد رسول اللہﷺ کریں گے۔۔۔۔اور یہ کہ قریش اور اسکے حامیوں کو کوئی  امان نہیں دے سکتا،  یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو اس کے مقابلے کیلئے شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے، ہر فریق اپنے جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہوگا۔ ( ابن ھشام ج ۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)۔

یہ تحریری معاہدہ مدینہ ہجرت کےساتھ ہی طے پاگیا تھا جس پر اوس و خزرج کے مسلمان سرداروں اور انکے پہلے سے حلیف یہودی قبائل ( خزرج کے حلیف بنو قینقاع اور اوس کے حریف بنو نضیر اور بنو قریظہ) نے باہمی بحث و مباحثے کے بعد دستخط کیے تھے اس لئے قریش مکہ کے بار بار کی دھمکیوں ( کہ رسول اللہﷺ کو انکے حوالے کردیا جائے) کے باوجود بھی فریقین ایک دوسرے کو معاہدے کے دوسال تک اپنے معاہدے پر کاربند رہنے کی بظاہر یقین دہانی کرواتے رہے۔

۲: ذاتی مفادات کے لئے عمرانی معاہدے کے خلاف سازشیں:
رسول اللہﷺ کی مدینہ میں آمد سے پہلے خزرج کے سردار عبداللہ بن ابئ کا نام بطور مشترکہ حاکم کے زیر غور تھا۔ اسکا قبیلہ بھی اوس کی نسبت بڑا اور مضبوط تھا اور اس کا حلیف قبیلہ بنو قینقاع بھی بقیہ دو یہودی قبائل کی نسبت مالی طور پر بھی ذیادہ مضبوط تھا اور ان کے برعکس مدینہ کے اندر بھی آباد تھا ( باقی دونوں شہر سے باہر آباد تھے)۔ یہ زمیندار کی بجائے سرمایہ دار قبیلہ تھا۔ مدینہ کا بازار انہی کے محلے میں تھا جہاں اس قبیلے کے لوگ سونا، کپڑے، اسلحہ اور روز مرہ کی ضروریات کی تجارت کرتے تھے۔ انکے امراء کا پیشہ سود ( بینکنگ ) تھا جو قریش سمیت مختلف تجارت پیشہ قبائل کو سود پر تجارتی قرضے دیتے تھے۔ عبداللہ بن ابئ نے چونکہ جنگ بعاث میں حصہ نہیں لیا تھا اور اس نے یہودی قیدیوں کے قتل پر خزرج کے سردار سے مخالفت بھی کی تھی اس لئے بطور مشترکہ سردار کے اسکے نام کو بڑی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ جنگ بعاث کے اثرات کی وجہ سے رسول اللہ ﷺکی ہجرت تک مدینہ کے یہ قبائل باہمی چپقلش سے باہر نہ آسکنے کی وجہ سے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تھے۔ لیکن اسکے باوجود ابن ابئ مدینہ کا سب سے زیادہ بااثر آدمی ہونے کا اسٹیٹس پاچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺبھی اس کو خاص اہمیت دیتے تھے لیکن آپکا بطور رسول خدا کی جانب سے آجانے والے فیصلے کے بعد اس کے قبیلے اور اوس کے مسلمانوں کی غیر مشروط فرمانبرداری نے اس میں حسد پیدا کردیا۔ رسول اللہ ﷺاگر مدینہ نہ آتے تو یہ مدینہ کا بادشاہ ہونے کا امکان رکھتا تھا۔ اسکے مدینہ اور اسکے گرد و نواح میں بدکاری کے اڈے بھی تھے جو رسول اللہﷺ کے مدینہ آنے کے بعد خطرے میں آگئے تھے۔ غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی مہم اور زکوٰۃ و صدقات بھی اسے اپنی معاشی استحکام کے راستے میں خطرہ محسوس ہوتے تھے۔ لیکن اسکا مسئلہ یہ تھا کہ اسکا اپنا قبیلہ بشمول اسکی اولاد کے رسول اللہﷺ کو خدا کا سچا نبی مانتے تھے۔ اسکے ساتھ اسکے قبیلے کے چند ایک لوگ ہی باقی بچے تھے جن کی وفاداریاں اسکے ساتھ تھیں ۔ لہذا اس نے انھی چند لوگوں بشمول اپنے حلیف بنو قینقاع یہودی قبیلے کے قریش مکہ کیساتھ ملکر ایسی خفیہ سازشیں کھیلنے کا منصوبہ بنایا جن کے نتیجے میں یا تو رسول اللہ ﷺمدینہ اسکے حوالے کرکے واپس مکہ چلے جائیں یا پھر کسی طرح شہید کردئیے جائیں ۔ جنگ بدر اسی سازش کا حصہ تھی ۔ جسکے مطابق مکہ کے تجارتی قافلے کے مدینہ کے قریب رات کی تاریکی میں خزرج و قینقاع کے لوگ خفیہ سازش کے مطابق لوٹ مار کرکے مسلمانوں پر الزام لگا دیتے اور اسی اثناء میں قریش کی فوج مدینہ کے قریب پہنچ چکی ہوتی اور وہ مسلمانوں کو پہلے سے کسی جنگ کے لئے تیار ہونے کی مہلت ملے بغیر ان پر حملہ کرکے انکا خاتمہ کردیتی۔ رسول اللہ کو اس ساری سازش سے ایک خواب میں مطلع کردیا گیا اور آپ نے تجارتی قافلے کے مدینہ کے قریب پہنچنے سے دو دن پہلے مدینہ اپنے ساتھیوں سے خالی کرکے مکہ والے لشکر کی جانب کوچ کیا۔ اس طرح قافلہ لوٹ کر مسلمانوں پر الزام نہ لگ سکنے کی وجہ سے بظاہر یہ سازش ناکام ہوگئی۔ لیکن مکہ سے قریش کے ساتھ آنے والی فوج کے کچھ سردار، جو سازش کے فریق تھے ،خبر کے غلط ثابت ہوجانے کے باوجود باقی سرداروں کو جنگ کے لئے قائل کرنے پر کامیاب ہوگئے۔ بالآخر اس سازشی جنگ کے نتیجے میں قریش کی ساری لیڈرشپ قرآن اور عہد نامہ عتیق کی پیشن گوئیوں کے عین مصداق مسلمانوں کی جنگ کے اسباب میں اخلاقی فتح کیساتھ ماری گئی ۔ بنو قینقاع اپنی سازش کی اس شکست کو چھپانے میں بری طرح ناکام رہے اور کھل کر میثاق مدینہ کے متفقہ دستور کے برخلاف مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ ایک مسلمان خاتون کو اپنے بازار میں دیکھ کر اس پر حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں دونوں جانب سے قتل ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺمیثاق کے مطابق حالات پر قابو پانے کے لئے گئے تو انھوں نے تلواریں سونت کر جنگ کا اعلان کردیا۔ جس پر مسلمانوں نے انھیں گھیر لیا اور بالآخر پندرہ دن کے گھیراؤکے بعد میثاق مدینہ کے مطابق انکی اپنی خواہش پر فیصلہ تورات کے مطابق ہونا طے پاگیا۔ میثاق مدینہ کے دو فریق دوسرے دو یہودی قبیلے بھی تھے جن کے خلاف بنو قینقاع نے جنگ بعاث میں بہت گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس لئے ان کی خواہش یہ تھی کہ تورات کے مطابق فیصلہ کرکے سارے قبیلے کو موت کی سزا دی جائے۔ بنو قینقاع شاید وحی کی وجہ سے انکی سازش کی خبر کا تو انکار کردیتے لیکن بدر کے قیدیوں کی مدینہ میں موجودگی ، رسول اللہ اور صحابہ کی مکہ میں رشتہ داریوں اور اوس و یہود قبائل کی مخبریوں کی بدولت بنو قینقاع اپنی خفیہ سازش سے انکار کی پوزیشن میں بھی نہ تھے اسلئے انھوں نے جنگی صورتحال برپا کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ تورات کے مطابق وہ اسی سزا کے مستحق تھے جو حضرت موسی نے عمالقہ کو دی تھی۔ عمالقہ کا جرم اس لحاظ سے ان سے چھوٹا تھا کہ وہ حضرت موسی کیساتھ کسی معاہدے کے فریق بن کر اور انھیں اپنے متعلق مطمئن کرکے انکی قوم کو ختم کرنے کے درپے نہیں ہوے تھے۔ تاہم رسول اللہ نے سارے فریقین معاہدہ کی تجاویز کے برعکس انکے حلیف عبداللہ بن ابئ کی سفارش پر کسی ہلکی سزا دینے پر اکتفا کیا ۔ لہذا آپ نے حرابہ کی سب سے ہلکی سزا کے تحت تین دن کی تیاری کا موقع دے کر مدینہ چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply