یہ آگہی میری مجھے رکھتی ہے بے قرار۔۔۔فائزہ عامر

کینیڈا ہجرت کی تو چند ماہ ہی میں مجھے احساس ہو نے لگا کہ میں اچھی مسلمان نہیں ہوں۔ پاکستان میں ہمیشہ ہمیں ملا جلا میلان اور رجحان نظرآتاہے۔ کچھ عورتیں مکمل حجاب کرتی ہیں اکثریت صرف دوپٹہ اوڑھنے پر ہی اکتفا کر لیتی ہے اور بعض کو اس کی بھی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔عدم رواداری اور عدم برداشت کے پروان چڑھنے کے باوجود کوئی وہاں شکر ہے لٹھ لے کر آپ کے پیچھے نہیں پڑتا ۔ مگر یہاں کینیڈا میں مجھے مسلمان کمیونٹی میں حجاب کلچر کافی نمایاں نظر آیا اور مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوئی کہ مجھے سچا اور پکا مسلمان بننے یا نظر آنے کےلئے حجاب پہننا ضروری ہے کیا؟

دکھاوے کی نماز، روزہ، اور صدقات کیا سودمند ہوں گے روزِ آخرت؟

روز محشر کے حساب کتاب کے لیے مکمل انحصار صرف خدا کی رحیم و کریم ذات پر ہی ہے۔شیخ سعدی فرما گئے ہیں “کریما بہ بخشائے حال ما کہ ہستیم اسیر کمند ہوا” ۔ تفہیمِ اسلام کی اس خودساختہ تشریح کے شکار میرے بچے بھی ہوئے ہیں۔ ایک روز میرے ہائی اسکول میں پڑھ رہےبیٹے نے مجھے کہا کہ سکول میں جمعہ کی باجماعت نماز ہوتی ہے اور مسلمان لڑکے کسی بھی انگریز لڑکی (صرف انگریز)سے دوستی کو حرام سمجھتے ہیں اور مسجد میں قاری صاحب فرماتے ہیں کہ گھر خریدنے میں یہاں سود کا لین دین ہوتا ہے تو یہ تو ایسے ہی ہے جیسے اپنی والدہ سے ہمبستری کرنا ۔

میں پوچھنا چاہتی ہوں کیا غصہ حرام نہیں؟ کیا رشوت دینا اور لینا حرام نہیں، کیا ناپ تول میں کمی حرام نہیں؟اس دورخی کی وجہ سے میرا بیٹا بدظن ہوکر دوبارہ کبھی مسجد نہیں گیا تو قصور کس کا ہے؟ جب بھی ہم کسی مسلم کمیونٹی کے پروگرام میں جاتےہیں تو تکلیف دہ صورت حا ل کا شکار ہی رہتے ہیں۔بچوں کی سوالیہ نگاہوں کا سامنا کرنا کون سا آسان ہے۔

میرے خیال میں احترامِ آدمیت کو اولیت دی جائے۔ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کے خیالات کو سنا جا ئے، پڑھا جائے۔ نئی سوچ کو اپنے ذہن کے سانچے میں جگہ دی جائے۔ جو صحیح لگے اسے اپنی شخصیت کا حصہ بنایا جائے۔ میرا تعلق ایک عام متوسط طبقے سے ہے۔ میں نے بچپن میں باقاعدہ مذہبی تعلیم بھی حاصل کی ،قرآن حفظ کیا اورپھر سکول کالجزمیں روایتی تعلیم حاصل کی ۔بطور استاد چند سال لوگوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ بھی کیا۔ اپنے تجربات کی روشنی میں میں نےیہ جانا کہ روائتی تعلیم بہتر معاشرے کی تشکیل میں اتنا موئثرکردار ادا نہیں کر سکتی۔اسکی بنیادی وجہ آزادی اظہار رائے کی کمی بھی ہے۔ ہمیں نئی اور روشن را ہیں تلاش کرنے کے لیے تلخ حقائق کو نہ صرف سننا چاہیےبلکہ ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو زندگی گزارنے کے روائتی ڈھنگ خود بتانے ہیں یا انھیں ایک آزاد انسان کے طورپہ موقع دینا ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات سے نئےراستے خود تلاش کریں۔ آگہی کا سفر کٹھن ہوتا ہے پہلے میرا خیال تھا کہ یہ شاید بہت طویل ہوتا ہے مگر اب مجھے لگتا ہے یہ زندگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے اور آخری دم تک جاری رہتا ہے موت اور اس سے جڑے احساسات سے آگاہی بھی تو تبھی ممکن ہے۔ اسی آگہی کے سفر کے بارے خورشید سنگھ شاد کا ایک شعر ہے
وحشتیں بھی کتنی ہیں آگہی کے پیکر میں
جل رہا ہے سورج بھی روشنی کے پیکر میں
یہاں آگہی کے اس سفر سے مراد وہ نظریات و عقائد اور رسوم و رواج ہیں جن کا تعلق انسانوں کے مختلف گروہوں سے ہے مگر بنیادی فلسفہ محبت امن اور احترام کا ہے جس بنا پرعلم وفنون شاعری ، نثر،آرٹ اور مکالمہ کی انتہائی معیاری شکل وجود میں آ رہی ہے۔
اس ساری تمہید کا اصل مقصد اپنے اس مسیحا کا تعارف مقصود تھا جو میری خزاں زدہ زندگی کی بہاریں واپس لوٹانے کا سبب بنا ۔ہوا یوں کہ ایک روز مجھے میری بہن نے ایک پروگرام میں جانےاور ڈاکٹر خالد سہیل سے ملنے کا کہا۔ اور میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کے ساتھ وہاں جا پہنچی اور ان سے میری ملاقات میری زندگی کا خوشگوار موڑ ثابت ہوئی۔ ۔ڈاکٹر سہیل نے چند ہم خیال دوستوں کے اس حلقے کو “فیملی آف دی ہارٹ” کا نام دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر خالدسہیل سے ملاقات کے ذریعے شعور و آگہی کی ایک نئی دنیا سے میرا تعارف ہوا۔جہاں علم وفن کی قدر کی جا تی ہے، جہاں ا نسا نوں کو ان کی تمام تر شخصی اچھائیوں اور برائیوں سمیت قبول کیاجاتا ہے اور انھیں بہتر انسان بننے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ۔حسیں حادثات ان لوگوں کی زندگیوں میں کم ہی ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کی پروگرامنگ کر رکھی ہو ۔میں اس فن میں تاک نہیں، کوشش بڑی کی مگر کامیابی نہیں ہوئی شاید اس کی ایک وجہ میری غیر مستقل مزاجی ہے ۔زندگی کا ہر لمحہ مختلف ہو تا ہے بہتے پانی کی طرح، اقبال کہتے ہیں “میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جُو بہ جُو “۔آب رواں کو جہاں راستہ مل جائے یہ اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ مگر بہتے ہوئے پانی کے آگے بند باندھ کر اگر اس کی شوریدہ سری پر قابو نہ پایا جائے تو یہی پانی تباہی و بربادی کا سبب بن جایا کرتا ہے۔میں سمجھتی ہوں میری سیماب صفت طبیعت کو قرار و سکوں کا ساحل ڈاکٹر خالد کی شکل میں نصیب ہوا۔ محترم ڈاکٹر خالد سہیل ہی کا ایک شعر ہے

اسی نے چہرے کو تنویر میرے بخشی ہے
اسی نے چاند مری روح میں اتارا ہے
اچھے لوگوں کی صحبت سے روح میں چاند تو واقعی اترتے ہیں جو ہماری روح کو خوشی محبت اور اعتماد جیسی کرنوں سے منور کرتے ہیں اور ہم اسی اثاثے کو دوسرے انسا نوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ میں محترم ڈاکٹر خالد سہیل کی بے حد مشکور ہوں جنھوں نے “فیملی آف دی ہارٹ “کا مجھے نہ صرف حصہ بنایا بلکہ دعوت سخنوری بھی دی اور اس سلسلے میں بہت حوصلہ افزائی کی۔ میرا تعلق ان سے ایک مریض کے طور پر بھی تھا۔ ان کےطریقہ علاج کی ایک اہم بات مریض کو تخلیقی عمل کا حصہ بنانا ہے۔ مریض کو کسی نہ کسی تخلیقی کام مثلاً لکھنا ، گانا ،پینٹنگ وغیرہ میں مشغول کرنا ان کے نفسیاتی علاج کا ایک اہم پہلو ہے۔” فیملی آف دی ہارٹ” ہم خیال دوستوں کا ایک ایسا حلقہ ہےجہاں تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بالخصوص نئے لکھنے والوں ۔پرانے لکھنے والوں کی تصانیف کا نا صرف تعارف کروایا جاتا ہے بلکہ متعلقہ کتاب کے بارے میں مختلف قسم کے تنقیدی اور تعمیری reviews بھی پیش کیے جاتے ہیں اور سامعین کو بھی اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا جاتا ہے۔ یوں کئی نئے موضوعات اور ان سے وابستہ سماجی مسائل سے آگاہی ہوتی رہتی ہے جس سے فکروسوچ کی گر ہیں کھلتی ہیں جو تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہیں اورسات سمندر پار اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے گھلنے ملنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔۔
اس طرح مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کے احسا سات و جذبات سے ہم آہنگی کا مو قع بھی ملتا رہتا ہے جس سے ذہنی نشوو نما کا عمل جاری رہتا ہے۔ جس سے زندگی میں دلچسپی کا عنصربھی شامل رہتا ہے میرے نزدیک آگہی ۔۔۔ایک سفر ہے جو ہماری زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب جریدہ میں بلخصوص محترم ڈاکٹر خالد سہیل کے آرٹیکلز اور محترمہ رابعہ الربا کے ساتھ درویشوں کا ڈیرہ کی صورت میں وجود میں آنے والا ادب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخرمیں میں دوبارہ فیملی آف ہارٹ کا بالعموم اور محترم ڈاکٹر سہیل کا بالخصوص شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جن کی بدولت میرا کتا ب اور تخلیق کاری سے برسوں پرانا ٹوٹا ہوا بندھن پھر سے جڑنے لگاہےاوررمیرے نزدیک فیملی آف ہارٹ کی حیثیت ، جدیدادبی دنیامیں ایکسنگ میل کی سی ہےجوکہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی کتب بینی کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرر ہا ہے میرے خیال میں یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کی طرف نئی نسل کو متوجہ کرنا بھی نسبتاً آسان ہے اور اس طرح ان کی نمائندگی میں بھی مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر دور کے فنون اور ادب سےوہاں کے سماجی معاشی اور معاشرتی ماحول کی بھر پور عکاسی ہو تی ہے اور اس کی بہتر تشریح و ترویج کے لیے ہر نسل کی نمائندگی ضروری ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply