بندہ پوچھے کہ یہ کیسا پیار ہے۔۔۔میاں جمشید

دیکھیں جی بات چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو مگر دل توڑنے اور موڈ خراب کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے ٹیکے کی چھوٹی سی سوئی لگواتے وقت چھبن ہوتی ہے. اکثر ہم کسی کو اصل نام کی بجائے اس کی جسمانی حالت جیسے موٹا ، کالا ، لمبو، کوڈو ، بڑے منہ والا ، گنجا ، وغیرہ معذور کو لنگڑا ، ٹنڈا، انّا وغیرہ اور طنز میں طلاقن ، جاہل وغیرہ یا پھر کسی کو انکے خاندانی کاموں کے حساب سے جیسے اوے کمی ، اوے موچی کے بچے، دھوبی کے بچے ، نائی کی اولاد وغیرہ وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں

ایک بات تو بتائیں ذرا، ہم جو بڑے پھنے خان یا خود کو شہزادہ/ شہزادی سمجھ کر دوسروں کے اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ، ان سے اچھی  طرح سے پیش آنے کی بجائے ان کے حوصلے کو نچوڑ کر بار بار شرمندہ کرتے ہیں  تو یاد رکھیں ہمارا زندگی میں کامیاب ہونا ممکن ہی نہیں جب تک ہم دوسرے کے ٹوٹے دل کو اپنی معافی کی ایلفی سے نہیں جوڑتے۔

خدا کے لئے چھوڑ دیں دوسروں کو ایسے دل توڑ القابات سے نوازنا ، خیال رکھا کریں عزت نفس کا۔ آپ کو لگتا ہو گا کہ یہ چھوٹی یا معمولی سی  بات ہے لیکن  باخدا آپ کا مذاق سے کہنا بھی دوسرے کو ہمیشہ گولی کی طرح لگتا ہو گا۔

یاد رکھیں دوستو !یہاں جسمانی اور مالی حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ موٹا سمارٹ بھی ہو سکتا  ہے، کالا گورا  اور گنجا تو دنوں میں بالوں والا ہو جاتا ہے  آجکل۔ اسی طرح کسی اور کی طرح آپ بھی ٹنڈے ، لنگڑے ، اندھے ہو سکتے ہیں، اور کسی بھی موچی، نائی یا دھوبی کی اولاد استاد، پروفیسر، ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بن سکتی ہے۔ طلاق یافتہ عورت دوبارہ سے گھر بسا سکتی ہے اور پھر اپنی حالت بہتر کرنے کے بعد ایسے لوگ کہاں یاد رکھیں گے ان تمام کو جنہوں نے کبھی بار بار دل دکھایا تھا ۔

اوپر سے ایسے الٹے ناموں سے پکارنے والے اپنے دفاع میں کہتے ہیں  کہ ہم تو بس ویسے ہی پیار میں کہتے ہیں، بندہ پوچھے یہ کیسا پیار ہے جس میں یہ دوسرے بندے کا اعتماد لہو لہان کر کے رکھ دیں ، یہ معصوم لوگ بار بار اپنا دل زخمی کروا کے بھی چہرے پر ایسی مسکراہٹ سجا کر رکھتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سلام ہے ایسے ہنس کر شرمندگی چھپانے والوں کی ہمت پر۔۔ یقین مانیں ایسی ایسی قابلیت چھپی ہوتی ہے ایسے موٹے ، کالے ، کمی وغیرہ لوگوں میں کہ سوچ ہے آپ کی، صرف کچھ لوگوں کی غلط پکار کی وجہ سے اعتماد کھو کر سامنے نہیں آتے اور پیچھے ہٹنا شروع کرتے ہیں ۔یہ بیچارے لوگ صرف اکیلے میں رو رو کر اپنے رب سے فریاد کرتے بس۔ رب بھی تو پھر ٹوٹے دلوں کی جلدی سنتا اور ایسے بلاوجہ رد کیے جانے والے لوگوں کو ایسے بھاگ لگاتا  ہے کہ  مستقبل میں یہی لوگ پہچانے نہیں جاتے کہ یہ وہی لوگ ہیں  جو کبھی برے القابات سے نوازے جاتے تھے اور آج اتنی ترقی کر گئے کہ برے ناموں سے بلانے والے ان کو اپنا دوست ، پرانا کلاس/کالج فیلو، محلے دار وغیرہ کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ بھی پھر نا صرف ایسے لوگوں کو عزت دیتا بلکہ اُن لوگوں کو بھی مکافات عمل کی سختی میں ڈال دیتا   ہےجو پہلے ایسے لوگوں کا دل دکھاتے تھے۔

اسی پہ ایک واقعہ یاد آیا ایک لڑکا اپنی امی کے  ساتھ اپنی ایک ممانی کے گھر گیا۔ گھر کے دوسرے بچے لان میں کھیل رہے تھے تو یہ لڑکا بھی وہاں چلا گیا اور اسکی امی ممانی کے پاس اندر کمرے میں ۔۔تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا اندر آیا اور چپ چاپ اپنی امی کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اسکی ماں نے جب باہر بچوں کے کھیلنے کی آواز سنی تو اپنے بچے سے پوچھا تم کیوں واپس آ گۓ، تو اس لڑکے نے کہا مجھے سب باہر موٹا موٹا کہہ کر بلا رہے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اب آگے اسکی مامی کا حال دیکھیں بجائے بچے کو دلاسا دینے کے ، اپنے بچوں کو یہ سمجھانے کے  کہ نام لے کر بلاؤ  الٹا  بھانجے سے کہتی پھر کیا ہوا موٹے کو موٹا نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے؟ اب اس بچے کی ماں تو آخر ماں ہے وہ بھی آگے سے اپنے بیٹے کی دل کی حالت کو جان کر کہتی آپا وہ اپنا کوڈو کہاں پہ ہے آج نظر نہیں آ رہا تب ممانی صاحبہ کی شکل دیکھنے والی تھی کہتی باجی ایسا تو نہ کہیں وہ محسوس کرتا ہے تو آگے سے ممانی کو یہی سننے کو ملا آپا اب نکے سے قد والے کو کوڈو نہیں کہیں گے تو پھر کیا کہیں گے۔۔سمجھ تو گئی تھی ممانی کہ ایسی باتیں صرف اپنے ہی نہیں دوسرے بچے بھی محسوس کرتے ہیں تبھی انہوں نے ہنس کر بات ٹال دی۔

چلتے چلتے بتاتا چلوں وہی موٹا لڑکا آج آرمی میں میجر ہے اسکا موٹاپا تو کب کا غائب ہو چکا تبھی لیکن اس کو یہ بچپن کا واقعہ ، کزنز کا رویہ اور ممانی کی بات کبھی نہیں بھولتی۔ اور دوسری طرف وہ کزنز جنہوں نے اپنی  فیس بک پہ تصاویر تو کمال کی لگائی ہوئی ہیں جس میں صرف چہرہ ہی نظر آتا  ہے لیکن اصلی حالت میں ایسے ہیں کہ کمرے میں  داخل ہوتے وقت ان سے پہلے ان کا پیٹ اندر جاتا ہے اور کپڑے کے آدھے تھان سے شاید صرف ان کی قمیض ہی بنتی ہو ۔اسے کہتے ہیں مکافات عمل، تگڑا اور رگڑا مار کے ۔

اسی طرح وہ لوگ جو ایسی پکار کو سہتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ کبھی بھی ایسے لوگوں کے فضول نام دینے سے خود کو احساس کمتری میں مبتلا  نہ کیا کریں. یہ ایک معاشرتی برائی ہے جس کو اگر آپ روک نہ سکیں تو اگنور تو کر سکتے ہیں نا۔ آپ بس رب سے حوصلہ کی دعا کرتے ہوئے ہمّت سے برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں۔ اگر کوئی کمی ہے بھی تو مثبت سوچ کے ساتھ اسکو ختم کریں اور خوب محنت سے ترقی کر کے سب کو حیران کر دیں۔

یادرہے کہ یہ دنیا صرف انہی کو برے القاب سے نوازتی  ہےجو خود کو عام ہوتے ہوئے بھی خاص بنا لیں پھر دیکھنا سب آپ کو موٹے پیٹ، کالے رنگ ، دوسری کمیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہمت نہیں کریں گے الٹے نام سے پکارنے کی ۔ یقین نہیں آتا تو اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر حوصلہ پکڑیں کہ کتنے اہم اور مشہور لوگ چاہے زندگی کے کسی بھی میدان سے تعلق رکھتے ہوں ان میں موٹا بھی ہے ، کالا بھی ہے ، لمبا ، کوڈو ، معذور وغیرہ اور موچی ، نائی وغیرہ کی اولاد بھی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں صرف یہ کہ الله تعالیٰ نے بھی قرآن میں فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارو تو دوستو براہ مہربانی، اونچا مقام اور لوگوں کا دل جیتنے کے لئے دل توڑ القابات کا استعمال چھوڑ دیں اور اپنے بچوں ، بھایئوں، دوسرے گھر والوں اور دوستوں کو بھی سمجھائیں۔

Facebook Comments

میاں جمشید
میاں جمشید مثبت طرزِ زندگی کے مختلف موضوعات پر آگاہی ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jamshades پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply