• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری؟ ۔۔اعظم معراج

پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری؟ ۔۔اعظم معراج

تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا جائزہ
یہ کیوں ضروری ہے؟ اور کیسے ممکن ہے؟
ماضی و حال میں اقلیتوں پر تھوپے گئے نظاموں کی خوبیوں، خامیوں
حقائق اور شواہد سے اخذ شدہ فارمولا

اعظم معراج

معراج پبلی کیشنز
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi .
Ph : +92-21-35888981-2
E-mail:mairajpublications@hotmail.com

l نام کتاب : تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا
جائزہ یہ کیوں ضروری ہے؟ اور کیسے ممکن ہے؟
l مصنف : اعظم معراج
l لے آؤٹ : سرفراز ثاقب
l سندھی ترجمہ : ننگر چنہ
l انگریزی ایڈیٹر : اعظم گل، مشعل معراج
l قانونی مشیر : رضی احسن ایڈوکیٹ (ہائی کورٹ)
l اشاعت پنجم : اکتوبر 2023ء
l ناشر : معراج پبلی کیشنز
l قیمت : 500روپے (برطانیہ3 پونڈ)
سافٹ کاپی مفت

جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ
ISBN:978-969-770813-0
زیر اہتمام

اس کتابچے کا کوئی بھی حصہ معراج پبلی کیشنز /مصنف سے باقاعدہ تحریری اجازت کے بغیر کہیں بھی شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی بھی مطبوعہ حصہ دوبارہ نقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی تقسیم کیا جا سکتا ہے اس پرکسی بھی قسم کاپروگرام بنانے یا اس کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کیلئے ہر حال میں پبلی کیشنز/مصنف سے پیشگی تحریری اجازت لینی انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر ادارہ اور مصنف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

Mairaj Publications
20-C Sunset Commercial Street,2 Phase IV D.H.A Karachi .
Ph : +92-21-35888981-2
E-mail:mairajpublications@hotmail.com

انتساب
روپلو کولھی، سردار ہری سنگھ، یعقوب پرویز کھوکھر
اور
شہداء30اگست 1972ء آر ایم جیمز، نواز مسیح شہید اور اس
وقت سیاسی جدوجہد کرنے والے ان کے ساتھیوں کے نام

سنہری قُقنس
اعظم معراج

(حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ)
اے وطن عزیز کے محروم و بے شناخت بچو!
اپنے سماج سے بیگانو!
دھرتی سے اپنی نسبت سے لاعلم دھرتی واسیو!
اس ارضِ پاک کو بنانے
سنوارنے ۔۔۔ سجانے
اور بچانے میں اپنے اجداد کے کردار سے بے بہرہ معصومو!
اپنے آباء کی سرزمین پر اجنبیوں کی طرح رہتے اور
نفرت انگیز سماجی رویوں کے وار سہتے
اپنے روشنی کے میناروں کو
اپنی محرومیوں کے اندھیروں میں ۔۔۔ گُم کرتے خاک نشینو!
خود رحمی، احساس کمتری و برتری کی
چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے راندہ درگاہ
ہم وطنو
ہزاروں لوگ
تمہاری ان محرومیوں کا نوحہ کہتے۔۔۔ اور سینہ کوبی کرتے ہیں
تمہاری ان کمزوریوں اور پستیوں کو بیچتے ہیں
بے شک اس ظلمت شب میں
اُمید کے دیے جلانے والے
تمہیں دھرتی سے نسبت بتانے والے
اور یہ منترہ
تمہیں رٹانے والے
کہ تم بھی وارث ہو اس سرزمیں کے
اور اس ارض پاک کو
اپنے خون پسینے سے سینچنے والے وطن کے معماروں
اور روشنی کے میناروں سے
تمہارا ناطہ جوڑنے والے
شہدائے وطن کے پاک لہو کے رنگ سے
تمہاری بے رنگ روحوں میں
رنگ بھرتے مرد قلندر
بہت سے صبح نو کی نوید سنانے والے ہوں گے
یاد رکھنا
ان بہت سوں میں سے ایک میں بھی ہوں
لیکن اگر
کبھی لمبی اندھیری رات کے سیاہ گُھپ
اندھیروں سے گھبرا کر یہ دیوانے
صرف چند بھی رہ گئے تو
ان چند میں ایک میں بھی ضرور ہوں گا
پھر اگر
اُمید سحر میں ان میں سے صرف ایک بچا
تو وہ
یقینا میں ہی ہوں گا
لیکن اگر
گھنے پیڑوں کے جھنڈ میں سے
سورج کوچُھوتے درختوں پر
اُمید حیات نو میں نغمہ مرگ گاتے ہوئے
قُقنسوں کے مہک دار شاخوں سے بنے گھونسلوں میں سے
سنہری ٹھنڈی ہوتی ہوئی آگ میں سے
کئی نوجوان
سورج کی طرح چمکتے
قرمزی سنہرے قُقنس
اپنی ہزاروں سال کی پستیوں، ذلتوں اور
محرومیوں کے بھاری بوجھ
اپنے توانا سنہری پروں سے جھٹکتے ہوئے
چونچوں میں
اپنی قابل فخر شناخت کے علم دبائے
اُمیدوں کی روشن شمعیں دلوں میں جلائے
عزم و حوصلے اور اُمنگیں
جن کے سینوں میں موجزن ہوں
جن کی نظر
روشنی کے میناروں سے اُٹھتی ہوئی
دُور آسمانوں پر ہو
اور
وہ دن کے اجالوں میں
سورج کی طرف
لمبی اڑانیں بھریں
تو سمجھ لینا
جن مہک دار گھونسلوں سے
جواں قُقنس اڑتے ہیں
ان گھونسلوں میں
میرے بدن کی راکھ تھی

اعظم معراج
‘‘شناخت نامہThe Identity ’’ سے اقتباس

اظہار تشکر
2013ء سے لے کر اب تک اس کتابچے کے 3 اردو اور ایک ایک انگلش اور سندھی ایڈیشن چھپ چکے ہیں جب کہ مکالمہ ویب سائٹ پر اس کی سوفٹ اردو کاپی اور واٹس ایپ پر پی ڈی ایف فارم میں سندھی اور انگریزی بھی ہزاروں لوگ پڑھ چکے ہیں۔ جس کی بدولت اس کتابچے میں شامل اعداد و شمار حقائق و شواہد پر مبنی معلومات ملک بھر بلکہ دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں اس کے لئے تحریک شناخت کے رضا کاروں کی بے لوث خدمات کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے گو کہ یہ تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن کچھ رضا کاروں نے بہت ہی تن دہی سے یہ کام انجام دیا ہے۔ ان میں رنشل داس کولہی (چیئرمین سندھ کولہی اتحاد)، ایڈوکیٹ رام کولہی، ایڈوکیٹ سرون کمار بھیل، فرانسیس بھٹی صادق آباد، بشپ گلفام رندھاوا، اکمل بھٹی فیصل آباد، ندیم گل ، پاسٹر آصف اگسٹین لاہور، بشپ مجید ناز عاشق لاہور، طارق مسیح لاہور، امجد خان نیوزی لینڈ، عاشر چٹھہ لاہور، البرٹ برکت، ڈینئیل دانش گوجرہ، ایڈوکیٹ عذرا شجاعت لاہور، یونس نواب، جسٹن جاوید رندھاوا کراچی، اسلم پرویز سوہترا لاہور، کامران یوسف گوجرانوالہ، سلویسٹر صنم کراچی، سہیل رندھاوااسلام آباد، سردار معراج کراچی، شہباز چوہان اسلام آباد، ندیم مٹو سرگودھا، عارف گلزار فیصل آباد، شیراز سرفراز گوجرہ، زریں منور میاں چنوں، سیماب آصف ،ادیب حنیف ، ایرک مشتاق سہوترہ کراچی، صائمہ انور گوجرانوالہ، ایسٹر داس، جون بوسکو(لندن)، ڈینئل نیامت (کینیڈا)، لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) جارج غلام، کمانڈر (ر) سلیم اختر میتھو، فادر عنائت برناڈ، فادر مختار عالم،ندیم مٹو(سرگودھا)، جیمز شیرا(برطانیہ)، یونس کاشف پشاور، پاسٹر آصف جان کوئٹہ، نیاز جوزف (مرحوم)، فرخ سہیل گوائندی، راج کمار، ڈاکٹر عادل غوری سیالکوٹ، زاہد نذیر بھٹی لاہور، وجے بالاچ چوہان رحیم یار خان، نیئر ایلون، آرتھر برکی آرتھر، کرنل (ر) البرٹ نسیم، عبدالجبار قریشی، ریاست رضا، اقبال خورشید، رانا آصف، نورین سنبل ہالینڈ، مورس جان برطانیہ، اعظم گل فرانس، ایڈوکیٹ رفعت بشیرلاہور، صوبیدار (ر) وکٹر ولیم میاں چنوں، ایاز مورس کراچی، رانا آصف، نواز سلامت، سلیم راجپوت کراچی و دیگر کئی رضا کاروں نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے ان معلومات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔ بہت سے ایسے نام ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس کام میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ ان میں سب سے نمایاں نام عبداللہ عامر کا ہے جنہوں نے تھر (سندھ) کے گاؤں، گوٹھوں، تعلقوں اور شہروں میں ہندو آبادیوں اور پنجاب گوجرانوالہ ، لاہور کی مسیحی آبادیوں میں گھر گھر ان معلومات اور انتخابی نظام کے اس فارمولے کو پہنچایا۔جبکہ اگر یہ نظام وضع ہو جاتا ہے تو وہ اس کے بینیفشری بھی نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح وہ اس موجودہ نظام کے متاثرین میں سے بھی نہیں ہیں ۔ ان کی یہ معلومات اور اس فارمولے کو پھیلانے کی تمام جدوجہد انسان دوستی پر مبنی ہے۔ بلکہ ہر وہ مسلمان پاکستانی جو اس فارمولے کو سمجھ کر اس کے لئے آواز اُٹھاتا ہے وہ 100فیصد انسان دوستی پر مبنی ہے۔ان کی یہ محنت صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ اس کتابچے کو پڑھنے کے بعد اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستان کے مذہبی اقلیتوں کو شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام دے کر ان کے80فیصد سیاسی ، معاشی، معاشرتی و سماجی مسائل کے حل کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے اور جب تقریباً 90لاکھ غیر مسلم پاکستانی شہری اپنے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظام سے مطمئن ہوں گے تو اس سے قوم میں یکجہتی پیدا ہو گی جو کہ استحکام پاکستان کی ایک مضبوط وجہ ہو سکتی ہے۔
ان خواتین و حضرات میں ایک قسم مختلف قومی پارٹیوں میں شامل ایسے دوہرے ووٹ کے خاموش حمایتیوں کی بھی ہے۔ جو اس مطالبے کے لئے خفیہ کوششیں بڑے خلوصِ سے کرتے ہیں۔لیکن پارٹی ڈسپلن یا برصغیر کی مخصوص غلامانہ سوچ کی وجہ سے کھل کر اس مہم میں حصہ نہیں لیتے ان میں سے کچھ لوگوں نے تو پس پردہ اس مہم میں بہت ہی پر اثر انداز میں جدو جہد کی ہے۔ان کی مصلحت ومجبوری اپنی جگہ، مجھے یہ مصلحت بلاوجہ ہی لگتی ہے، کیونکہ جب یہ اپنی جماعتوں میں اقلیتی شناخت پر سیاست کرتے ہیں، تو پھر اقلیتوں کے لئے جائز، بے ضرر مطالبے کو سرعام کرنے میں کیا ہرج ہے جبکہ میں نے ان میں سے کبھی کسی کو وزیر خارجہ ، وزیر داخلہ ،وزیر دفاع یا دیگر ایسے عہدوں کی دوڑ کے لئے سیاست کرتے بھی نہیں دیکھا۔حالانکہ شعور بانٹ اور خود آگاہی و خود انحصاری کا درس دے کر اقلیتوں کے لئے وہ اپنی اپنی کمیونٹیوں میں وہ ہی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی میں عمران خان، پی پی پی میں ذولفقار علی بھٹو یا دیگر قومی سیاسی جماعتوں میں ان کی جماعتوں کے بانیوں یا فکری راہنماؤں کی ہے جنھوں نے پاکستانی قوم کو کوئی فکر دی ہے۔لیکن کیا کریں۔؟ تحریک شناخت کے رضاکاروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود سوچ کی یہ بلندی ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی۔ حالانکہ اپنے لوگوں کے لئے اپنی پارٹیوں کے بڑوں کے سامنے طویل المیعاد منصوبے پیش کرنے سے ہی انکی پارٹیوں میں بھی عزت ہو۔میری نظر میں یہ تمام اول الذکر خواتین و حضرات اور دیگر جن کے نام میں بھول بھی گیا ہوں وہ سب اس ملک کی مذہبی اقلیتوں اور اس ملک و قوم کے حقیقی محسن ہیں میں ان سب کا بہت شکر گزار ہوں اور پاکستان کے غیر مسلم شہریوں سے بھی درخواست کرتا ہوں آپ بھی اپنے ان حقیقی محسنوں کے شکر گزار اور ان کے ہاتھ بھی بٹائیں۔ کیونکہ یہ آپ کے ووٹ کی طاقت بڑھانے اورآپ کی مذہبی شناخت پر حقیقی نمائندوں کو ایوانوں میں پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔

کُھلے خط کا ارتقائی سفر
اس کتابچے نما خط میں بیان کردہ اعداد و شمار تو تاریخ ہیں ان اعداد و شمار سے اخذ کردہ دوہرے ووٹ کا لفظ قطی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ہمارے کئی سیاسی ورکر یہ لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ بقول سیف الدین سیف
سیف انداز بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی
اس کھلے خط میں لفظ دوہرے ووٹ نے جو اندازہ بیان بدلا ہے۔ وہ اعداد وشمار اور ماضی،حال میں غیر مسلم پاکستانیوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ بطور لفظ ہی استعمال ہوا نہ دلیل نہ اعداد و شمار نہ غیر مسلم پاکستانیوں کے فائدے نقصانات بس ایک لفظ تھا۔ میں نے بھی پہلے اس پر سرسری کام کیا کچھ اعداد و شمار جمع کئے۔ ان سے دلیلیں گھڑی اکرام خان جیسے سینئر صحافی نے 2013ء کے الیکشن سے چند دن پہلے اس کو روز نامہ ‘‘جنگ ’’اخبار میں پورے صفحہ پر چھاپ دیا جس کا عنوان تھا ‘‘ایک نہیں دو’’ کچھ ہندو دوستوں نے راہنمائی کی اور تحقیق کی نئی راہ دکھائی جس کی وجہ سے اور مواد ڈھونڈا اور بیٹی مشعل معراج نے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ سینئر صحافی سلیم بخاری صاحب نے اسے ‘‘پولیٹیکل ٹریجڈی آف نان مسلم پاکستانیز ’’کے نام سے‘‘ دی نیشن’’اخبار میں چھاپا اور بھی کئی چھوٹے موٹے رسائل و جرائد میں چھپا۔ تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتاب شناخت نامہ میں چھپا۔ پھرذرہ مزید تفصیل سے اس سلسلے کی پہلی کتاب ‘‘دھرتی جائے کیوں پرائے؟’’ کے دوسرے ایڈیشن میں چھپا۔ پھر اس کتاب کے انگریزی ترجمے ‘‘نیگلکٹڈ کرسچن چلڈرن آف انڈس’’ کے لئے اس پر مزید تحقیق ہوئی پھر اس مقالے کو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی ہر سیاسی قیادت اور انگریزی پریس کے بڑوں کو بھی بھجوایا۔ جب اسے عام پاکستانی مسیحیوں تک پہنچانے کی کوشش میں غیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلے خط کے طور پر لکھا گیا۔تو اس میں مزید تحقیق ڈالی گئی۔ سرفراز تبسم نے اسے اپنے روزنامہ اوصاف لندن کے لئے لکھے گئے کالم میں قسط وار لکھا اور معاذ لیاقت کے ذریعے رحیم بخش ساگر سہندڑو نے اسے سندھی میں ڈھالا۔بہت اضافے کے بعد پاکستان کی انگریزی میڈیم سیاسی اور دانشور اشرفیہ کے لئے وجاہت ظہیر نے اسے دوبارہ انگریزی ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر اعظم گل کی بے رحم ایڈیٹنگ نے اس مقالے نما خط کے لئے مجھ سے اور تحقیق کروائی، یوں اسے دوبارہ سندھی میں ترجمہ کرنے کی مشقت نوجوان صحافی رحیم بخش ساگرسندھیڑیو کو کرنی پڑی۔وجاہت مسعود صاحب نے اس خط کو اپنی ویب سائٹ ‘‘ہم سب’’ پر چھاپا۔ اس ساری مسلسل سلسلہ وار مشقت اور ارتقائی سفر طے کرتا یہ خط جب سے یہ ‘‘غیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلے خط ’’کے طور پر انعام رانا کی ویب سائٹ مکالمہ پر چھپا ہے اور زبان زدہ عام ہوا۔لیکن اس کا ارتقائی سفر رُکا نہیں بلکہ اسماء مغل کو اس پر مسلسل مشقت کرنا پڑھتی ہے اور اب یہ خط میرا کم اور رانا انعام اور اسماء مغل کی ملکیت بن چکا ہے۔کیونکہ یہ انگریزی میں انعام رانا کی ویب سائٹ ‘‘ڈائیلاگ ٹائم’’ پر بھی چھپ گیا ۔
عثمان جامعی صاحب جو مظلوم طبقات کیلئے درد دل رکھنے والے شاعر، صحافی اور ناول نگار ہیں۔انھوں نے دوبارہ اس مقالے کے خلاصے کو ایکسپریس اخبار کے سنڈے میگزین میں چھاپا۔ اب جیسے ہی اس موضوع پر کسی نئی معلومات کا علم ہوتا ہے میں عاصمہ کو کہتا ہوں وہ اس میں ایڈیٹنگ کرتی رہتی۔ گو کہ اس خط کے تیاری اور اسے پھیلانے میں تحریک شناخت کے رضا کاروں کا بھی خاصہ کردار ہے لیکن اکرام خان، سلیم بخاری ، رانا آصف،وجاہت مسعود، اقبال خورشید، معاذ لیاقت،رحیم بخش ساگر اور خاص کر اسماء مغل نے جس بے لوث پن کے مظاہرے سے اس کتابچے کے مندرجات کے ذریعے پاکستانی غیر مسلم شہریوں کی فکری ،شعوری سیاسی آگاہی کے لئے ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے اس سے نظام میں جلدی یا کچھ سالوں بعد تبدیلی آئے گی۔اور یہ یقنیاً غیر مسلم پاکستانی شہریوں، پاکستانی سیاسی اشرافیہ اور دانش ور طبقات کی اس موضع سے واقفیت کی بدولت ہی ہو گی اور اس موضع سے واقفیت تحریک شناخت کے رضا کاروں کے ساتھ ان درد دل رکھنے والے پاکستان کے مسلمان شہریوں (جن میں سے کچھ تو تحریک شناخت کے باقاعدہ رضاکار ہیں) کا بھی بہت بڑا حصہ ہو گا۔
اس تحریر پر اتنی محنت کرنے کا مقصد صرف یہ ہے۔کہ اس ملک کے عام غیر مسلم پاکستانی اپنے اس سیاسی المیے کے ماضی اور حال سے واقف ہو کر مستقبل کا فیصلہ کر سکیں، گو کہ اس ملک ریاست اور معاشرے کا المیہ ہے۔کہ یہ فیصلہ بھی چند اشرافیائی مخلوق کا مرہون منت ہے۔جنہیں شائد یہ اعداد وشمار اور خوبیاں خامیاں پڑھ کر ان تقریباً 90 لاکھ لوگوں پر ترس آ جائے اور ان شہریوں کی قومی ومذہبی شناخت کی باریکیوں کو جان کربھیک میں دی ہوئی سیٹوں کو سلیقے اور عزت وقار سے دینے کا کوئی نظام وضع کر لیں۔ تحریک شناخت نے شعیب سڈل کمیشن کی مدد سے الیکشن کمیشن اقلیتی ووٹروں کی تفصیل حاصل کر لی ہے وہ بھی اس پانچویں ایڈیشن میں شامل کی جا رہی ہے اسی طرح راولپنڈی کی مسیحی صحافی احسان بخش کا محکمہ شماریات سے حاصل کئے گئے۔ 1951ء سے 1998ء کے افر اد شماری کے اعداد و شمار بھی اس کتابچے میں شامل ہیں۔
آخر میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں سے التجا ہے۔کہ سیاسی اشرافیہ کو آپ پر تب تک ترس نہیں آ سکتا جب تک آپ اپنے اس سیاسی المیے کو جان کر اس میں تبدیلی کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے۔ اس کے لئے اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ پڑھ کر سمجھیں اور متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن یہ اعداد و شمار اس المیے کے شکار 90لاکھ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش ضرور کریں۔ گو کہ اس خط نے کتابچے کی صورت اختیار کرکے پھر ایک شجرِ ممنوع کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ کیونکہ کتاب کے بارے میں کسی نامعلوم شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
آگاہی کا عذاب ڈس لے گا
زندگی بھر کتاب سے بچنا
غیر مسلم شہریو! اسے کتاب یا کتابچہ نہ سمجھنا یہ ایک خط ہے۔اور اگر آپ کتاب پڑھنے سے گھبراتے بھی ہیں تو تب بھی اسے پڑھ لیں کیونکہ یہ کتاب نہیں ایک خط ہے۔
آپ صرف پندرہ منٹ لگا کر اس خط کو پڑھیںِ پھیلائیں۔ نہ جلسہ نہ جلوس بس باخبر ہوں اور دوسرے لوگوں کو بھی باخبر کریں لوگ بااختیار خود ہی ہوجائیں گے کیونکہ باخبر شہری ہی بااختیار شہری ہو سکتا ہے ۔ خود شناسی اور خود آگاہی سے بڑی طاقت کوئی نہیں یہ خود انحصاری کی طرف لے جاتی اور بے خبری سے بڑی جہالت کوئی نہیں ہے۔یہ پستیوں میں دھکیل دیتی ہے، متفق ہونا نہ ہونا آپکا حق ہے۔لیکن یہ ضرور جانیں کہ75 سالوں میں نمائندگی دینے کے نام پر آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
شکریہ
والسلام
اعظم معراج
رضا کار ،تحریک شناخت پاکستان
05-06-2023

غیر مسلم پاکستانیوں کے نام کھلا خط

پاکستان کے غیر مسلم شہریوں! ۔۔۔کبھی آپ نے سوچا ہے، کہ 2018 میں وجود آنے والی اور 2022 کو اپنی مدت پوری کرنے والی قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں 38لوگ بیٹھے تھے جن میں ہندؤ اور مسیحی زیادہ تھے دیگر مذہبی اقلیتوں کے چند نمائندے بھی تھے ،اگر ہم اس تعداد میں سندھ سے براہ راست منتخب ہونے والے غیر مسلم پاکستانی ایک ایم این اے دو ایم پی ایز اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر ایک سینیٹر اور ایک ایم پی اے بھی شامل کرلیں تو یہ تعداد43 ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مذہبی شناخت کی بدولت جب بھی کسی مذہبی گروہ کو کسی امتیازی،سماجی رویے، امتیازی قوانین، سماجی ناانصافی ، معاشرتی، ظلم زیادتی یا جبری تبدیلی مذہب طرح کی کسی ظلم زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو متعلقہ برادری کی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے شازو نادر ہی کسی کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے واضح کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شماراور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا تاریخی پس منظر یہ ہے ۔تاج برطانیہ نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد آنڈین کونسلز ایکٹ 1961پھر 1885میں کانگریس بنوائی پھر سویلین کی کارسرکار میں رائے لینے کے لئے انڈین ایکٹ 1892لائے 1906میں مسلم لیگ بنی۔ جسکے مطالبے پر وزیر ہند مسٹر مارلے اور گورنر جنرل ہند مسٹر منٹو نے عرق ریزی سے انڈین ایکٹ 1909بنوایا ۔برطانوی پارلیمنٹ سے پاس کروایا۔,جس میں مسلمانوں کے لئے جنرل ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستوں پر جداگانہ انتحابی نظام معتارف کروایا۔ 1919 کے انڈین ایکٹ میں اس وقت کے وزیر ہند و گورنر جنرل ہند نے اس میں دیگر اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا اصافہ کروایا ۔1930میں برطانوی وزیراعظم رمزے میک ڈونلڈ کو پسے ہوئے ہندوستانیوں پر ترس آیا اور اسے انکا دوست کہلوانے کا شوق چرایا.یوں مسلسل گول میز کانفرنسوں کے راؤنڈ سے کمیونیل ایوارڈ وجود میں آیا ۔جس پر گاندھی جی نے دلتوں کے جداگانہ کے ساتھ دوہرے ووٹ پر اعتراض اٹھایا ۔ گاندھی جی نے تادم مرگِ بھوک ہڑتال کی ۔اپنے ساتھیوں کے کہنے پر امبیڈکر کو مجبوراً پونا پیکٹ کرنا پڑا ۔جس میں دلتوں کو بہت کچھ ملا لیکن دیگر اقلیتوں کی طرح دوہرا ووٹ نہ ملا ۔۔جس کا انھیں ساری عمر ملال رہا ۔1946تک یہ ہی انتحابی نظام چلا ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ اتنا اہم مسلہ ہے۔۔ کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون،قائد اعظم کے ساتھی جوگندر ناتھ منڈل کے اکتوبر 1950میں لکھے گئے استفعی میں بھی اس مسلئے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔۔۔پاکستان کے وجود آنے کے بعد تک 2018کے الیکشن تک پاکستان کی اشرفیہ نے پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر 15 انتحابات میں 6 بار 3 انتحابی نظام آزمائے لیکن پاکستان کی سیاسی، ریاستی و دانشور اشرفیہ کی اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے ہر دور کے سیاسی نمائندگی کرنے والوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے،کہ پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کبھی بھی ان انتحابی نظاموں سے مطمئن نہ ہوئے ۔ وجہ یہ رہی کہ متاثرین نہ اپنی ضروریات صحیح بتا سکے اور ذمدار اشرفیہ کی ترجیحات میں یہ متاثرین کبھی شامل ہی نہ تھے۔ اب ان نظاموں کی خوبیوں اور خامیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ان نظاموں سے کبھی مطمئن نہیں ہوئی۔ااس تلخ حقیقت کا تاریخی پس منظر یہ ہے ۔تاج برطانیہ نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد آنڈین کونسلز ایکٹ 1961پھر 1885میں کانگریس بنوائی پھر سویلین کی کارسرکار میں رائے لینے کے لئے انڈین ایکٹ 1892لائے 1906میں مسلم لیگ بنی۔ جسکے مطالبے پر وزیر ہند مسٹر مارلے اور گورنر جنرل ہند مسٹر منٹو نے عرق ریزی سے انڈین ایکٹ 1909بنوایا ۔برطانوی پارلیمنٹ سے پاس کروایا۔,جس میں مسلمانوں کے لئے جنرل ووٹ کے ساتھ مخصوص نشستوں پر جداگانہ انتحابی نظام معتارف کروایا۔ 1919 کے انڈین ایکٹ میں اس وقت کے وزیر ہند و گورنر جنرل ہند نے اس میں دیگر اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا اصافہ کروایا ۔1930میں برطانوی وزیراعظم رمزے میک ڈونلڈ کو پسے ہوئے ہندوستانیوں پر ترس آیا اور اسے انکا دوست کہلوانے کا شوق چرایا.یوں مسلسل گول میز کانفرنسوں کے راؤنڈ سے کمیونیل ایوارڈ وجود میں آیا ۔جس پر گاندھی جی نے دلتوں کے جداگانہ کے ساتھ دوہرے ووٹ پر اعتراض اٹھایا ۔ گاندھی جی نے تادم مرگِ بھوک ہڑتال کی ۔اپنے ساتھیوں کے کہنے پر امبیڈکر کو مجبوراً پونا پیکٹ کرنا پڑا ۔جس میں دلتوں کو بہت کچھ ملا لیکن دیگر اقلیتوں کے لیے دوہرا ووٹ نہ ملا 1946تک یہ ہی انتحابی نظام چلا ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ اتنا اہم مسلہ ہے۔۔ کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون،قائد اعظم کے ساتھی جوگندر ناتھ منڈل کے اکتوبر 1950میں لکھے گئے استفعی میں بھی اس مسلئے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔۔۔پاکستان کے وجود آنے کے بعد تک 2018کے الیکشن تک پاکستان کی اشرفیہ نے پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر 15 انتحابات میں 6 بار 3 انتحابی نظام آزمائے لیکن پاکستان کی سیاسی، ریاستی و دانشور اشرفیہ کی اور پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے ہر دور کے سیاسی نمائندگی کرنے والوں کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے،کہ پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کبھی بھی ان انتحابی نظاموں سے مطمئن نہ ہوئے ۔ وجہ یہ رہی کہ متاثرین نہ اپنی ضروریات صحیح بتا سکے اور ذمدار اشرفیہ کی ترجیحات میں یہ متاثرین کبھی شامل ہی نہ تھے۔ اب ان نظاموں کی خوبیوں اور خامیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ آخر کیا وجوہات تھیں کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ان نظاموں سے کبھی مطمئن نہیں ہوئی۔پاکستان بھر کی مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 30 جون2022ء تک الیکشن کمیشن کے مطابق 3956336ہے۔ جن میں ہندؤ ووٹرز 2073983مسیحی1703288اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 174165ہیں۔(یہ حیران کن بات ہے مارچ 2018میں ہندو ووٹرز1777289 ، مسیحی ووٹرز1638748 تھے ۔ اس طرح مسیحی ووٹرز تب ہندوں سے138541کم تھے لیکن اب مسیحی ووٹرز ہندو ووٹروں سے370695 کم ہیں)۔ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد2217141 ہے۔جس میں سے ہندؤ ووٹرز 1936749مسیحی ووٹرز 254731 جبکہ دیگر ووٹرز کی تعداد25661ہے۔پنجاب میں کل اقلیتی ووٹرز 1641838جس میں سے مسیحی ووٹرز 1399468 ہندو ووٹرز 103658اوردیگر اقلیتی ووٹرز 138709ہیں۔ بلوچستان میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 51245 جس میں ہندو ووٹرز 28551 مسیحی ووٹرز 20761 دیگر اقلیتی ووٹرز 1933ہیں۔ کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹرز 46115 مسیحی ووٹرز 33328 ہندو ووٹرز 5025دیگر اقلیتی ووٹرز 7762 ہے۔ اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41977 مسیحی ووٹرز 38744دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3233 ہے۔ ملک کے868 حلقوں میں پھیلے ہوئے ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت 38 نمائندے ایوانوں میں ہیں۔ جن میں 4 سینیٹر10 ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 24 ایم پی ایز ہیں۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کے بارے میں بھی بہت ابہام پائے جاتے ہیں جس کا اندازہ آپ ماضی و حال کے اعداد و شمار سے بھی لگا سکتے ہیں۔ کہ پاکستان میں1951ء کی افراد شماری کے اعدادو شمار کچھ یوں تھے۔ مسیحی432706، شیڈول کاسٹ369831، ہندو جاتی160664 تھے ۔ اس طرح کل ہندو آبادی530495تھی۔مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے97789 زیادہ تھی۔ 1961ء کی افراد شماری میں مسیحیوں کی آبادی583884تھی شیڈول کاسٹ418011، ہندو جاتی 203794 تھی۔ کل ہندو آبادی621805تھی۔ مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 37921 زیادہ تھی۔ 1972ء کی افراد شماری میں مسیحی 907861، شیڈول کاسٹ603369 اور ہندو جاتی 296837 آبادیتھی۔ اس طرح کل ہندو آبادی900206تھی۔یوں مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے7655کم تھی۔1981ء کی افراد شماری میں مسیحی1310426تھے اس افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ نہیں تھااور ہندو جاتی1276116 ہے ۔ 1981ئمیں ہندؤ آبادیمسیحیوں سے 34310کم تھی۔ 1998ء کی افراد شماری میں مسیحی 2092902اور ہندو جاتی 2111271، شیڈول کاسٹ 285212 یوں مجموعی ہندو آبادی2396483تھی اور مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی۔ جبکہ 2017ء کی افراد شماری میں مسیحی2642048، ہندو جاتی3595256اور شیڈول کاسٹ 849614ہے۔پاکستان کی تاریخ کی سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی4444870ہو گئی جبکہ مسیحیوں کی آبادی سے 1802822ہو گئی۔ اعداد و شمار میں دیکھیں تو ہندو آبادی1951ء میں مسیحیو سے 97789 زیادہ تھی۔ 1961ء میں 62805 زیادہ تھی۔1972ء مجموعی ہندو آبادی مسیحیوں کی آبادی سے 7655کم تھی۔ 1981ء میں ہندو آبادیمسیحیوں سے34310 کم تھی۔ 1998ء میں مسیحی آبادی ہندو آبادی سے 303581 سے کم ہو گئی۔2017ء میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے متنازع افراد شماری میں مجموعی ہندو آبادی 4444870ہو گئی جو کہ مسیحیوں کی آبادی سے 1802822ہو گئی۔
اسی طرح1951ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے 209167 زیادہ تھی۔ 1961ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی آبادی سے214217 زیادہ تھی۔ 1972ء میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو جاتی سے 306532 زیادہ تھی1981ء کی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی نہیں تھا اور پھر 1998 میں ہندو جاتی آبادی شیڈول کاسٹ سے 1826059زیادہ ہو گئی۔ جس پر شیڈول کاسٹ کی آبادی کا جو تناسب ہندو جاتی آبادی سے زیادہ تھا وہ کیا ہوا؟ اور1982ء میں یہ خانہ کیوں غائب ہو گیا اور 1998ء میں شیڈول کاسٹ جو 1951ء 1961ء 1972ء میں ہندو جاتی سے بہت زیادہ تھے وہ اچانک اتنے کم کیسے ہو گئے ؟ اورپھر 2017ء میں ہندوں کی مجموعی آبادی 4444870 ہو گئی ہے ۔ جو کہ شیڈول کاسٹ اور خصوصاً مسیحیوں کی آبادی پچھلی پانچ افراد شماریوں کے نتائج سے حیران کن طور پر بہت کم ہو گئی ان حقائق کے ساتھ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ رہے گا کہ جب مسیحیوں کی آبادی میں یہ ڈرامائی کمی اور ہندو کی آبادی میں یہ ہو شربا اضافہ ہوا تو وزیر شماریات ایک مسیحی تھا اور نیشنل اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کا چیئرمین ایک ہندو تھا اوردونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا۔ کون سی کمیونٹی فائدے میں رہی اور کون سی خسارے میں یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سوال بنتا ہے کہ یہ کیوں ہوا کیسے ہوا؟ان سوالوں کے جواب اُس وقت کی حکومت اور ریاست پاکستان کے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ کے بے تحاشاسماجی و سیاسی راہنما ہی لے سکتے ہیں۔ شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں میں ایک بات مشترکہ ہے کہ ان کے ہاں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں و این جی اوز کی بھر مار ہے لیکن حقیقی مسائل کی طرف توجہ ذرا کم ہے۔
میرے نقطہء نظر میں یہ کاغذی نسل کشی کا سانحہ عظیم تھا لیکن حیران کن طور پر تحریک شناخت کے بار بار نشان دہی کرنے کے باوجود مسیحی سیاسی ،سماجی اور مذہبی ورکروں/راہنماؤں نے اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے۔اس اہم مسئلے پر ان کا بے حسی اور لاپرواہی کا رویہ مسیحیو کی اجتماعی نفسیات کا بھی عکاس ہے۔
ان اعداد وشمار سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اپنی آبادی سے مطمئن کیوں نہیں ہیں۔2017ء کی افراد شماری جس میں مسیحیوں کی آبادی جو کہ ماضی کے اعدادو شمار کے مطابق 3738323 ہونی چاہیے تھی جو کہ یک لخت کم ہو کر 2642048 ہو گئی۔ یعنی وزارت شماریات کے کاغذات سے 1096275 تقریباً11لاکھ جیتے جاگتے انسان غائب ہو گئے جبکہ ان 17سالوں میں کوئی ایسے عوامل سامنے نہیں آئے مثلاً لاکھوں لوگوں کے اجتماعی نشل کشی یا اجتماعی ہجرت ہوئی ہے۔افراد شماری کے ماضی کا ریکارڈ شیڈول کاسٹ کی آبادی کے بارے میں بھی ایسے ہی حقائق بیان کر رہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی اس وقت تقریباً90 لاکھ ہونی چاہیے۔تقریباًاس لئے کہ پاکستان کی تاریخ کی متنازعہ ترین افراد شماری2017ء کے مطابق اقلیتوں کی پاکستان میں تعداد7321908 جبکہ اگست2022ء کے الیکشن کمیشن اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی ووٹرز کی تعداد 4112761 ہے جبکہ پاکستان میں ووٹ ٹو آبادی کا تناسب تقریباً آدھا آدھا ہے۔ اس حساب میں اقلیتوں کی آبادی 8225522ہونی چاہیے کچھ غیر سرکاری تنظیموں کی تحقیق کے مطابق مجموعی آبادی، خصوصاً خواتین کے شناختی کارڈز اور اسی حساب سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی تعداد10فیصد کم ہے اگر اس دس فیصد کو بھی شامل کر لیا جائے جو کہ822552 بنتا ہے تو اس طرح یہ آبادی 9048074 بنتی ہے۔
لیکن اگست2022ء کے الیکشن کمیشن کے مطابق اتنی آبادی کے ووٹر4112762 اور ان کے38 نمائندے ہونے کے باوجود یہ سب اس نظام سے مستفید ہونے والوں کے علاوہ اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا سماجی ناانصافی پر مبنی معاشرہ ہے جو کہ کمزور کیلئے بالکل غیر محفوظ ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب ، رنگ ،فرقے اور مسلک سے ہو۔ لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کی بے چینی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے جب ایسی کسی صورت حال کا سامنا عددی اعتبار سے کسی چھوٹے گروہ کو ہو تو عموماً حلقے کا نمائندہ زیادہ ووٹوں والی برادری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ متعلقہ برادری کا نمائندہ کیونکہ اپنی برادری کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتا لہٰذا وہ ایسی صورت میں اپنی پارٹی مفادات کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ متعلقہ برادری کے ساتھ اس میں اس بیچارے کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ۔کیونکہ وہ ہمیں جواب دہ نہیں ہے لہٰذا اس کی ہمدردی اسی کے ساتھ ہو گی، جس نے اسے چاہے ہماری شناخت پر ہی لیکن جنبش قلم سے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے بنا دیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے یقیناً وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ بھی ذمہ دار ہے اور ہم عام لوگ بھی اور ہمارے سماجی، مذہبی، سیاسی رہنما بھی۔ جو آج تک کوئی ایسا انتخابی نظام وضع ہی نہیں کروا سکے۔ جس سے اس ملک کے تقریباً 90 لاکھ دھرتی کے بچوں جن کے اجداد آزادی ہند، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں بھی دھرتی کے دوسرے بچوں کے ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔ وہ چاہے روپلوکولھی ہو جوگندر ناتھ منڈل ہوں جسٹس بھگوان داس ہوں، صوبوگیان چندانی ہوں یا دیگر ایسے ہزاروں پاکستان کے قیام تعمیر و تشکیل کے معمار ہوں۔ سردار ہری سنگھ ہو جنہوں نے قائد کی آواز پر اپنے خاندان کے 129 افراد کی قربانی دے کر امرتسر سے لاہور ہجرت کی ہو۔ یا راجہ تری دیو ہو جس سے اپنی راج دہانی (ریاست) چھوڑ کر سقوط ڈھاکہ کے بعد قائد کے وطن سے اپنی آخری سانسوں تک وفاداری نبھائی۔ اس میں وہ بے شمار پارسی جو جدید کراچی کے معمار ہیں ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں اس طرح اس ملک کے مسیحی بچے بھی دوسرے پاکستانی مسلم و غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح اس دھرتی کے بچے ہیں۔ آزادی ہند کے سپاہی بھی ہیں قوم و معاشرے کے معمار بھی ہیں اور محافظ، غازی اور شہید بھی ہیں غرض یہ تقریباً 90 لاکھ کے قریب غیر مسلم دھرتی کے بچے آج بھی دن رات اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک قوم و معاشرے کی تشکیل میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان سب حقائق کے باوجود بھی یہ پاکستانی شہری اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے کیوں محروم رہے اس کے لئے ہم غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے وضع کئے گئے اب تک انتخابی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں 75 سال میں ان دھرتی واسیوں پر کون کون سے انتخابی نظام تھوپے گئے ۔
‘‘ہماری اس سیاسی پسماندگی کی ریاست بھی ذمہ دار ہے ریاست اس لئے کہ 75 سالوں میں ایسا انتخابی نظام نہیں دے سکی جس سے ہماری سیاسی تربیت ہوتی۔ریاست کی اس ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو ریاست کے اپنے غیر مسلم شہریوں پر پچھلے 73سالوں میں تھوپے گئے انتخابی نظام کا بغور مطالعہ کریں تو جو نچوڑ نکلتا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ 1946 سے 1954ء 1955 سے 1958ء 1962ء سے 1964ء 1965سے 1969 پہلے تئیس اور چوبیس سال میں بننے والی چاروں قومی اسمبلیوں کی تفصیل یہ ہے پہلی اسمبلی میں 69ممبران پر مشتمل تھی جس میں 14غیر مسلم تھے اور سب ہندو پاکستانی تھے، چودہ میں سے ایک مغربی پنجاب سے اور ایک کا پتہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق کراچی کا ہے۔ یہ انتخابات1946ء میں ہوئے تھے شنید ہے کہ یہ دونوں ممبران قومی اسمبلی1947ء میں ہجرت کر گئے ہوں گے۔ باقی سب مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش سے تھے۔
دوسری اسمبلی کے 72ممبران میں سے 11غیر مسلم تھے جن میں سے 9ہندو پاکستانی تھے جن میں آٹھ مشرقی پاکستان سے تھے صرف ایک سندھ سے باقی دو مسیحی تھے جن میں سے ایک سی ای گبن پنجاب سے اور دوسرے گومز پال پیٹرمشرقی پاکستان سے تھے اس طرح گیارہ میں سے 9مشرقی پاکستان سے تھے کہ عموماً جو کہا جاتا ہے کہ شروع میں اقلیتوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں تھی بعد میں کہاں چلی گئی۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کی بہت بڑی تعداد مشرقی پاکستان موجودہ بنگلا دیش میں رہائش پذیر تھی۔ تیسری اسمبلی الیکشن سے منتخب ہوئی جس میں کوئی غیر مسلم نہ مشرقی پاکستان نہ مغربی پاکستان سے منتخب ہوا چوتھی اسمبلی میں بھی کوئی غیر مسلم جگہ نہ بنا سکا۔ اس طرح پہلی چار اسمبلیوں میں سے دو میں طریقہ انتخاب جداگانہ اور دو میں طریقہ انتخاب مخلوط تھا۔ یہ پاکستان کی انتخابی تاریخ کا پاکستانی غیرمسلم شہریوں کے لئے پہلا دور تھا۔
دوسرا دور 1970ء سے شروع ہوا۔ 1970ء میں جب پہلی دفعہ جنرل الیکشن ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے تو ان مخلوط الیکشن میں مرحوم پروفیسر سلامت اختر کے مطابق مسیحیوں نے پاکستانی مسیحی لیگ کے پلیٹ فارم سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 33 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیالیکن کہیں کوئی بھی امیدوار اپنا زرضمانت بھی نہ بچا سکا۔
الیکشن کے بعد دو سال جنگ کی تباہ کاریوں اور فوجی سول رسہ کشی اور بھٹو کے بطور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر گزرے۔ ان الیکشنوں میں مغربی پاکستان سے کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کے الیکشن نہ جیت سکا۔ لیکن ایک ممبر قومی اسمبلی بنا جس کا حلقہ انتخاب مغربی پاکستان موجودہ بنگلا دیش میں رہ گیا اور ممبر اسمبلی راجہ تری دیو پاکستان آگیا۔ اس مخلوط الیکشن میں صرف رانا چندر سنگھ الیکشن جیت سکے اور وہ بھی سندھ کی صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کوئی غیر مسلم قومی اسمبلی کا ممبر منتخب نہ ہوا کیونکہ راجہ تری دیو نے جس اسمبلی کا انتخاب تو جیتا تھا لیکن ان کا حلقہ انتخاب اس اسمبلی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں نہیں آتا تھا۔ لیکن جب بھٹو نے بطور مارشل ایڈمنسٹریٹر مارشل ریگولیشن 118 کے تحت نجی ادارے قومیائے تو پاکستانی مسیحیوں کے تعلیمی ادارے بھی اس نیشنلائزیشن کی پالیسی کا شکار ہو گئے اور یوں مسیحیوں کو اپنی انتخابی محرومی کا غصہ نکالنے کا بھی موقع مل گیا مسیحی تعلیمی اداروں کے قومیائے (نیشنلائز) کئے جانے سے تقریباً ہر مسیحی مکتبہ فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔ سیاسی، مذہبی، سماجی راہنماوں کی قیادت میں جب مسیحی جلوس کے شرکاء نے وزیر اعظم ہاوس کو یاداشت پیش کرنے کے لئے وزیر اعظم ہاوس کی طرف پیش قدمی کی تو 30 اگست 1972ء کو اس پُرامن جلوس کے شرکاء پر پولیس نے فائرنگ کردی، دو پاکستانی مسیحی آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید ہوئے۔ تاریخ خاموش ہے کہ ان شہداء کے قتل کا مقدمہ کس پر قائم ہوا۔ہوا بھی یا نہیں؟
اور یہ پتہ چل بھی نہیں سکتا کیونکہ تب سے لے کر اب تک انہی شہداء کے خون کے طفیل پھر آئینی ترمیم ہوئی جس کی بدولت آج تک300کے قریب ایم این اے، ایم پی اے بن چکے ہیں لیکن احسان فراموش کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی شائد ہی ان میں سے کسی کوان کا نام بھی یاد ہو اور باقی جو ایوانوں سے باہر ، ایوانوں میں جانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ان کی ترجیحات میں بھی اس طرح کی چیزیں شامل نہیں ہوتیں۔
ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس وقت کے مسیحی مذہبی، سیاسی وسماجی کارکنوں پر مقدمات بنائے گئے،کئی ایک کو صوبہ بدر کیا گیا۔جن میں راولپنڈی کے جلوس کی پاداش میں کرنل (ر)جارج ایبل اور پروفیسر سلامت اختر پر ارادہ قتل و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات بنائے اور پابند سلاسل کیا۔ جب کہ سیالکوٹ اوربہت سے دوسرے مسیحی کارکنوں پر نقص امن جن میں نمایاں عمانوئیل ظفر،گلزار چوہان،، چوہدری اے حمید،ڈاکٹر آر۔ایم حر و دیگر پر مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔اس سب کے باوجود حکومت کو پسپا ہونا پڑا۔ حکومت نے ادارے تو واپس نہیں کیے۔ لیکن 1973ء کے آئین میں21نومبر1975ء کو چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے نامزدگی کی بنیاد پر غیر مسلموں کو 6قومی اسمبلی سیٹیں دے دی گئی جن میں چار مسیحی ایک ہندو اور ایک احمدی نامزد ہوئے۔ یوں اس جمہوری دور میں بھی غیر مسلم کے ہاتھ صرف نامزدگیاں ہی آئیں اور نامزدگیوں کے انتخاب کے میرٹ کا اندازہ اس لئے لگا لیجیے۔ اسمبلی کی ٹرم کے دوران جب ایک نامزد ممبر کی موت ہوئی تو اس کی جگہ اس کی بیوی نجمہ اینڈریوز کو نامزد کر دیا گیا۔لیکن یہ مہربانی صرف قومی اسمبلی کے لئے تھی صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم ممبران کی نامزدگی کے لئے 1976ء میں آئین میں ترمیم کے ذریعے ان دھرتی کے بچوں کے لئے صوبائی اسمبلیوں میں جگہ بنائی گئی، یعنی1973ء کا متفقہ آئین بنانے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ اس فیڈریشن کے وفاق کی اکائیوں میں بھی غیر مسلم دھرتی کے بچے بستے ہیں۔ اس طرح دو مسیحی شہداء کے خون کے بدلے سات لوگوں نے قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا مزہ اس طرح لیا۔کہ (ایک بیگم نجمہ ریواز تھی جو اپنے خاوند کی موت کے بعد نامزد ہوئی)
اس آئینی ترمیم کے بعد مارچ 1977 ء کے انتخابات جداگانہ اور مخلوط کی کچھ خامیوں سے سیکھ کر پاکستان کی اقلیتوں کو دوہری نمائندگی دینے کے لئے مخلوط کے ساتھ سلیکشن کے ذریعے نسبت تناسب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی دینے کی بنیاد پر ہوئے ۔لیکن جولائی1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اس لئے یہ اس تیسرے نظام کے ثمرات غیر مسلم پاکستانی نہ دیکھ سکے اس کے بعد ضیاء الحق نے 1982ء میں مجلس شوریٰ قائم کی جس میں اقلیتی ممبران بھی نامزدگی سے بنائے گئے۔ اس کے بعد 1985ء سے ایک نئے انتخابی نظام کو غیر مسلم پاکستانیوں کا مقدر بنایا گیا یعنی جداگانہ انتخابی نظام جو1985ء سے 1997ء کے عام انتخابات تک جاری رہا جس کی کہانی کچھ یوں ہے۔
1985ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے تقریباً 38 سال بعد پہلی دفعہ غیر مسلم پاکستانیوں کی نمائندگی بذریعہ انتخابات دینے کی منظوری دی گئی اس کے طریقہ انتخاب کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے اقلیتوں (غیر مسلم پاکستانیوں) پر تھوپ دیا گیا۔ اقلیتوں کا خصوصاً مسیحیو کو اس جداگانہ کو ماننے کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ مخلوط میں ان کا کوئی بندہ نہ جیت سکا تو احتجاج اور شہادتوں کے عوض مخلوط کے ساتھ کوٹے کی سیٹیں مل گئی جن پر یقینا نامزدگی میرٹ کی بجائے پارٹی میں سے بھی من پسند کی ہوئی ہو گی مسیحی و دیگر اقلیتیں اس لئے مان گئے کہ اپنا حلقہ ہو گا اپنے ووٹرز گھر گھر چوہدراہٹ نہ اکثریتی امیدواروں سے مقابلہ انہوں نے اپنی اپنی چوہدراہٹوں کے لئے اسے قبول کیا جب کہ اس وقت کے آمر جنرل ضیاالحق نے ان کے اس شوق خودنمائی کی آڑ میں انہیں معاشرے و دیگر سیاسی معاملات سے باہر کیا اسے تو قومی سوچ کو کچل کر لوگوں کو رنگ نسل مذہب، مسالک، جغرافیہ، لسانیت میں بانٹ کر ا پنے اقتدارکو دوام دینا تھا جو اس نے دیا۔ جس کے اثرات پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔اقلیتوں کی اجتماعی نفسیات پر اس کے یہ اثرات ہوئے کہ پاکستان بھر کی اقلیتیں دو ، چار مثالوں کو چھوڑ کر صرف اقلیتی ونگز کی سیاست پر ہی اکتفا کئے بیٹھے ہیں اور جو مسیحیو یا ہندؤں کی اقلیتی پارٹیاں ہیں اس کا محور و مرکز بھی اقلیتی ونگز سے ملتا جلتا ہے۔ اس ذہنی کیفیت کے اثرات مذہبی اقلیتی شہریوں کی نوجوان نسلوں کی دوسرے شعبوں میں کارکردگی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ 2001ء سے جاری موجودہ انتخابی نظام سے جڑی غیر جمہوری کوٹے والی سیٹوں کی آڑ میں مسیحیوں کے چند نادان دوست مسیحی اس نفسیاتی المیے کے اثرات زائل کرنے والے مخلوط نظام سے جڑے من پسند افراد کو ایوانوں میں بٹھانے والے نظام سے نفرت کی بنا پر پاکستان کے معروضی حالات و زمینی حقائق کو جانے بغیرپاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے زہریلے اور سیاسی شودر بنانے والے جداگانہ انتخابی نظام کی رٹ لگا رہے ہیں۔
جداگانہ طریقہ انتخاب میں اقلیتی ممبران کو قومی اسمبلی کے لئے پورا پاکستان حلقہ بنا کر دیا گیا اور صوبائی نشست کے لئے پورا صوبہ حلقہ بنا دیا گیا۔ ویسے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی اس طرح ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور تعداد ملک بھر اور کچھ صوبوں میں بالکل گم ہونے کی وجہ سے ہے کہ اگر آج بھی میرٹ پر حلقہ بندیاں کی جائیں تو ویسے ہی ہوں گی۔جو کہ نمائندگی دینے کے نام پر اقلیتوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق تھا کہ وہ اچھوتوں کی طرح صرف اپنے ہم مذہب لوگوں سے پورے پاکستان سے ووٹ مانگیں۔ پاکستان کے غیر مسلم خاص کر مسیحی چند ایک کو چھوڑ کر مالی طور پر ویسے ہی بڑے کمزور ہیں اس انتخابی نظام میں قومی اسمبلی کے لئے حلقہ پورا پاکستان اور صوبائی انتخاب کے لئے حلقہ پورا صوبہ ٹھہرا۔ مسیحیوں کے لئے یہ کڑا امتحان تھا کیونکہ مسیحی تو آباد بھی پورے پاکستان کے ہر صوبے کے ہر شہر اور گاوں میں ہیں۔ لیکن ان بیچاروں نے 1985، 1988ء، 1990ء ، 1993ء اور 1997ء میں جداگانہ طریقہ انتخاب میں پانچ بار حصہ لیا۔اس نظام کے ثمرات 1999ء تک حاصل ہوتے رہے۔ گوکہ سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکر اس پر آواز اٹھاتے رہے۔ ان آوازوں میں سب سے توانا آواز جے سالک کی تھی جو جداگانہ انتخابات کی ہر مہم میں لوگوں کو جداگانہ کی آڑ میں اقلیتوں کے قومی ووٹ کی چوری یا ڈاکہ زنی کے بارے میں واشگاف انداز میں بناتے رہے۔لیکن زیادہ تر غیرمسلم سیاست کے شوقین شہری چپ چاپ اور ذوق شوق سے اس نظام کے ذریعے الیکشن لڑتے رہے۔
اس نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے نمائندے تو مل گئے اور غیر مسلم پاکستانیوں کی محدودسیاسی تربیت بھی ہوئی لیکن اس نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کے غیر مسلم بچوں کو قومی دھارے سے ہی کاٹ دیا گیا۔ یہ اس نظام کی بہت بڑی خرابی تھی ۔ غیر مسلم ووٹر کے حلقے کا نمائندہ چاہے وہ کسی بھی ایوان کا رکن ہو یعنی پاکستان کے تینوں ایوانوں سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو اور اس کا رشتہ غیر مسلم ووٹر سے محلے داری یا پڑوس کا بھی ہو لیکن اس طریقہ انتخاب میں ووٹر اور حلقے کے نمائندے کو ایک دوسرے کیلئے اچھوت بنا دیا گیا، غیر مسلم ووٹر اور مسلم امیدوار برائے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کے درمیان ہزاروں سال پرانے برہمن اور شودر کا رشتہ قائم کردیا گیا۔لیکن آفرین ہے غیر مسلم پاکستانیوں کی راہنمائی کے دعوے داروں پر انہوں نے اس طریقہ انتخاب میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بڑے بڑے عزت دار اس نظام کی بدولت راضی خوشی سیاسی شودر بننے پر تیار ہوئے۔ قومی دھارے سے کٹ کر بھی ایوانوں کے رکن بن کر خوش ہوئے۔ لیکن اس طریقہ انتخاب میں سب سے بڑا نقصان پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کا ہوا۔ جس کا قومی اور صوبائی حکومتوں کے بنانے میں عمل دخل یک لخت ختم کر دیا گیا۔ اس طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے اپنی اپنی کمیونٹیوں سے مذہبی شناخت سے ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنی مرضی سے جس مرضی پارٹی میں شامل ہو جاتے اس طرح یہ جمہوریت کے ساتھ ایک بڑا ظلم تھا۔
اور پھر 1999ء میں مشرف کی فوجی مداخلت ہوئی اور 2002ء میں جب الیکشن ہوئے اور کنٹرولڈ جمہوری نظام شروع ہوا تو ڈکٹیٹر نے شودر ووٹروں کے شودر ایم این اے ، ایم پی اے کو بھی برہمن شہریوں کے برابر کر دیا۔ یہ اس نظام کااور ڈکٹیٹر کا انتہائی مثبت قدم تھا۔ جس سے تقریباً90لاکھ غیر مسلم پاکستانیوں کو قومی شناخت مل گئی اور آمر کے ذریعے پاکستان کے غیر مسلم پاکستانی جمہوری عمل کا حصہّ بن گئے،لیکن مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا استحقاق سیاسی اشرافیہ نے اپنے پاس رکھ لیا۔گوکہ اس نظام میں مخلوط انتخابات کی بدولت ہر اقلیتی شہری پاکستان کے ہر حلقے میں ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔ ہر پاکستانی امیدوار ہر پاکستانی ووٹر سے مذہب مسلک رنگ نسل سے بالاتر ہو کر ووٹ بھی مانگ سکتا ہے اور ملک بھر سے کہیں سے بھی قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ سکتاہے۔جو کہ اس نظام کا بہت مثبت پہلو ہے۔
موجودہ نظام میں پھر سیاسی اشرافیہ نے غیرمسلمان پاکستانی شہریوں کے مذاہب کی بنیاد پر نمائندگی کرنے والوں کو چننے کا حق پھر متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے نام پر اپنے ایسے ایسے من پسند غلاموں اور طفیلیوں کو غیر مسلم کا نمائندہ (حکمران) بنا کر بٹھایا بلکہ ان کے سروں پر مسلط کردیا جاتا ہے جن کا ان سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔اس لئے اگر کبھی جس مذہبی گروہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس برادری کے اور ان کے سیاسی آقاوں کے مفادات میں ٹکراو ہو تو وہ اپنے سیاسی آقاوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ناکہ ان بیچارے معصوم محرومیوں اور پسماندگیوں کے مارے ہووں کے ساتھ جن بیچاروں کی محرومیوں کے نام پر وہ اپنے تیس تیس سکے کھرے کر رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے، انسان اسی کو جواب دہ ہوتا ہے جس نے اسے کسی منصب پر بٹھایا ہو۔ ناکہ اُسے جس کے نام پر بیٹھا ہو ( اس کی ایک مثال ہماری سیاسی اشرافیہ کا رویہ بھی ہے جو مبینہ طور پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ جواب دہ ہوتی ہے بہ نسبت عام پاکستانی کے) متناسب نمائندگی کے اس طریقہ انتخاب نے اور بھی بڑی سماجی برائیوں کو جنم دیا ہے مثلاً خوشامد، چاپلوسی، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کی ایک دوسرے سے حسد و نفرت اور دیگر اس طرح کی اور کئی قباحتیں اس نظام کی پیداوار ہیں۔ جس میں یقیناً سب سے بڑی غیر جمہوری روایات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اگست 2022ء ریکارڈ کے مطابق 4112761ووٹروں کے 38نمائندے تین یا چار سیاسی لیڈر سلیکٹ کرتے ہیں۔ اب ان نام نہاد نمائندوں نے نمائندگی خاک کرنی ہوتی ہے وہ اپنے نامزد کرنے والے آقاوں کے مفادات کے ایوانوں میں رکھوالے ہوتے ہیں۔ناکہ اپنے ان ہم عقیدہ لوگوں کے جن کے نمائندہ ہونے کے وہ دعوے دار ہوتے ہیں۔ اور وہ یقینا اس میں حق بجانب ہوتے ہیں نام چاہے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا ہوتا ہے لیکن وہ عہدے تو کسی اور ہی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ نظام کی اس خامی کے ذمہ دار وہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ وہ غیر مسلم و مسلم روشن خیال پاکستانی شہری بھی ہیں جنہوں نے مشرف کو کہہ کہلوا کر جداگانہ کی سب سے بڑی خامی سیاسی شودر ہونے سے تو جان چھڑوا دی لیکن انہوں نے عرق ریزی سے تیارہ کردہ کوئی متبادل نظام پیش نہ کیا جس کی وجہ سے بہت سے سیاسی نابالغ مسیحی اقلیتوں کے ان محسنوں کو آج برے ناموں سے بھی یاد کرتے ہیں۔
اس نظام کے تحت2002ء ،2008، 2013ء ، اور2018ء کے انتخابات ہو چکے ہیں۔ ہر بارکم از کم38غیر مسلم خواتین و حضرات مختلف مذہبی اقلیتوں کی شناخت پر سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جا بیٹھتے ہیں۔
پاکستانی قوم کے ساتھ اسی طرح کا ایک اور مذاق خواتین کی مخصوص نشستوں اور سینیٹ کے انتخابات میں ہوتا ہے۔ جس میں خواتین اور سینیٹ کے براہ راست انتخابات نہ ہوتے کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات کے وقت ایسی ایسی غیر جمہوری حرکات سامنے آتی ہیں جو سینیٹ کو قائم کرنے کے مقصد کی ہی نفی کرتی ہیں۔ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کا اضافہ تو خواتین کو سیاسی جمہوری نظام میں فعال کرنے اور انہیں سماجی و معاشرتی زندگی میں خود مختار کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ مذہبی اقلیتوں کے38 بشمول 4سینیٹر اور سینیٹ کے 104بشمول 4 اقلیتی سینیٹر اور خواتین کی 192 قومی اور صوبائی اسمبلی نشستیں علاوہ ازیں سینیٹ میں خوانین کی مخصوص نشستوں کے ان 330 خواتین و حضرات کو براہ راست منتخب کرنے کا اگر کوئی آئینی ترامیم سے جمہوری میکنزم وضع کیا جائے۔ جو کہ یقینا خواتین کے لئے سیاسی جماعتوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے مخصوص تعداد میں لازمی ٹکٹ دینا اور اقلیتوں کے لئے آئینی ترمیم کے ذریعے دوہرے ووٹ کے ذریعے اور سینیٹ کے لئے براہ راست انتخابات ہی ہو سکتا ہے تب ہی سینیٹ کے وجود اور خواتین اقلیتوں کی شناخت پر نمائندگی کے مثبت اثرات اس ملک ، قوم اور سماج پر ہو سکتے ہیں۔ ورنہ تو خواتین کی ان مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے وقت سیاسی اشرافیہ پہلے تو اپنے گھروں کی خواتین کو ایوانوں میں پہنچاتی ہے جبکہ بچ جانے والی نشستوں کے لئے ان نشستوں کا فیصلہ کرنے والے اور ان کے حواری خواتین کا ہر طرح کا استحصال کرتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات کے موجودہ نظام میں موجود راستوں نے سینیٹ کے قیام کے اعتراض و مقاصد کو ہی ختم کر دیا ہے جس سے یہ اب ارب پتی کلب بن گیا ہے جہاں چند حنوط شدہ لاشوں کو امراء و سیاسی اشرافیہ بطور ڈیکوریشن سجا لیتی ہے۔
ہم واپس اپنے اصل موضع یعنی غیرمسلم پاکستانیوں کے اس75 سالہ سیاسی المیے کی طرف آتے ہیں اسے اگر ہم چند لفظوں میں بیان کریں۔تو وہ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کبھی سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے ذریعے نامزدگی سے اپنی مرضی کے نمائندے ایوانوں میں اپنے ساتھ بٹھا لئے تو کبھی مخلوط انتخابی نظام کی بدولت انہیں ایوانوں سے دور رہنا پڑا پھر جداگانہ انتخابی نظام کی بدولت ان دھرتی واسیوں کو ان کی قومی شناخت سے ہاتھ دھونے پڑے اور اب مخلوط کی بدولت انہیں اپنی قومی شناخت تو مل گئی لیکن متناسب نمائندگی کے نام پر ان خاک نشینوں کے نام پر چند جمہوری غلاموں کو ایوانوں میں بٹھا لیا جاتا ہے۔
اس لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے ایسا سیاسی نظام درکار ہے ،جس میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لیے اپنے حلقے کا نمائندہ منتخب کریں۔اپنے مذہبی حقوق کے مفادات کے لیے اپنے مذہبی نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں کیونکہ نہ تو ہماری سیاسی نشوونما کے لئے ایسا مخلوط طریقہ انتخاب بہتر ہے جس میں ہماری نمائندگی ہی نہ ہو اور متناسب نمائندگی والی جمہوریت کے ذریعے نامزدگی کے نام پر آمرانہ طور طریقوں سے سیاسی جماعتوں کے منظورِ نظرکارکنوں کو ہمارا رہنما چن لیا جائے اور نہ ہی جداگانہ طریقہ انتخاب ہمیں مکمل پاکستانی اور آزاد شہری ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ بلکہ معاشرے اور سماج میں سیاسی شودراچھوت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
لہٰذا پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی شناخت اور اپنی اپنی مذہبی شناخت کی نمائندگی بھی ایوانوں میں دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں دوہرے ووٹ کا حق دیاجائے جس میں ان کی قومی شناخت بھی قائم رہے اور ان کی مذہبی شناخت کے نام پر جو لوگ ایوانوں میں پہنچے انہیں بھی منتخب کرنے کا اختیار ان کے پاس ہو۔
اسی میں پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی بقاء اور اسی میں پاکستان کے جمہوری نظام کی بقاء بھی ہے۔گوکہ یہ بھی کوئی بڑی آئیڈیل صورت حال نہیں ہو گی، کیونکہ اس آئینی ترمیم کے باوجودِ آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے بنیادی شہری وانسانی حقوق سے متصادم ہیں۔لیکن پاکستان کے یہ امن پسند شہری اپنے ریاستی اداروں کی مجبوریوں، کمزوریوں کی بدولت ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔اس لیے یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم غیر مسلم شہریوں کے لئے بڑا ریلیف ہوسکتی ہے یہ بات قابل غور ہے کہ مختلف ادوار میں ریاستی اداروں اور حکومتوں نے مختلف طریقوں سے غیر مسلم پاکستانیوں کو انتخابی نظام سے مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے جس کی ایک مثال موجودہ نظام میں قومی شناخت کے ساتھ مذہبی شناخت پر مخصوص نشستوں کے ذریعے نمائندے دینے کی کوشش ہے۔ لیکن جامع منصوبہ بندی اور فکری بحث نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلم پاکستانی ان طریقوں سے مطمئن نہیں ہوئے بس اس نظام کو زمینی حقائق اور ملک کی انتظامی آکائیوں میں غیر مسلموں کی آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیوں کے ساتھ ان مخصوص نشستوں کے لئے ہر مذہبی گروہ کے نمائندوں کو چننے کا حق اس مذہبی گروہ کو دے دیا جائے جن کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ مختلف ایوانوں میں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ان کی قومی، صوبائی ، ضلعی ، تحصیل اور یو سی سطح کی قومی نمائندگی کو بھی برقرار رکھا جائے اس تھوڑی سی کوشش سے غیر مسلم پاکستانی شہریوں کو سیاسی طور پر مطمئن کرکے ان کے دیگر فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی، علمی مذہبی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کا بھی سدباب کیا جاسکتا ہے ۔
کیونکہ اب تک غیر مسلم پاکستانی شہریوں پر تھوپے گئے طرزِ انتخابات سے ایک میں قومی شناخت کھو جاتی ہے اور دوسرے میں مذہبی شناخت اور حقوق کے نام پرمنتخب ہونے والے نمائندے تحفظ کسی اور کے مفادات کا کرتے ہیں اس جمہوری نظام کی بقا ،غیر مسلم پاکستانیوں کو مطمئن کرنے سے مشروط ہے۔ کیونکہ آج کے ترقی اور تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی سیاسی ،سماجی و مادی ترقی کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ وہاں کے رنگ نسل مذہب مسلک کی بنیاد پر اقلیت قرار دیئے گئے شہری اپنے سیاسی و سماجی معاملات سے کتنے مطمئن ہیں اور وہاں کی اقلیتیں اپنے سماجی ، مذہبی اور سیاسی حقوق سے کتنی مطمئن ہیں۔ پاکستانی معاشرے اور سیاسی نظام میں غیر مسلم پاکستانیوں کی کیا اہمیت ہے یہ اس کے ایک پہلو کا جائزہ ہم ان دستیاب اعدادو شمار سے کرتے ہیں۔
اوپر بیان کئے گئے تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس ساری صورت حال کے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ مخلوط طریقہ انتخاب میں ہم میرٹ پر کچھ حاصل نہ کر سکے تو ہم نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا نا نعرہ لگایا ، جدا گانہ طریقہ انتخاب میں ہم اچھوت بن گئے تو زیادہ تر اس اچھوت حیثیت میں بھی مفاد تلاش کرتے رہے لیکن چند سر پھروں نے پھر مخلوط کا نعرہ لگایا جب مخلوط ملاتو اس کے ساتھ بونس میں ملی مذہبی شناخت والی سیٹوں کو بنیاد بنا کر بجائے اس کے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر عقل، دلیل والی ، اجتماعی مفاد والی بات کرتے۔ لیکن اب پھر ہم اچھوت بننے کے لئے جداگانہ مانگ رہے ہیں تاکہ اس اچھوت نظام میں سے بھی کچھ کے لئے زلت آمیز رفتیں نکل آئیں، یعنی ہم نے75 سالوں میں کچھ سیکھا نہیں اور مسیحی جو برصغیر میں تعلیم کے بانیوں اورسیاسی ، سماجی شعور و آگاہی دینے والوں کے جانشین ہیں پورے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں یعنی مسیحیوں کی فکری وشعوری تربیت نہ کر سکے اور ہندو جوسوبھوگیان چندانی جیسے سیاسی گروں کے جانشین ہیں۔ وہ بھی کوئی فکری چھوڑ کسی بھی قسم کی جدوجہد نہ کر سکے اور دیگر مذہبی اقلیتیں تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی جدوجہد کا حصہ ہی نہ بن سکی’’۔
اس طرح قیام پاکستان سے لے کر اب تک بڑے جمہوریت پسند انصاف پسند ، مساوات پسند اور بکتر بند والے بھی آئے لیکن 15بارپاکستانی قومی اسمبلی اور لگ بھگ اتنی ہی بار صوبائی اسمبلیاں اور 1973ء کے آئین کے بعد سینیٹ بھی کئی بار بنتی دیکھی، اس ساری انتخابی تاریخ میں سوائے ان چند جو کہ(تقریباً تین سو بنتے ہیں) سینیٹر ممبران و قومی و صوبائی اسمبلی ہندو مسیحی، سکھ ، پارسی احمدی ملا کر تقریباً تین سو لوگوں کے بھی کوئی غیر مسلم پاکستانی مطمئن نہ تھا نہ ہے اور اگرکچھ کے لئے غیر سنجیدہ کھیل کچھ کے لئے المیہ اور کچھ کے لئے سنہری موقع فراہم کرتا طریقہ انتخاب ایسے ہی جاری رہا تو نہ تقریباً90 لاکھ غیرمسلم پاکستانی اس سے کبھی بھی خوش اور مطمئن نہ ہوں گے۔
حد تو یہ ہے کہ غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ یہ اتنا گھناؤنا مذاق ہے۔ ان300 میں سے آج کل والے 38 بھی کبھی کبھار کھلے عام اور زیادہ تر بند کمروں میں ا پنے ہم مذہبوں کی محفلوں میں ان انتخابی نظاموں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس نظام سے مفادات بھی وابستہ ہو جاتے ہیں باقی سارے غیر مسلم پاکستانی ان انتخابی نظاموں سے کبھی بھی مطمئن نہیں ہوئے بلکہ بند کمروں میں اس نظام سے مستفید ہونے والے بھی ان نظاموں کی عیب جویاں کرتے نظر آتے ہیں یقینا یہ 75سالہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا یہ سیاسی،انتخابی المیہ ہماری ارسطو، سقراط کی سطح کی سیاسی بصریت کی حامل سیاسی و دانش ور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ جب کہ یہ المیہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی بے چینی کا باعث ہے۔
سیاسی اشرافیہ جو غیر مسلم پاکستانیوں کے تہواروں پر انہیں اپنے بہن بھائی قرار دیتی ہے۔ لیکن ان کی اپنے ان بہن بھائیوں کی قومی، سیاسی و مذہبی شناخت و ضرورتوں کے لئے غیر سنجیدگی و لاپرواہی کی ایک مثال موجودہ 2018ء تا 2023ء کی پنجاب اسمبلی سے دی جا سکتی ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی بدولت 2017ء کی افراد شماری کے مطابق پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں آباد تقریباً پونے دو لاکھ ہندو آبادی کے لئے ایک مسیحی ایم پی اے کی موت سے پہلے تک کوئی ایم پی اے موجود نہیں تھا۔
‘‘نامزدگیوں کے اس نظام میں یہ بھی بہت بڑی خامی ہے کہ اب ضروری نہیں کہ غیر مسلم پاکستانیوں کی ہر مذہبی اعتبارسے اقلیت کو ہر ایوان میں جگہ ملے بلکہ یہ چھ سات پارٹی رہنماؤں اور ان کے مشیروں کی صوابدید پر ہے وہ چاہیں تو کسی ایک مذہبی اقلیت کے سارے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے نامزد کر دیں جس نسبت سے ان کے پاس متعلقہ ایوان میں غیر مسلم نمائندے نامزد کرنے کا اختیار ہو۔ اس طرح کئی کمیونٹیز اپنی کسی خاص خوبی کی بنا پر مثلاً پارٹی فنڈ دینے کی سکت یا کوئی تذویراتی حیثیت یا اس طرح کی دیگر کسی خوبی کی بنیاد پر زیادہ نوازی جاتی ہیں اور کہیں کسی کے ساتھ بہت زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود کسی تعصب کی بنیاد پر زیادہ بے عتنائی برتی جاتی ہے جیسے تین سال تک پنجاب اسمبلی میں کوئی ہندو نہیں تھا، بلوچستان میں کوئی سکھ نہیں، سندھ میں صرف ایک مسیحی ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں کوئی پارسی، سکھ،بہائی ودیگر میں سے کئی اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے’’۔
اسی طرح کی ایک اور مثال جو جمہوریت کے نام پر ایک سنگین مذاق ہے 2002ء کے سندھ اسمبلی کے ایک صوبائی حلقے میں ایک ہندو امیدوار نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اس نے اس حلقے سے صرف 34ووٹ لئے اور وہ امیدواروں میں ساتویں نمبر پر آیا لیکن وہ ا پنی پارٹی کی نسبت تناسب فارمولے سے نامزدگی کی بدولت کسی اسمبلی سے جیتنے والے ہندو امیدوار کے ساتھ بطور ممبر صوبائی اسمبلی 5سال ایم پی اے رہا اوراپنے خلاف 32ہزار 4سوچوبیس ووٹ لے کر جیتنے والے جیسی ہی مراعات اور حیثیت بھی انجوائے کرتا رہا۔
اس اہم انتخابی مسئلے سے سیاسی و ریاستی اشرافیہ کی عدم دلچسپی اور اسی طرح کے دیگر امتیازی قوانین کی ضمنی پیداوار امتیازی، سماجی و معاشرتی رویوں کی بدولت جنم لینے والے سانحات کے انسداد پیداواری(کاونٹر پروڈکٹیو) نتائج ہوتے ہیں جس کے بھیانک نتائج پاکستانی ریاست، حکومت اور قوم کو بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ لہٰذاایک اچھا انتخابی نظام غیر مسلم پاکستانیوں اورپاکستانی قوم کو ایسے نقصانات سے بچاسکتا ہے اور یہ اب تک کیوں نہیں ہو سکا؟ یہ ہمارے سیاسی دانشوروں اور سیاسی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جہاں یہ سارے حقائق و شواہد سیاسی و دانشور اشرافیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہیں اس پورے 6بار تین مختلف انتخابی نظام ایک جداگانہ ، دوسرا مخلوط ،تیسرا حالیہ دوہری نمائندگی والا مخلوط بمعہ متناسب نمائندگی والا انتخابی نظام جو پاکستان کی چند افراد پر مبنی سیاسی اشرفیہ کو پاکستان کی تقریباً آج اکتوبر 2022ء میں تقریباً 90لاکھ مذہبی اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر ایوانوں میں نمائندگان چننے کا حق دیتا ہے۔ ان تینوں کے بغور مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا جبکہ برصغیر کے مسیحیوں کو عقیدہ پرتگالی،ولندیزی برطانوی ودیگر فاتحین کے ساتھ آنے والے مسیحی مشنریوں کے ذریعے ملا پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں نے صرف برطانوی دور حکومت ہی دیکھا۔ لیکن دیگر مشنریوں کی مذہبی و تعلیمی کوششوں کے اثرات پھر بھی کسی نہ کسی طرح مقامی مسیحیوں پر ضرور ہیں۔ برصغیر کا موجودہ تعلیمی نظام بھی انہی ادوار میں سے ارتقا پذیر ہوا۔اسی تعلیمی نظام کی ذیلی پیداوار موجودہ سیاسی نظام ہے۔ جس کی بدولت دلا بھٹی سے بھگت سنگھ تک کا ارتقاء ہوا اور برصغیر کی سیاست میں موہین داس گاندھی اور قائداعظم کردار پیدا کئے۔
کانگریس کا پہلا صدرِ بھی مسیحی ہی تھا۔مقامی لوگوں میں سب سے پہلے آزادی کی شمع جلانے والا ایک پرتگالی استاد و شاعر تھا۔لیکن یہ ایک المیہ ہے؟کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی مسیحی جنرل الیکشن میں کامیاب نہیں ہوا۔ جب کہ ایک بدھسٹ ایم این اے ،کئی ہندو ایم پی ایز اور حالیہ الیکشن میں ایک ہندؤ پاکستانی پہلا جنرل الیکشن جیتنے والا ہندو ایم این اے بھی بن چکا ہے۔ لیکن مسیحی جن کی ہزاروں این جی اوز سینکڑوں سیاسی جماعتیں اور چند ایک کو چھوڑ کرتقریبا ًہر مذہبی راہنما سیاست کا شوقین ہے۔ لیکن پھر بھی یہ قحط الرجالی کیوں ہے۔؟
یہ ایک تلخ سوال ہے۔ کیونکہ ہماری این جی اوز کھربوں روپے سیاسی و سماجی ورکروں کی تربیت پر لگا چکی ہیں۔لیکن نتیجہ اب تک صفر ہے۔ کوئی سیاسی ورکر اپنے سیاسی قائدین کو آج تک یہ باور نہیں کراسکا کہ میں بھی کسی مسلم سیاسی ورکر سے بہتر لوگوں کو پارٹی منشور پر متحرک کرسکتاہوں۔ یاد رہے کہ جن حلقوں سے ہندو جنرل الیکشن جیتتے ہیں۔ وہاں بھی ایک آدھ حلقے کو چھوڑ کر اکثریتی ووٹرز مسلمان ہی ہیں۔ٹکٹ دینے کی وجوہات اور ہیں۔جن پر پاکستانی مسیحیوں کو غور کرکے پھر اپنے معروضی حالات کا جائزہ حقائق و شواہد کی بنیاد پر کرنا چایئے۔کہ اب تک مسیحیوں کو کبھی ان کے قائدین نے اس قابل کیوں نہیں جانا کہ ان کو ایسے حلقوں سے ٹکٹ دی جائے جہاں سے جیتنے کے امکانات 30فیصد بھی ہوں۔کچھ غیر مقبول سیاسی جماعتوں نے ایک آدھ بار اور قومی سیاسی جماعتوں نے بھی ان حلقوں سے جہاں سے جیتنے کے امکانات زمینی حقائق کی بجائے معجزے کی صورت میں ہی ہو سکتے تھے،وہاں سے ضرور ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کا اپنے ایک مسیحی ورکر عامر شرجیل کواین اے 246 کراچی سینٹرل سے ایم کیو ایم کے گڑھ سے ٹکٹ دینا تھا۔اس بے لوث ورکر نے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک اور اپنی جرأت و لگن سے حیران کن ووٹ جو کہ 31875 تھے لے کر کراچی کی سیاست میں ہلچل مچا دی تھی۔ مرحوم عامر شرجیل جلد ہی کینسر کی موذی مرض کی وجہ سے چل بسے لیکن مجال ہے۔ جو کبھی پی ٹی آئی کی کسی سیاسی تقریب میں اس کا ذکر ہوا ہو۔ مسیحیوں کے معاملے میں ایسی کوئی مثال پہلے نہیں ہے اور یقین جانیئے اگر پی ٹی آئی کی قیادت کو یقین ہوتا کہ یہ سیٹ جیتی جاسکتی ہے۔تو شائد عامر شرجیل یہ ٹکٹ نہ حاصل کرپاتا۔سیاسی پارٹیوں کی اس بے اعتنائی اور مجموعی طورپر آئین نو سے ڈرنا اور باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ ڈاکٹرائن کی پیرو کاری کی روش کے ردِعمل میں بجائے اپنی ذاتی و اجتماعی خود احتسابی کرنے کے اور اپنی استعداد کار بڑھانے کے انفرادی واجتماعی کمزرویوں کوتاہیوں کا حل سیاسی رجحانات رکھنے والے مسیحی سیاسی ورکروں نے یہ نکالا ہے کہ وہ چند ہزار روپے خرچ کرکے آزاد امیدوار بن جاتے ہیں۔جس کا کمیونٹی کو بظاہرتو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اگر کوئی مخفی فائدہ ہوتا ہوتو کچھ کہہ نہیں سکتے۔
لیکن ایسے امیدوارچند سویا ایک آدھ ہزار ووٹ لے کر اپنے نام کے ساتھ ساری عمر کے لئے یہ اعزاز لکھ لیتے ہیں۔ سابقہ امیدوار حلقہ این اے فلاں فلاں اور پھر اپنی قابلیت کی خود احتسابی کی بجائے اپنے چسکے کے لئے تقریباً90لاکھ لوگوں کو معاشرے سے کاٹ دینے والے جداگانہ انتخابی نظام کا نعرہ لگانے لگتے ہیں۔جو پہلے ہی آئینی طور پر دو نمبر شہری کو ناپاک سیاسی شودر بنا کر معاشرے میں 99کے نمبر شہری بنا دیتا ہے۔ اور پاکستان کے غیر مسلم یہ انتخابی نظام پانچ بار بھگت چکے ہیں۔ خیر یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ جو اپنے خرچے پر ہوتو کسی کو کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر سماجی فلاح، این جی اوزیا گرجے کی بنیاد پر منگوائے گئے چندے پر ہو تو یقیناً یہ قابل اعتراض ہے۔خیر یہ ایک ضمنی بات تھی۔لیکن یہ سوال بہت سنجیدہ ہے۔کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی بھی قومی سطح سیاسی جماعت نے کسی جیتنے کے امکانات والے حلقے سے کسی مسیحی کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا۔
حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے لئے خود سوزی کرنے والے 7 لوگوں میں سے ایک یعقوب پرویز کھوکھر بھی مسیحی تھا اسی طرح پی این اے کی تحریک میں جان دینے والوں میں سے بھی ایک مسیحی تھا۔سیاسی سماجی و سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی راہنماؤں او رورکروں کے لئے یہ ایک سوال ہے۔ عرق ریزی سے اس پر کہج بحثی نہیں بلکہ سیاسی سائنس سے مزئین بحث کریں انشاللہ نتیجہ نکلے گا۔ہاں اُمید ہے اس تحریر اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی سنجیدہ بحث کی بدولت مستقبل میں ٹکٹ حاصل کرنے والے ضرور اس کوشش کو یاد رکھیں گے۔ یاد رکھنے کے ساتھ آج اگر اس آگاہی بے ضرر مہم میں حصہ بھی لے لیں تو یہ ان کے لئے اور مذہبی اقلیتوں کے لئے بھی بہت اچھا ہو۔
ہاں حقائق شواہد، معروضی حالات اور اپنی کمزوریوں اور توانائیوں کا بغور تجزیہ طکمخ بہت ضروری ہے ہم تاریخی طور پر پسے ہوئے ہزاروں سال کی محرومیوں کے مارے ہوئے اور ہماری سیاسی اشرفیہ ہوس و زر کی ماری ہوئی ہے۔ لہٰذا چندے سے چندا دے کر انہیں رام نہیں کیا جاسکتا۔ مقامی منڈی سے وافر کما کر ہی ٹکٹ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔کیس اسٹدی کے طور پر رمیش کی کامیابی اور اسحاق کی ناکامی ماڈل اسٹڈی کریں۔ لازمی نہیں صرف پیسے کے زور پر ہی ٹکٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کے قومی جماعتوں میں شامل مسیحیوں کو مینارٹی ونگز کی سیاست سے ہٹ کر اپنی پارٹیوں کے منشور کے مطابق قومی سطح کی سیاست میں بھی متحرک ہونا پڑے گا اور اپنے سیاسی جدوجہد کے ساتھ فکری و سیاسی شعور کو بھی اس سطح پر لانے پڑے گا جس کی بنا پر غریب سیاسی ورکروں کو پارٹی ٹکٹ ملتے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے ہمیں مشہور مفکر ایرک لو کا فلسفہ طاقت پڑھنا بہت ضروری ہے۔جو بتاتا ہے ۔طاقت کے مراکز سے کن عناصر کے ذریعے اپنا حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ہی ہم اپنے تجزیے طکمخ سے یہ طے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کن عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور سیاست ہماری ترجیحات میں کس نمبر پر ہونی چاہیئے۔ کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں دلچسپی رکھنے والے حضرات بی ٹی ایل ٹی وی کے پروگرام ‘‘سفر شناخت اعظم معراج کے ساتھ’’ پروگرام نمبر 8اور 9 اس موضوع پر تفصیلی بحث سن سکتے ہیں اور تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتب میں بھی اس فلسفے پر بحث کی گئی ہے۔
مسیحیوں کی اس سیاسی پسماندگی اور حکمران سیاسی اشرافیہ کی بے عتنائی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً مسیحی تو تاریخی ، سیاسی و معاشی طور پر پسماندہ ہیں جس کی بہت ساری تاریخی وجوہات بھی ہیں لیکن یہ سیاسی اشرافیہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ جو آج تک ا پنے سیاسی پیروکاروں کی تربیت نہیں کر سکی کہ وہ اپنے امیدوار کو سیاسی منشور پر ووٹ دیں نہ کہ برادری مذہب رنگ اور نسل کی بنیاد پر اور نہ ہی پیپلز پارٹی نے ہندؤں کے کیس میں 6,7بار اور مسلم لیگ نے 1970کے الیکشن میں رانا چندر سنگھ کے کیس کے علاوہ کبھی بھی اس بات کو اپنے سیاسی منشور کا حصہ نہیں بنایا ہے ۔ان چھ سات کیسز کو بھی بطور کیس اسٹڈی مسیحیوں کو بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔
‘‘ شیڈول کاسٹ ہندو برادری کے سیاسی سماجی ورکروں کے لئے بھی یہ ایک سوال ہے۔ ان کے ہاں بھی میری معلومات کے مطابق صورت حال ایسی ہی ہے۔ کیونکہ ان کی بہت بڑی آبادی سندھ میں ہے۔جنرل الیکشن جیتنے والے تمام ممبران بھی سندھ سے ہیں۔لیکن ان میں شیڈول کاسٹ کوئی بھی نہیں۔سیاسی اشرفیہ کی ناکامی اپنی جگہ لیکن اپنی خود احتسابی بھی بہت ضروری ہے۔کیونکہ صورت حال منیر نیازی کے ان شہرہ آفاق شعروں جیسی ہے۔
کْج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
کچھ لوگوں کو تودوہرے ووٹ کایہ مطالبہ اوریہ فارمولا شائد غیر جمہوری مطالبہ لگے ۔ لیکن تحریک شناخت نے یہ مطالبہ اور لائحہ عمل ماضی و حال میں چھ بار تھوپے گئے تینوں نظاموں کے بغور مطالبے اور پاکستانی معاشرے کے سماجی و سیاسی حالات کو جان کر کیا ہے۔
ان تینوں انتخابی نظاموں کی خوبیوں، خامیوں کا اعداد و شمار کے ساتھ بغور مطالعہ کرنے اورمعروضی حالات کے مطابق فی الحال معاشرے کے رویے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے سیاسی نمائندوں کی استعداد اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے دوہرے ووٹ سے بہتر کچھ سمجھ نہیں آتا۔اس نظام کے خدوخال اعداد و شمار معروضی حالات اور 75 سالہ اس سیاسی المیے کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے واضح کئے گئے ہیں اور اس کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ عمرانی معاہدے میں یہ آئینی ترمیم پاکستان کے غیر مسلم شہریوں اور ریاست کے رشتے کو مضبوط کریں اس سے آئین پاکستان کی ان شقوں کے مضر اثرات بھی کم کئے جا سکتے ہیں جن کے انسداد پیداواری (کاؤنٹر پروڈکٹیو) اثرات پاکستانی معاشرے اور سماج میں کئی سماجی برائیوں کو جنم دیتے ہیں۔ ان برائیوں کے اثرات بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کی بدنامی کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
75 سال میں15 بار انتخابات میں3 انتخابی نظاموں کے تجربات غیر مسلم پاکستانیوں پر 6بار کئے گئے۔جس کی خوبیوں خامیوں کی تفصیلات تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں، قومی و کمیونٹی کے اخبارات رسائل پمفلٹس، پوسٹرز،وڈیو کلپس، ٹی وی انٹرویوزو دیگر ذرائع سے تقریباً دہائی سے بیان کر رہے ہیں۔ان 75 سال کے تجربات اور پاکستان کے معاشرتی ، سیاسی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔
‘‘کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ کر سماجی طور پر اچھوت اور سیاسی شودر بن گئے تھے۔ جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماؤں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں’’
لہٰذاجس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ء تک کے تجربے سے سیکھ کر2002ء میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے، یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کابھی تقاضا ہے۔ اس سے یقینا ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔
اب آتے ہیں عملی طور پر یہ دوہرے ووٹ کا نظام کیسے نافذ العمل ہو گا ۔ اس کے لئے غیر مسلم پاکستانیوں کے مذہبی، سیاسی و سماجی حقوق کے لئے متحرک کارکنوں کو ریاستی اداروں اور سیاسی و دانشور اشرافیہ کو اپنا یہ مسئلہ حقائق، شواہد اور معروضی حالات کے مطابق بتا کر انہیں آئین میں ایک اور بے ضرر سی آئینی ترمیم کے لئے قائل کرنا پڑے گا اس کے لئے جس طرح 1947ء سے 1970ء تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ء سے1997ء تک کے تجربے سے سیکھ کر2002ء میں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا اسی طرح اب75سالہ اس ارتقائی سفر سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے، یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کا مطالبہ اور آئین پاکستان کی شق 226 کابھی تقاضا ہے۔ اس سے یقینا ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سوال کے دوسرے حصے کے جواب ساتھ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے زریعے شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام کے لئے جدو جہد کرتے سیاسی سماجی اور مذہبی ورکرز تحریک شناخت آپ سے گزارش کرتی ہے کہ اقلیتوں کے موجود انتخابی نظام میں تبدیلی اور مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا محور و مرکزان تین نکات کو بنائیں۔

1 ۔ ہر غیر مسلم شہری کا پاکستان کے ہر حلقے میں قومی،صوبائی، ضلعی،تحصیل اور یوسی سطح پر ووٹ ڈالنے اورجنرل الیکشن لڑنے کا حق محفوظ رہے۔ 2001 میں اسی خیال سے دوہری نمائندگی کے نظام کو بحال کیا گیا تھا تاکہ ہر مذہبی اقلیت کی مذہبی شناخت پر نمایندگی کو ایوانوں میں یقینی بنایا جائے ،لیکن اس انتحابی نظام کے اس مثبت پہلو کے ساتھ اس کا تاریک پہلو یہ ہے،کہ اس نظام میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی شناخت پر اپنے نمائندے چننے کے حق کو سلب کرلیا گیا ہے۔
2۔ دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لئے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔گو کہ اس نظام سے جڑا اس کا دوسرا حصہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے لئے بہت ہی مضر تھآ، وہ مذہبی اقلیتوں کو قومی سیاست، معاشرے، سماج سے کاٹ کر اچھوت اور سیاسی شودر بناتا تھا اس لئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یوسی سطع سے لے کر قومی اسمبلی تک تک جو بھی نمائندہ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت پر نمائندگی حاصل کرے وہ انھی کے ووٹوں سے منتخب ہوں۔۔۔
   3- اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر وفاقی اکائی میں سے اقلیتوں کی نمائندگی سینٹ،قومی،صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ یوسی سطح تک ہو۔جس کے لئے حلقہ بندیاں پنجاب میں جہاں مسیحیوں اورسندھ میں جہاں ہندوؤں کی آبادی مناسب تعداد میں ہے۔ وہاں تو چھوٹی بڑی قومی وصوبائی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جن وفاقی اکائیوں میں مثلاً بلوچستان ،کے پی کے اور اسلام آباد جہاں اقلیتی آبادی کی تعداد نمائندگی کے لئے درکار تعداد سے بہت کم ہے۔ وہاں آئین کے دیباچے/تمہیدِ (preamble)کے اس پیرا گراف کی بنیاد پر مذہبی شناخت پر اقلیتی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔

Wherein adequate provision shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes.
‘‘ترجمہ:جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے’’۔ اس فارمولے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ اقلیتوں کی نمائندگی وفاق کی ہر اکائی سے ہو۔یہ بے ضرر آئینی ترامیم کسی بھی سیاسی جماعت یا گروہ کے مفادات کے متصادم بھی نہیں ہو گی اوریہ ملک و قوم کے استحکام کی بھی ضمانت بنے گی۔
دوہرے ووٹ کے مطالبے کو تین نکات کا محور و مرکز بنانے سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی پاکستان کے ہر حلقے سے قومی نمائندگی بھی ہو اور ہر وفاقی اکائی سے مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی یقینی ہو۔اس مطالبے کو بخوبی سمجھ کر اس کے لئے اس یقین سے کوشش کریں کہ یہ بے ضرر سی آئینی ترمیم کسی بھی سیاسی جماعت، گروہ یا ریاست، حکومت کے مفادات سے متصادم بھی نہیں ہوگی یہ آئینی ترمیم ملک وقوم کے استحکام کی بھی ضمانت ہوگی۔ ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔چاروں صوبوں کے ساتھ اسلام آباد سے بھی اقلیتوں کو سینیٹ کی نمائندگی دی جائے۔تین تین اقلیتی ممبران صوبائی اسمبلی ہوجائیں گے جبکہ کے پی کے سے ایک نشست پاکستان کی جغرافیائی ،عقیدے،وتہذیب کے اعتبار سے بلکل منفرد شناخت کی حامل کیلاش اقلیت کے لئے ایک نشست مخصوص کی جاسکتی ہے۔یاد رہے اس وقت بھی کے پی کے میں اقلیتوں کے لئے چار نشستیں مخصوص ہیں۔
قومی اسمبلی کے لئے اوسطاً پنجاب سے ایک ایم این اے 504274 ووٹوں کے حلقے سے بنتا ہے۔ مسیحیوں کے پنجاب میں7جون2022ء کے ریکارڈ کے مطابق ووٹوں کی تعداد1399468 ہے۔ جس کے مطابق مسیحوں کے تقریباً 3 ممبر قومی اسمبلی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔لیکن آئین میں دی گئی راہنمائی کی بدولت رعایت دے کر مسیحوں کی5 نشستیں اور ایک ہندؤں کی اور ایک دیگر سب اقلیتوں کی ایک نشست جس سے اقلیتوں کے لئے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں کی جاسکتی ہیں۔ اسکے لئے مسیحو ں کے 5 چھوٹے بڑے حلقے اور ہندؤں اور دیگر اقلیتوں کے لئے حلقہ پورا پنجاب ہی ہوگا۔یہ بات ذہن میں رہے یہ آئینی رعایت کی بنیاد پر ممکن ہے ورنہ صحیح تعداد پنجاب میں کل اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد جو کہ1703782 ہے اس کے حساب سے مجموعی اقلیتی نشستوں کی تعداد3.37ہونی چاہیے۔ جبکہ مجموعی اقلیتی ووٹوں کی تعداد کے مطابق مجموعی اقلیتی نشستوں کی تعداد3 ہی ہو سکتی ہے۔
پنجاب میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی 239403 ووٹوں سے ممبر منتخب ہوتا ہے۔اس حساب سے مسیحو کے تقریباً6 ممبران صوبائی اسمبلی بن سکتے ہیں لیکن آئینی رعایت کی روح سے 1399468 ووٹوں کو چھوٹے بڑے حلقے بنا کر8 نشستیں دی جاسکتی ہیں۔ہندو اور دیگر اقلیتوں کے لئے ایک نشست پورا صوبہ حلقہ انتخاب بنا کر دی جاسکتی ہے جس سے پنجاب اسمبلی میں مجموعی اقلیتی ممبران کی تعداد 10 ہوجائے گی۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک نشست 323055 ووٹروں کے حلقے سے کے پی کے سے اوسطاً 4736949 ووٹروں کے حلقہ انتخاب سے اور اسلام آباد سے 312760 ووٹرز کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ جب کے ان تینوں اکائیوں میں اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداددرکار ووٹوں سے انتہائی کم ہے۔ جو کہ بلوچستان53532 کے پی کے48165 اور اسلام آباد میں41977 ہے۔ لہٰذا ان وفاقی اکائیوں میں سے سب اقلیتوں کو ملا کر ایک ایک قومی اسمبلی کی نشست ہونی چاہئے۔
جس سے اقلیتی سینیٹرز کی تعداد 5ہوجائے گی۔قومی اسمبلی کی تعداد 10 سے بڑھا کر 19کی جائے۔ جسکی تفصیل یوں ہے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے لئے اوسطاً ایک ایم این اے 504274 ووٹوں کے حلقے سے بنتا ہے۔ جس کے مطابق مسیحوں کے تقریباً 3 ممبر قومی اسمبلی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔لیکن آئین میں دی گئی رہنمائی کی بدولت رعایت دے کر5 مسیحوں کی نشستیں اور ایک ہندوں کی اور ایک دیگر سب اقلیتوں کی نشست مخصوص ہو، جس سے اقلیتوں کے لئے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں کی جاسکتی ہیں۔ اسکے لئے مسیحوں کے 5 چھوٹے بڑے حلقے ہندوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے حلقہ پورا پنجاب ہی ہوگا۔
سندھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست اوسطاً 429953 ووٹوں کے حلقہ انتخاب پر مشتمل ہوتی ہے۔ جبکہ سندھ میں جون8 الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق کل ہندو ووٹوں کی تعداد سندھ میں 1936749 ہے۔ اس طرح اس میعار سے ہندؤں کے ووٹوں کی تعداد ساڑھے 5 نشستوں کی بنتی ہے۔لیکن آئین کی روح سے انہیں رعایت دے کر7 نشستوں پر حلقہ بندی کی جاسکتی ہے اور مسیحوں کے لئے صوبہ سندھ سے ایک قومی اسمبلی کی نشست کے لئے حلقہ بنایا جاسکتا ہے۔گوکہ مسیحوں کے ووٹوں کی تعدادپورے سندھ میں 254731ہے جو کہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے درکارووٹوں کی تعداد سے کم ہے اسی طرح دیگر اقلیتوں کی کل یہ تعداد بھی درکار ووٹوں کی تعداد سے بہت کم ہیجو کہ جون2022ء کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 7372 ہے
اس کے باوجود ان ساری اقلیتوں کی نمائندگی بھی سندھ جیسی اہم وفاقی اکائی سے یقینی بنانے کے لئے پورے صوبے کو ایک حلقہ بنا کر ایک قومی اسمبلی کی نشست دینی چاہیئے جس سے سندھ سے قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں کی تعداد9ہوجائے گی۔یاد رہے سندھ میں اگست کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق سندھ میں مجموعی اقلیتی ووٹروں کی تعداد2307282ہے جس حساب سے سندھ سے مجموعی اقلیتی نشستوں کی تعداد بامشکل6ہی ہو سکتی ہے۔ لیکن آئین میں دی گئی رعایت کی بنیاد پر ہی یہ9نشستوں کا مطالبہ ممکن ہے۔
اسلام آباد سے ایک قومی اسمبلی کی ایک کے پی کے اور بلوچستان سے اقلیتوں کی ایک نشست پنجاب سے قومی اسمبلی کی7نشستیں اور سندھ اسمبلی کی9نشستیں ملا کر اقلیتوں کی مجموعی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 19 ہو جائے گی۔سندھ اسمبلی میں اوسطاً ایک ممبر صوبائی اسمبلی 188684ووٹوں کے حلقہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے۔ اس حساب سے سندھ کے 1936749ہندوووٹوں سے سوا گیارہ نشستیں بنتی ہیں جنہیں تیرا( 13) نشستوں کی چھوٹی بڑی حلقہ بندیوں میں تقسیم کر دیا جائے اور مسیحیوں کے ووٹ 254731 ہیں جو کے دو نشستوں سے کم ہیں انھیں ایک نشست کراچی کی اور ایک باقی سارے سندھ کی کر دی جائے یعنی دو حلقے بنا دیئے جائیں اور دیگر اقلیتوں کی تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے انھیں پورے صوبے کو حلقہ بنا کر ایک نشست دی جائے۔اس طرح سندھ سے اقلیتی ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد 16 ہوجائے گی۔ جبکہ سندھ میں مجموعی اقلیتی ووٹوں کی تعداد اگست تک کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق2307282 ہے جس کے حساب سے مجموعی صوبائی اسمبلی کی اقلیتی نشستوں کی تعداد12.22 یعنی 12 ہی ہو سکتی ہیں۔جب کہ صوبوں میں سندھ سے صوبائی اسمبلی کی16پنجاب سے10 اور کے پی کے اور بلوچستان سے تین تین نشستیں ملا کر مجموعی ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد32 ہو جائے گی جبکہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد سے ایک ایک سینیٹر ہونے سے کل سینیٹر کی تعداد5 سینیٹر ،19ایم این اے 33 ایم پی اے ایز ملا کر یہ تعداد 57ہوجائے گی۔ جنکی تفصیل یوں ہے۔اسلام آباد ،کے پی کے اور بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک ایک اقلیتی نشست ،پنجاب سے 7اور سندھ سے 9ممبران قومی اسمبلی ہونگے۔بلوچستان سے 3،کے پی کے سے 4 ممبران صوبائی اسمبلی اور پنجاب سے 10اور سندھ سے صوبائی اسمبلی کی 16نشستیں ہونگی۔یہ بات یاد رہے یہ آئین پاکستان کی کمزور طبقات کو دی گئی رعایت کے پیش نظر ہی ممکن ہے ورنہ اقلیتی ووٹوں کی سرکاری تعداد کے مطابق تو موجودہ38کی تعداد بھی زیادہ ہی ہے۔اس سلسلے میں تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے رضا کار آپ کی فکری معاونت و راہنمائی کے لئے حاضر ہیں۔
نوٹ اقلیتوں کے علیحدہ علیحدہ اعداد و شمار جون 2022ء تک کے ہیں جبکہ اگست2022 کے اعداد و شمار مجموعی اقلیتی آبادی کے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں پاکستان کی دونوں بڑی اقلیتوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1981ء کی افراد شماری کی بنیاد پر 1985ء میں ضیائی جمہوریت کے شہکار جداگانہ کی حلقہ بندیاں اعداد و شمار کے مطابق ایسی کچھ ناجائز بھی نہ تھیں۔آج اگر حلقہ بندیاں اعداد وشمار کے میرٹ پر کی جائیں تو سندھ میں ہندؤں ، پنجاب میں مسیحیوں کے علاوہ باقی تمام وفاقی اکائیوں میں آج بھی حلقوں کا حال و ہی ہو گا اور پورے پاکستان کی اقلیتوں کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے لئے حلقہ پھر پورا پاکستان ہی بنانا پڑے گا۔
اصولی طور پر سیاسی اشرافیہ غیر مسلموں کو دوہری نمائندگی دے چکی ہے کیونکہ پاکستان کے868 قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ہر نمائندہ غیر مسلم پاکستانیوں کا بھی نمائندہ ہوتا ہے اور وہ اسے ووٹ بھی ڈالتے ہیں جو کہ یقیناً ایک جمہوری طریقہ ہے اعتراض اس بات پر ہے ان کی مذہبی شناختوں پر جو بھی نمائندے موجود ہیں ان کو اسمبلیوں میں لانے کا فیصلہ متناسب نمائندگی کے فارمولے سے نہ کیا جائے بلکہ اس انتخابی نظام کو تھوڑا سا بہتر کرکے مذہبی شناخت پر نمائندے منتخب کرنے کا حق متعلقہ مذہبی گروہوں کو دے دیا جائے۔کیونکہ جب 90لاکھ لوگوں کی مذہبی شناخت پر 38نمائندوں کو 4سے5لوگ منتخب کرتے ہیں تو اس دوہری نمائندگی کی رعایت کا سارا مزا خراب ہو جاتا ہے اور یہ یہ انتہائی خیر جمہوری طریقہ ہے۔یوں دوہرے ووٹ کا نظام ناگزیر ہے۔
لہٰذا ریاست پاکستان کے تینوں ستونوں کے نمائندوں اور سیاسی و دانشور مسلمان اشرافیہ سے یہ دست بدستہ گزار ش ہے کہ وہ استحکام پاکستان اور عام غیرمسلم پاکستانیوں کے مفادات کے لئے یہ کام سرانجام دیں۔ اس کام کو ایک بے ضررسی آئینی ترمیم سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ یہ آئینی ترمیم مذہبی اقلیتوں کے ساتھ آئین کی شق226کا بھی مطالبہ ہے۔ اور یہ آئینی ترمیم اقلیتوں کی سیاسی بے چینی بھی ختم کرے گی اور استحکام پاکستان کی بھی وجہ بنے گی۔ کیونکہ آج کے دور میں اقوام کی ترقی کے اعشاریوں میں اس چیز کی بہت اہمیت ہے کہ وہاں کے کمزور طبقات مثلاً خواتین، بچے اور مذہبی اقلیتیں کتنی مطمئن اور خوشحال ہیں۔
اس فارمولے میں بیان کئے گئے اعداد و شمار تمام اقلیتوں کے7جون2022ء تک کے اور مجموعی اقلیتوں کے اگست 2022 تک کے ہیں جن میں ردو بدل جب اس فارمولے پر عمل درآمد کا وقت آئے اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق کر لیا جائے۔
آخر میں اس نقطے کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ صرف جداگانہ انتخابات کا مطالبہ انتہائی غیر جمہوری اور اقلیتوں کو ایک بار پھر سیاسی شودر بنانے کا مطالبہ ہے جس کو 1985ء سے 1999ء تک سیاسی شعور رکھنے والے سیاسی ورکر و روشن خیال دانشور بری طرح مسترد کر چکے ہیں۔
اس طرح کچھ این جی اوز ایک اور فارمولا بھی پیش کرتی ہیں کہ پاکستان بھر میں جن چند قومی و صوبائی حلقوں میں اقلیتوں کی زرا مناسب تعداد ہے آئینی ترمیم سے ایسا بندوبست کیا جائے کہ وہاں سے صرف اقلیتی امیدوار ہی الیکشن لڑیں لیکن ووٹروز اکثریتی و اقلیتی تمام اس طرح ان حلقوں سے وہاں سے اقلیتوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے کا بندوبست کیا جائے یہ بھی انتہائی غیر دانشمندانہ اور معروضی حالات سے ناواقف اور اس معاشرے کی سیاسی، معاشرتی، سماجی، معروضی حالات و محرکات کو بغیر جانے کیے جانے والا مطالبہ ہے اگر اس کے مطابق اقلیتوں نے 10ایم این اے اور 24ایم پی ایز کو ملک کے مختلف حلقوں سے مذہبی شناخت پر اسمبلیوں میں پہنچا بھی دیا جاتا ہے تو ملک کے ہر گاؤں، قصبے اور شہر میں بستے اقلیتی شہری کی مذہبی شناخت پر نمائندگی کیسے ممکن ہو گی۔ دوسرا اس نظام کا خطرناک پہلو یہ ہوگا کہ جب اکثریتی ووٹرز کو یہ احساس ہوگا کہ میرا اپنے حلقے میں مسلم امیدوار چننے کے حق کو سلب کر لیا گیا ہے تو اس احساس محرومی کے ردعمل کا شکار اس حلقے کے اقلیتی شہری ہوں گے۔جس سے معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے چکر میں معاشرے سماج میں نفرتیں مزید بڑھے گی۔یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں غیر مسلم اکثریت میں ہوں۔ لیکن اگر کہیں ہوں بھی تب بھی یہ قدغن تو ہم ایسے حلقوں میں بھی نہیں لگا سکتے جہاں بہت ہی محدود تعداد میں مسلم ووٹرز ہوں۔ جنرل انتخابات میں اقلیتی امیدوار کا الیکشن لڑنا اور سیاسی پارٹیوں کا اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ دینا ایک علیحدہ بات ہے لیکن اس طرح کی آئینی ترمیم کی بات کرنا مخصوص نشستوں کے لئے مقررہ حلقوں سے صرفِ اقلیتی امیدوار ہی کھڑے ہوسکیں، یقیناً معاشرے میں بہت زیادہ نفرتوں کو جنم دینے کا سبب ہوگا۔ لہٰذا یہ درآمدی فارمولا سبی کی گرمی میں مقامی لوگوں کوشدید سرد علاقوں والے کپڑے زبردستی پہنانے والا ہے۔
لہٰذا دوہرے ووٹ سے کم کا کوئی مطالبہ ایک نئے سیاسی المیہ کو جنم دے گا۔ اس لئے دوہرے ووٹ کا مطالبہ ہی کیا جائے ۔ خداراہ کوئی ایسا مطالبہ نہ کیجیے جس کے نتیجے میں کسی بھی مثبت یا منفی جذبے کی بنیاد پر 868 حلقوں سے ان غیر مسلم پسے ہوئے معصوم پاکستانیوں کو دست بردار ہونا پڑے۔
ان دونوں فارمولوں میں سے جداگانہ تو غیر مسلم پاکستانی1985ء سے1999ء تک بھگت چکے ہیں جبکہ دوسرا نسبت تناسب والا فارمولا ایک نیا تجربہ ہو گا جو کسی طرح بھی پاکستان کے سیاسی و سماجی متحرکات سے میل نہیں کھاتا۔
فرض کریں اگر ریاستی ادارے اور سیاسی اشرافیہ انگریزی پریس، غیر ملکی این جی اوز کے اثر میں ترس کھا کر (گوکہ رحم کا عنصر ہماری سیاسی اشرافیہ میں کم ہی پایا جاتا ہے) غیر مسلم پاکستانی نمائندوں کی تعداد 34سے بڑھا کر40 اورپھر اننمائندوں کے لئے 40انتخابی حلقہ بندیاں بھی کر دیتی ہے۔ لیکن غیر مسلم پاکستانی تو پاکستان کے چپے چپے پر آباد ہیں۔ اور پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سارے مجموعی طور پر868حلقوں میں موجود ہیں۔کیونکہ اس ساری جدوجہد کا مقصد تو یہ ہی کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کومذہبی شناخت پر بھی اسمبلیوں میں پہنچایا جائے۔ 868حلقوں سے نکال کر34یا40 حلقوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کرنا انتہائی غیر جمہوری اورسیاسی لاعلمی کا ثبوت ہے ۔ فرض کریں اگر غیر مسلم شہریوں کو قومی اسمبلی کی 10یا12 نشستوں پرقومی اسمبلی میں پہنچا بھی دیا جائے توصرف پنجاب اور سندھ سے اقلیتی رکن قومی اسمبلی بنوا کر272حلقوں میں آباد نمائندوں کی مذہبی شناخت کی نمائندگی قومی اسمبلی میں کیسے ہو گی؟ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے صرف سندھ اور پنجاب سے ہی قومی اور صوبائی 24یا 30حلقوں سے اقلیتی رکن اسمبلی بنوا بھی لئے جائیں تو اقلیتیں تو پاکستان کی تقریباً496 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں آباد ہیں تو باقی صوبائی حلقوں سے مذہبی نمائندگی کسیے ممکن ہو گی۔ کیونکہ پاکستان میں اقلیتی آبادی کے متحرکات بالکل منفرد ہیں۔ لہذا ایسا کوئی بھی فارمولا جس سے مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے سے نکالا جائے ۔
روپلو کولھی، سردار ہری سنگھ،یعقوب پرویز کھوکھر، آر ایم جیمز اور نواز مسیح شہید و دیگر سینکڑوں ایسے اس سرزمین کے حصول اوراسے بنانے سنوارنے اور بچانے کے لئے رنگ و نسل مذہب سے بالاتر ہو کر قربانیاں دینے والوں کے لہو اور ان کے ورثا کی اجتماعی توہین ہو گی۔ اب اس پوری صورت حال میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ چند ایک مسیحی سیاسی ورکر اور این جی اوز کے سماجی کارکن دوہرے ووٹ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ ان میں سے چند تو جداگانہ کے حامی ہیں اور کچھ نسبت تناسب کے ایسے نظام کی بات کرتے ہیں جس میں آئینی طور پر مذہبی اقلیتوں کے لئے ایسا انتخابی نظام وضع کرایا جائے جن حلقوں میں اقلیتی شہریوں کی آبادی ذرا مناسب ہے ان کو وہاں سے منتخب کروا کر ایوانوں میں پہنچایا جا سکے۔ تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی 16کُتب کے لئے تحقیق کے دوران مسیحیوں کی اپنی دھرتی سے معاشرتی بیگانگی کے اثرات کھوجنے کے دوران تاریخ کے جبر ،معاشرتی اورامتیازی رویوں سے جنم لینے والے امتیازی قوانین کے ردعمل میں معاشرتی بیگانگی کے ساتھ ایک شناختی بحران کی بھی تشخیص ہوئی ہے جس کا اندازہ آپ ان رویوں پر میرے مشاہدے سے لگا سکتے ہیں۔
شفافیت پر میرے نکتۂ نظر سے میری رئیل اسٹیٹ برادری کے اربوں کھربوں کے مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے انفرادی مفادات پر ضرب پڑنے کا وقتی اندیشہ بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ سب بھی اس نکتۂ نظر پر میری ملک وقوم اور آنے والی نسلوں کے مفاد کی دلیلیں پڑھنے سننے کے بعد اس نکتۂ نظر کی عزت کرتے ہیں اور اکثر پھر حامی بھی ہوجاتے ہیں۔ یقیناً ایسے لوگوں کی اعلیٰ ظرفی بہت قابل تحسین ہے۔ اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے لائحہ عمل پر مبنی انتخابی نظام پر عرق ریزی سے مشقت کرنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ اس انتخابی نظام کے وضع ہونے سے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے ہر فرد کی مذہبی و قومی شناخت ساتھ ساتھ حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ مذہبی و معاشرتی ہم آہنگی کے حصول کا بھی بہت آسان ذریعہ ہوسکتا ہے اور یہ مقاصد ایک بے ضرر سی آئینی ترمیم سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اقلیتوں کے اجتماعی و انفرادی مفادات وابستہ ہیں اور یہ مسلسل ایک دہائی کی مشقت و عرق ریزی سے پاکستان کے معروضی سماجی وسیاسی حالات اور اقلیتوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے بغور جائزے سے تیار کیا گیا ہے اس نظام کی سفارشات کے نتیجے میں شائد ہی صرف چند لوگوں کے انفرادی مفادات پر ضرب پڑتی ہو۔ ہاں اس نظام کی سفارشات مرتب کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھا گیا ہے کہ پاکستان کے ہر انتحابی حلقے میں بسنے والے ایک ایک اقلیتی ووٹر کو بھی اس کی مذہبی و قومی شناخت پر ایوانوں پر بیٹھے نمائندے کے چننے کا حق حاصل ہو۔ پچھلی ایک دہائی سے میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہ آگاہی مہم شروع کی ہوئی ہے کہ دوہرے ووٹ کے بارے میں حقائق وشواہد پر مبنی دلائل کو 75 سالہ وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے اس سیاسی المیہ کے متاثرین و ذمہ دارین تک پہنچایا جائے اس کے باوجود چند لوگ اس طرز انتخاب کی مخالفت کرتے ہیں۔ جس کے لئے وہ ایسی ایسی بچکانہ، غیر منطقی ،غیر سیاسی دلیلیں گھڑتے ہیں اور وہ یہ دلیلیں بغیر پڑھے، تحقیق کئے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے بغیر دیتے ہیں۔ صاف سمجھ آرہا ہوتا ہے کہ یہ ردعمل کسی سیاسی نظریات یا کمیونٹی کے مفاد میں نہیں بلکہ شناختی بحران میں مبتلا ہونے کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ مفادات والے اکثر خاموش رہتے ہیں کہ کہیں ننگے نہ ہو جائیں جبکہ شناختی بحران کے مارے ان بھولے بادشاہوں کو اس بات کا ذرا بھی ادارک نہیں کہ وہ اپنے اس انفرادی شناختی بحران کی بدولت ملک وقوم اور اپنی کمیونٹی کا کتنا بڑا اجتماعی نقصان کرتے ہیں۔اس سارے عمل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس نظام کے حامی بھی اور طرح کے شناختی بحران میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کھل کر اس آگاہی مہم میں حصہ بھی نہیں لیتے کچھ بیچارے تو اس انتخابی نظام کو پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے بہتر جان کر اس پر سرمایہ اور توانائی بھی خرچ کر رہے ہیں لیکن مضحکہ خیز صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اسے اپنی مہم کے دوران دوہرے ووٹ کی بجائے کوئی لمبا چوڑا جملہ لکھ کر اس کی وضاحت کرتے ہیں اور کہیں کسی یوٹیوب چینل پر اپنا نقظۂ نظر بیان کرتے ہوئے بھی کوشش کرتے ہیں (کیونکہ مین اسٹریم میڈیا نے تو اقلیتوں کو میڈیا پر صرف بڑے سانحات پر ہی زیر بحث لانا ہوتا ہے) کہ کہیں لفظ دوہرا ووٹ منہ سے نہ نکل جائے ایسے بیچاروں کی کوشش صرفِ یہ ہوتی ہے کہ کہیں کسی کو اس مہم کا اصل ماحذ نہ پتہ لگ جائے دوہرے ووٹ کے حامیوں اور مخالفیں مبینہ سیاسی راہنماؤں و ورکروں کو اس نظام سے متعلق حقائق وشواہد اور دلیلوں کو نہ سمجھنے کی ایک انتہائی سر پیٹنے والی صورت حال یہ ہے کہ ایک ایم این اے عامر جیوا خلوصِ سے دوہرے ووٹ کی حمایت میں قومی اسمبلی کے فلور پر کشمیریوں کے ووٹ کی مثال دیتا ہے اور ایک دوسرا خود ساختہ سیاسی کارکن کہتا ہے۔ ‘‘ہم کوئی مہاجرین ہیں جنہیں دوہرا ووٹ دیا جائے’’۔ جبکہ اس مطالبے کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ 75 سالہ اقلیتوں پر تھوپے گئے انتخابی نظاموں کے تجربات سے سامنے آنے والی خوبیوں خامیوں اور پاکستانی معاشرے کے معروضی،سیاسی وسماجی حالات کی بنیاد پر تیار کیا گیا مطالبہ ہے۔ اس لاعلمی کے باوجود وہ ایم این اے قابل تحسین ہے۔ ورنہ 38خواتین حضرات کی اکثریت حامی ہونے کے باوجود اس کے موضوع پر بات نہیں کرتے کہ کہیں جس کے ایک اشارے سے میں سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے ہوں اس کی طبع نازک پر یہ مطالبہ گراں نہ گزر جائے۔ حامیان دوہرے ووٹ کی شناختی بحران سے نکلنے میں کوشاں ایک اور قسم ہے جو پڑھ سمجھ کر سلیقے سے بیان کرنے پر عبور حاصل کرنے کی بجائے اس چکر میں اپنی توانائیوں کو ضائع کرتے ہیں کہ یہ ثابت کر سکیں کہ جب سکندر اعظم برصغیر میں آیا تو ان کے اجداد نے ان کے سامنے دوہرے ووٹ کا مطالبہ رکھا تھا چلو مان لیا ایسا ہی ہوا ہوگا تب بھی آپ کو اس مطالبے کی روح کو سمجھ کر بیان کرنے میں ملکہ تو حاصل کرنا چاہیے ناکہ اپنی توانائیوں کو یہ ثابت کرنے میں کہ یہ لفظ میرے اجداد نے ایجاد کیا تھا۔ ان میں سے ایک گروہ اسی بحرانی کیفیت میں یہ کہتا ہے کہ ہم نے فلاں لیڈر کی قیادت میں فلاں وقت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیڈر کے ایک سچے کھرے سادہ سیاست کا ادارک رکھنے والے مشیر نے مجھے خود بتایا کہ وہ لیڈر ہمیں کہا کرتا تھا کوئی دلیلیں ڈھونڈوں دوہرے ووٹ کی پھر مشیر نے بتایا ایک دن میں نے کشمیر کے دوہرے ووٹ کی دلیل انہیں دیں۔ اس سے ان کی اس مقصد کے لئے جدو جہد اور سیاسی فہم وفراست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مختصر اس فارمولے کے حامی اسے دلیل سے ذمہ دارین ومتاثرین تک پہنچانے کی بجائے زیادہ توانائی وقت اس بات پر لگا دیتے ہیں کہ اس مطالبے نظریئے کے بانی ہم نہیں بھی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن تحریک شناخت والے تو نہیں ہیں۔ جبکہ تحریک شناخت کے رضا کار برملا اس بات اظہار کرتے ہیں۔
سیف انداز بیان رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں نے اس بات کو کتابچے کے شروع میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں یہ لفظ سب سے پہلے شائد امبیڈکر نے استعمال کیا ہندوستانی آئین کا یہ تخلیق کار سماجی وسیاسی مدبر اسے کروڑوں اچھوتوں، شودرں، دلتوں اور شیڈول کاسٹ اورمعاشرے کے دیگر پسے ہوئے طبقات کے معاشرے میں اپنی شناخت کے فخر کے ساتھ ضم ہوکر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اسی نظام کو بہتر سمجھتا تھا لیکن اس وقت کے معروضی حالات کے مطابق پھر اسے اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
اسی طرح کے شناختی بحران میں مبتلا سیاسی ورکروں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ جو اس نظام کو سمجھ کر اپنی پارٹی میں اپنے بڑوں سے اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ یا شفاف اور انصاف پر مبنی نظام کا مطالبہ کرنے کو تو گستاخی سمجھتی ہے۔ لیکن اگر تحریک شناخت کو کوئی رضاکار انھیں دلیلوں سے قائل کر لے تو وہ اس ساری جدوجہد و عرق ریزی کا کریڈٹ بینظیر بھٹو کو دینے کے درپے ہو جاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو دوہرا ووٹ کرنے ہی والی تھی کہ حامد ناصر چٹھہ نے اسے منع کردیاجبکہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ اپنے والد کا دیا ہوا موجودہ نظام ہی بحال کردیتی۔جو صرفِ مخلوط اور جداگانہ سے قدرے بہتر ہے۔ یہ بھی جنرل مشرف نے اقلیتوں پر احسان کیا اور اسے دوبارہ بحال کیا۔ جب کہ یہ موجودہ انتحابی نظام بھی مسیحیو نے شہداء 30 اگست 1972،کے خون کے عوض 21نومبر 1975کو ہونے والی آئینی ترمیم کے زریعے حاصل کیا تھا۔ وہ تو دو دفعہ سرکار میں آنے کے باوجود موجودہ لولی لنگڑی دوہری نمائندگی والی آئینی شق بھی بحال نہ کر پائی۔جس طرح تحریک شناخت نے دس سال مسلسل عرق ریزی سے دوہرے ووٹ کا یہ مطالبہ و لالحہ عمل پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کی سیاسی ،سماجی ومعاشرتی ضرورتوں کے مطابق تیار کیا ہے۔ ایسا کوئی ثبوت تو برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت اور المیہ ہے کہ،انکی کابینہ میں ایک دففہ مسیحی وزیر بھی تشریف فرما تھے۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے،کہ یہ وزیر ،قابل احترام جے سالک صاحب تھے جنہوں نے میری عمر کی اس نسل کو الیکشن مہم کے دوران بتایا کہ جداگانہ ووٹ اقلیتوں کے لئے کتنا زہر قاتل ہے۔اور یقیناً  یہ ایک سماجی معاشرتی اور سیاسی لعنت تھی۔ لیکن کابینہ میں یا تو کوئی متبادل انکے پاس تھا ہی نہیں؟ یا پھر پتہ نہیں کیوں وہ چپ سادھے رہے۔؟  2022 میں اکمل بھٹی فیصل آباد سے مجھے ملنے آئے، وہ دوہرے ووٹ کی آگاہی مہم میں کھلے دل دماغ سے شامل ہیں ۔انھوں نے مجھے بتایا کہ” ہم دوہرے ووٹ کی لابنگ کے لئے پیپلز پارٹی کے سعید غنی سے ملے انھیں اپنا موقف بتایا تو وہ ہم سے بحث کرتے رہے ،کہ اقلیتوں کے لئے دوہرا ووٹ نہیں ہوسکتا بے شک آپ کوشش کرتے رہیں ۔
اس سب کے باوجود بھی اگر ایسی کوئی بات ہوئی بھی ہو گی تو وہ موجودہ سلکیشن والی دوہری نمائندگی کی بحالی کی ہوئی ہو گی ۔یہ بھی ایک مسلہ ہے ،کہ ہمارے سیاسی ورکر دوہرے ووٹ اور موجودہ سلیکشن والی دوہری نمائندگی میں فرق نہیں کر پاتے۔۔یہ ایک المیہ ہے۔ تاریخ کے جبر اور ہزاروں سال سے ظلم و ستم سہنے اورغلامی کی زندگی گزارنے سے یہ بھی ایک ذہنی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، کہ ہم میں سے کیسے کوئی اچھا سوچ سکتا ہے۔؟ جبکہ بھٹو، ضیا، نواز شریف، بینظیر اور عمران خان نے ان تقریباً90لاکھ خاک نشینوں کے لئے اور انکی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے کب اتنی سنجیدگی اور لگن سے سوچا ہے؟ یہ سوال ایسے سیاسی ورکروں سے ضرور کرنا چاہیے۔
اس شناختی بحران کا شکار کچھ آئین و سیاسیات کے علم کے سماجیات سے تعلق سے نابلد اسے غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بنیادی فلسفے کو جانے بغیر کے انسانوں کی سہولت اور معاشروں کو متوازن و خوبصورت بنانے کیلئے آئین بنائے جاتے ہیں اور ضروریات کو پرکھ کر ان میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ کیونکہ انسانوں کی تخلیق آئین کی ضروریات کے لئے نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ انسانوں کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے آئین تخلیق کئے جاتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یونان سے پھوٹنے والے لفظ جمہوریت و آئین کا ارتقائی سفر وہی کہیں میگنا کارٹا جیسی منزلوں پر ہی رک چکا ہوتا۔ جبکہ ہم آئینی ترمیم کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ اس کے لئے کسی ضیاء یا مشرف سے التجاء نہیں کر رہے ہیں۔مسحیو میں سماجی خدمت کو بطور صنعت اور روزگار اپنانے کے ساتھ شناختی بحران کے اس المیے کا ایک پہلو یہ بھی ہے،کہ ضیاء الحق کے جداگانہ انتخابات کے نفاذ کے نتیجے میں پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے عملی طور پر معاشرتی اچھوت اور سیاسی شودر بننے کے بعد جن قوتوں مثلآ چرچ کے ذیلی ادروں ،غیر سرکاری تنظیموں ، روشن خیال اکثریتی پاکستانی شہریوں نے دھرتی کے بچوں کی اس لعنت سے جان چھڑائی ہے۔۔وہ یقیناً پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کے محسن ہیں۔ اور جیسے جیسے مسیحیو کا سیاسی شعور بڑھے گا وہ بھی ان کی عزت و تکریم کریں گے۔ لیکن ا?ج وہ لوگ بھی اپنے روزگار کی مجبوریوں ،کی بدولت بین الاقوامی اداروں کے کہنے پر اس معاشرے کے معروضی حالات کو جانتے بوجھتے زمینی حقائق و حالات سے متضاد کسی نئے تجربے کا پروپیگنڈہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے کئی بیچارے تووہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ضیاء الحق والے مسخ شدہ جداگانہ طریقہ انتخاب سے اس ملک کی مذہبی اقلیتوں کی جان چھڑانے کی عملی جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ان کے موجودہ پیش کردہ فارمولے پر پچھلے صفحات میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔
ان میں سے کچھ اپنی اس شناختی بحران کی بیماری کو چھپانے کے لئے بائیں بازو کے خیالات کو ڈھال بنا کر دوہرے ووٹ کی رعایت لینے کو برا کہتے ہیں۔ جبکہ ان کے قول و فعل کے تضاد کا یہ عالم ہے، کہ وہ بائیں بازو کے خیالات کی ترویج کے لئے گرجے کی ذیلی تنظیموں سے دنیا بھر سے وسائل مانگتے پھرتے ہیں۔
امبیڈکر جیسے عظیم لیڈر جو پہلے شیڈول کاسٹ کے لئے ہندو جاتی سے علیحدہ دوہرے ووٹ پر بضد تھے اور بعد میں ہندو جاتی کے ساتھ دلتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے کوٹے پر کیسے مانے اس کے لئے اس وقت کے حالات واقعات کو بہت عرق ریزی سے کھنگالنے کے ساتھ ہندوستان کی آبادی میں شیڈول کاسٹ و دیگر اقلیتوں کے متحرکات کو جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعد میں آئین بناتے ہوئے ہندوستان کے آئین کا یہ بانی پھر نسبت تناسب پر کتنی بڑی آئینی رعایتوں کے عوض یا کن حالات کا ادارک کرکے تیار ہوا یہ پورا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے اور عرق ریزی اور مشقت کا متقاضی ہے جس کے لئے مقصد سے لگن،خلوص اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا مختصر احوال یہ ہے۔
حکومت برطانیہ نے برصغیر میں انتخابی سیاست متعارف کروانے کے بعد انڈین کونسلز ایکٹ 1909جسے مورلی منٹو اصلاحات بھی کہا جاتاہے۔۔ میں ہی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے علاؤہ جنرل نشستوں پر انتحابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق بھی متعارف کروایا تھا .جو یقیناً دوہرے ووٹ کا ہی حق تھا.کیونکہ اس میں مخصوص نشستوں پر انتخابات کے ساتھ اقلیت قرار دیئے گئے مذہبی گروہوں کو جرنل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور انتحاب لڑنے کا حق تھا۔۔۔جس میں بعد میں 1930میں دلتوں کو بھی پسے ہوئے طبقات کے نام سے ایک اقلیتی گروہ قرار دیا گیا۔۔جس کے لئے برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈونلڈ نے برصغیر کی 11مذہبی اقلیتوں کے لئے کمیونل ایوارڈ کے سے انتحابی نظام متعارف کروایا ،لیکن گاندھی جی کی اس نظام کے خلاف بھوک ہڑتال کے نتیجے میں ڈاکٹر بھیم ،راؤ ،رام، امبیڈکر نے اپنے ساتھیوں کے کہنے پر پونا پیکٹ کرکے کے اپنے لوگوں کے لئے ہندؤ دھرم کے اندر رہتے ہوئے کمیونیل ایوارڈ سے کہیں زیادہ نشستیں مخصوص کروا لی۔ اس تاریخی واققہ کے بارے میں کئی کتب و آرٹیکل میں یوں لکھا گیا ہے۔یقینا یہ 1930 ہی کا زمانہ تھا۔جب اقلیتوں کے لئے خصوصاً سماج و معاشرے کے پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے طبقات کے لئے جداگانہ مذہبی شناخت کے ساتھ جرنل نشستوں کے لئے بھی انتخابات کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اسی پونا پیکٹ کے اثرات گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935پر پڑے۔جس میں مسلمانوں، سکھوں ، مسیحو ،ودیگر اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا انتحابی نظام معتارف کروایا گیا۔ جو صرف جداگانہ طریقہ انتحاب کے نام سے مشہور ہوا۔۔۔جس کے لئے امبیڈکر ہمیشہ یہ کہتے رہے۔۔”کمیونیل ایوارڈ میں دیا گیا ہمارا دوسرا ووٹ ہمارا بہت بڑا سیاسی ہتھیار ہوتا جو ماضی کی ناقابل تلافی غلطیوں کا ازالہ کرتا۔۔”
انڈین کونسلز ایکٹ 1909، المعروف مورلی منٹو اصلاحات ،پونا پیکٹ ،کمیونل ایوارڈ کے پس منظر اور ڈاکٹر بھیم راؤ رام امبیڈکر جی کے پونا پیکٹ پر پچھتاوے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ دلتوں کے لئے مذہبی شناخت کیلئے مخصوص جداگانہ نشستوں کے ساتھ جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا تھا۔۔اس کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ضیا الحق نے اقلیتی زعماء-04 خصوصاً مسیحو کے کہنے پر جو انتحابی نظام ان پر تھوپا۔وہ اقلیتوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لئے حکومت برطانیہ کے متعارف کروائے گئے کمیونل ایوارڈ/دوہرے ووٹ کے ایک حصے کی مسخ شدہ شکل تھی۔جس میں ضیا الحق کے ماہرین نے مذہبی شناخت پر الیکشن لڑنے کا حق دے کر اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر انتحابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق سلب کرلیا تھا۔۔اس نظام کے وضع ہونے کا سب سے شرم ناک پہلو یہ تھا کہ ہمارے آس وقت کے سیاسی و سماجی اکابرین بھی آج جیسے ہی تھے۔جو اجتماعی مفادات کی حفاظت کے لئے درکار فہم فراست و خلوصِ سے عاری تھے۔ ان میں سے اکثر جو میرے لئے انتحائی قابل احترام ہیں۔لیکن انھیں آج بھی اگر کہا جائے کہ جناب اس مسلئے پر بات کرنے سے پہلے کچھہ پڑھ کر اس مسلئے کو سمجھ لو تو وہ بڑے تفاخر سے کہتے ہیں “پڑھنے کا ہمارے پاس وقت نہیں”شائد اسی لئے وہ جداگانہ انتحاہی نظام کی بغیرِ کوئی متبادل دئے بغیرِ مخالفت بھی کرتے رہے۔ اور پانچ بار اس نظام کے تحت الیکشن بھی لڑتے رہے۔ کمال یہ ہے کہ ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے بھی نہ 21 نومبر 1975 کو آئینی ترمیم کروانے والیمسیحو نے، نہ کبھی 1985سے لے کر 1997 تک پانچ بار الیکشن میں حصہ لینے والے ایم این ایز ،ایم پی ایز نے نہ این جی اوز والوں نے ان تاریخی حقائق کی طرف توجہ دی۔۔ مجعوعی طور پر 1970کے “بالغ حق رائے دہی والے”کے بعد سے آج 2023 تک 53 سال میں کسی کی نظر ان حقائق پر نظر ہی نہ پڑی۔۔انتحائی ندامت کی بات یہ ہے۔۔ان سیکنڑوں خواتین وحضرات میں سے خاصے پڑھے لکھے، اور کئی تو وکلاء-04 بھی رہے ہیں۔۔ ان سارے حقائق کے آشکار ہونے کے بعد تو آج ستمبر 2023 کو یہ سطریں لکھے جانے تک۔۔جو بیچارے اس تاریخی غلط العام کی بنیاد پر ضیاء-04 الحق کے دیے گئے مسخ شدہ جداگانہ انتحابی نظام کو ہی برطانوی جداگانہ اقلیتی انتحابی نظام جو دراصل دوہرے ووٹ والا انتحابی نظام تھا سمجھیں بٹھیے ہیں۔۔انکا کوئی قصور بھی نہیں اور وہ بہت ہی سادہ لوح اور معصوم ہیں۔۔ ہاں اگر ان میں سے کچھ یہ حقائق جاننے کے بعد پھر بھی اپنے مطالبے پر ڈٹے رہتے ہیں۔۔ پھر نہ تو وہ معصوموں کی فہرست میں ہونگے نہ سادہ لوحوں کی۔
اس فارمولے کو تیار کرتے ہوئے ان سارے حقیقی شواہد اور برصغیر سماجی رویوں،زمینی حقائق،معروضی حالات آبادی کے متحرکات کو ملحوظ خاطر رکھا گیاہے۔ اس لئے سنی سنائی باتوں سے ایسے معاملات کی سمجھ نہیں آسکتی۔لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ متاثرین و ذمدارین عرق ریزی سے تیار کردہ اس مطالبے کو سمجھنے کے لئے 30 مِنٹ دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ دلچسپ پہلو ہے مخالفیں اسی تحقیق سے حاصل شدہ اعدادوشمار اور معلومات سے استفادہ کرتے ہیں اور اپنے جھوٹے سچے و زہریلے دلائل گھڑتے ہیں۔ بلکہ چند دن پہلے ہی ایک این جی او والے ایک صاحب کا فون آیا کہ‘‘ آپ کی کس کتاب میں اس موضوع پر اعداد و شمار ہیں میں دوہرے ووٹ کے خلاف ایک کتابچہ لکھ رہا ہوں’’۔
وہ تو کھرے اور سچے انسان تھے ورنہ پتہ نہیں کاریگر حضرات کیسے کیسے ان اعداد و شمار کو اپنے کن کن مقاصد کے لئے استمال کرتے ہونگے۔ خیر میں شفافیت کو معاشرے کے لئے آکسیجن سمجھتا ہوں اور یہ جس معاشرے میں جتنی زیادہ ہوگی۔۔فکری آلودگی اتنی ہی کم ہوگی۔پاکستانی مسیحیو کی اپنے معاشرے سے بیگانگی کے مرض سے پیدا ہونے والی سماجی،تعلمیی، معاشی، تہذیبی، معاشرتی محرومیوں،کمزریوں اورپستیوں کی وجوہات کھوجنے کی جستجو میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ کے جبر کی بدولت پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں میں سے سرفہرست یہ شناختی بحران ہی ہے۔جو اس سر زمین پر بسنے والے مسیحیو اور شیڈول کاسٹ ہندوؤں کو ان اجتماعی پستیوں سے نہیں نکال پارہا ہے ۔ اس معاشرے کی دیگر سماجی برائیوں کے خلاف بہادری سے لڑتے سیاسی ، سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کو یہ بات سمجھ لینے چاہیے کہ اس نظام کے مطالبے سے پہلے کی گئی عرق ریزی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس نظام کا وضع ہونا پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے دیگر 80فیصد مسائل کے حل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس سارے تجربات و مشاہدات کا یہاں بیان کرنے کا مقصدِ یہ ہے کہ متاثرین و ذمہ دارین کو اس بات کا احساس دلایا جاسکے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں و ملک وقوم کے مفاد میں یہ فارمولا بڑی محنت سے مسلسل عرق ریزی سے تیار کیا گیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ نئے اعداد و شمار شعیب سڈل کمیشن کی ہدایات پر الیکشن کمیشن ودیگر اداروں سے جہد مسلسل سے حاصل ہونے کے بعد اس کتابچے کو مہینوں کی محنت سے دوبارہ لکھنا پڑا ہے اسی بحرانی کیفیت کی چند اور مثالیں ؟سابقہ بزرگ سیاستدان و ایم این اے جداگانہ کو چار پانچ بار بھگتنے والے عمانوئیل ظفر صاحب کھل کر 2013 سے دوہرے ووٹ کی اس آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
طارق سی قیصر جداگانہ کے ذریعے کئی بار ایم این اے بننے والے نے 2017ء میں دوہرے ووٹ کا مطالبہ زبانی کلامی پیش کیا۔ جے سالک جداگانہ کے ذریعے چار بار ایم این اے بننے والے وہ واحد لیڈر تھے۔ جنہوں نے سب سے پہلے جداگانہ کی برائیوں کو اقلیتوں کے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کیا لیکن آج وہ بھی ان کی اس وقت کی بتائی ہوئی قباحتوں کی بنیاد پر بنائے گئے متبادل کے ساتھ کھل کھلا کر جدوجہد نہیں کر رہے۔ مسیحیو کا کچھ احوال میں نے اوپر بیان کردیا ہندوں میں رمیش کمار نے 2013 میں بل پیش کیا جو آج تک ڈیفر پڑا ہے یقینا اس میں درکار عرق ریزی اور مقاصد کے حصول کے لئے درکار لگن و جنون کی کمی ہو گی ورنہ ریاستی و سیاسی اشرافیہ کو اس بے ضرر آئینی ترمیم میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔رمیش کمار کے بل کے علاوہ ہندو جاتی و شیڈول کاسٹ پاکستانی شہری افراد اور ان کی سماجی وسیاسی تنظیمیں اور شخصیات بظاہر98 فیصد اس نظام کی حامی ہونے کے باوجود اسی شناختی بحرانی کیفیت کی وجہ سے اس مہم میں جی جان سے حصہ نہیں لے رہے۔ حالانکہ حامی سب ہیں لیکن کھل کھلا کر صرف چند شیڈول کاسٹ لیڈر ہی اس آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔اس شناختی بحران کے سیاسی ورکروں کی شعوری سطح پر یہ اثرات مرتب ہوچکے ہیں کہ کئی جماعتوں کے کچھ عہدے دار اس نظام کے حق میں کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں کچھہ کوئی اور نکتۂ نظر بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب مخلوط کی خامیوں سے تنگ آکر جداگانہ ڈکٹیٹر سے لیا تو کوئی ہوم ورک نہیں تھا پھر جب جداگانہ اور مخلوط دونوں کی خامیوں سے تنگ آکر موجودہ نظام کی ترمیم پہلی بار 1975میں کروا کر شانت ہوگئے اس وقت اس کی خامیاں سامنے اس لئے نہ آسکی کہ 77 کے انتخابات مانے ہی نہیں گئے مارشل لاء لگ گیا۔ پھر جداگانہ 1999تک بھگتنے کے بعد جب دوبارہ پھر 2001 میں 1977والا نظام بحال ہوا تو تو اس کے ساتھ جڑی قباحتوں کا ادارک نا ہوا اب پھر این جی اوز نے بغیر کسی ہوم ورک اور معروضی حالات اور پچھلے تین نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے سامنے آنے کے بعد ایک چوتھے نسبت تناسب والے نظام کی بات شروع کردی ہے۔
جداگانہ کے حامیوں کا یہ رویہ بہت ہی حیران کن ہے کہ جب دہرے ووٹ کے فارمولے میں یہ سب سے پہلے لکھا جاتا ہے۔دوسرے مذہبی شناخت والے ووٹ کے لیے بنیادی فارمولا وہ ہی ہوگا۔جو 1985سے 1997تک پانچ بار آزمایا جا چکا ہے۔ پھر انہیں دوسرے ووٹ پر کیا اعتراض ہے اگر ریاست، حکومت یا دوسرے شہری اس امتیازی سلوک پر زور دیں تو سمجھ آتی ہے لیکن کوئی اپنے لئے خود امتیازی سلوک اور آئینی ترمیم کا مطالبہ کرے۔ تویہ بہت ہی پریشان کن رویہ ہے جبکہ اس نظام سے جڑے مثبت پہلووں کو جوں کا توں اس مطالبے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بظاہر یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ ایک آدھ کے ذاتی مفاد یا اس کے دیگر حواریوں کی معصومیت و شناختی بحران کے علاوہ اس رویے کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہے یا اگر ہے تو وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس سے معاشرے کا ہر سیاسی و سماجی شعور رکھنے والا شہری سمجھتا ہے کہ معاشرے میں تفریق پیدا کرنا کن قوتوں کا مطمع نظر ہے اور وہ ملک، قوم اور اقلیتوں کے لیے کتنے خوفناک اثرات کا منبع ثابت ہو سکتا ہے۔
(اس مطالبے میں چند لوگوں کی بدنیتی اور زیادہ تر لوگوں کی لاعلمی اور اس لاعلمی کے پیچھے وہ لوگ زیادہ ہیں جو اپنے آپ کو سیاسی کہتے ہیں اور ان کے ہاں سیاسی ہونے کا معیار یہ ہے کہ کسی بھی حلقے سے 20سے 25ہزار روپے خرچ کرکے بطور امیدوار کاغذات داخل کر دیں اور پھر چند ووٹ لینے کے بعد اعلان کر دیں کہ میں سیاسی ہوں ۔ یقینا یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن اپنے اس جمہوری حق کی بنیاد پرتقریباً90لاکھ غیر مسلموں کے لئے انتہائی بے دلیل ،غیر جمہوری، بنیادی شہری، انسانی و سیاسی حقوق کے متصادم انتخابی نظام کا مطالبہ کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں۔ ان چند سیاسیوں میں سے ہر کوئی یہ بھی سمجھتا ہے کہ 38سیٹوں میں سے ہر سیٹ کا حقدار دوسرے غیر مسلم نمائندوں سے زیادہ ہے)
تحریک شناخت نے تقریبا دہائی سے مسلسل تحقیق کے ساتھ آگاہی مہم بھی شروع کی ہوئی ہے۔ اپ صرفِ آدھا گھنٹہ دے کر اسے پڑھ لیں۔ ایسی فکری انارکی و شناختی بحرانی کیفیت میں جو لوگ خلوصِ سے اس مہم میں حصہّ لے کر یہ ماضی کے نظاموں کی خوبیوں خامیوں کے بغور مطالعے اور حقائق کی بنیاد پر تیار کردہ فارمولا ذمہ دارین و متاثرین تک پہنچا رہے ہیں اور سمجھ کر لوگوں کو قائل بھی کررہے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ فرداً فرداً ان کے نام یہاں لکھنا ممکن نہیں کیوں کہ سیاسی و فکری قحط الرجالی کے اس دور میں بھی اقلیتوں کے ان حقیقی محسنوں کی تعداد دنیا بھر میں ہزاروں میں ہے۔
وطن عزیز کے غیر مسلم پاکستانی شہریوں آپ کو یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ سب سے پہلے اس خط کتابچے کو بغور پڑھیں اور اس کے بعد سمجھیں پھراگر آپ اس خیال سے متفق ہیں اور اس انتخابی نظام کیلئے کوشش کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس میں اس طرح حصہ ڈال سکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں بس ہم غیر مسلم شہری اپنے لوگوں کو یہ بات پوری طرح سمجھا دیں، کہ ہمارے ساتھ 75 سال میں ہوا کیا ہے بس اس کی ہمیں سمجھ ہو کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اس کے لئے ماضی اور حال کا جاننا ضروری ہے کیونکہ ماضی اور حال جانے بغیر مستقبل کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا بقول محمود شام
خود بخود ہو گی فہم مستقبل
ماضی و حال کو سمجھ پہلے
اس لئے ہمیں پہلے ہر خاص و عام غیر مسلم پاکستانی شہری تک ماضی و حال کے طرز انتخابات کی خوبیاں ، خامیاں پہنچانی ہیں تاکہ دوہرے ووٹ کے اس فارمولے کے بارے میں جان سکیں۔ کیونکہ باخبر شہری ہی بااختیار شہری ہو سکتا ہے پھر مسلمان سیاسی اشرافیہ کو قائل کرنا کوئی مشکل نہیں۔اس لئے عام غیر مسلم شہری کوباخبر اور بااختیار بنانے کی اس مہم کیلئے اس خط کو اپنے گر جا گھروں، گردواروں، مندروں یا جہاں بھی آپ کے مذہبی اجتماع ہوتے ہیں وہاں لوگوں میں تقسیم کریں اور ہماری ہندو برادری چونکہ زیادہ اندرون سندھ میں ہے تو ان کے لئے سندھی ترجمہ کروادیا گیا ہے اوراپنے لوگوں کی فکری، شعوری، سماجی اور خاص کر سیاسی آگاہی کیلئے لوگوں میں یہ ترجمہ پھیلائیں کیونکہ اس طرح کی فکری آگاہی سے ہی انسان سماجی معاشرتی، معاشی، تعلیمی تہذیبی ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔پھر اس کے بعدہماری شناخت پر سینیٹ، اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو قائل کریں۔ کہ وہ بھی مشترکہ طور پر اس انتخابی نظام کے لئے آواز اٹھائیں جس میں غیر مسلم پاکستانیوں کی قومی شناخت یعنی پاکستانی شناخت بھی قائم رہے اور ہر کسی کی مذہبی شناخت اور مفادات کا بھی ایوانوں میں تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
تحریک شناخت معاشرتی آگاہی اور اجتماعی خود شناسی کی ایک فکری تحریک ہے۔ جس کا نہ کوئی انتخابی، سیاسی، یا مذہبی ایجنڈا ہے، نہ ہی یہ کوئی این جی او ہے۔اس فکری تحریک کا کوئی انتظامی ڈھانچہ بھی نہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے اس کے رضا کار اس فکر کو اپنی سماجی، معاشرتی و معاشی حیثیت کے مطابق پھیلانے میں اس یقین سے حصہ لیتے ہیں کہ یہ فکری تحریک پاکستان کے بالعموم پسے طبقات اور بالخصوص مسیحیو کے لئے پاکستانی معاشرے میں بالترتیب ‘‘فکری، شعوری،تعلیمی،معاشی،سماجی، معاشرتی،علمی ،تہذیبی،مذہیی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرے گی’’۔
اس تحریک کی بنیاد اس خیال پر ہے،کہ ‘‘کسی بھی ملک قوم ومعاشرے میں کوئی ایسی کمیونٹی/اقلیت جو کسی بھی اعتبار سے مثلاً مذہب ،رنگ ،نسل، مسلک، پیشے، جنس اورزبان کے لحاظ سے اقلیت میں ہواور اس وجہ سے اس گروہ کو امیتازی سماجی رویوں یا دیگر ایسے تعصبات کا سامنا ہو۔ایسا گروہ اگر ردعمل میں معاشرے سے بیگانہ ہو کر معاشرے سے کٹ جائے۔تو ایسے انسانی گروہ اپنے آپ پر ایسے معاشروں میں انفرادی واجتماعی ہر طرح کی ترقی کے ہزاروں راستے خود ہی بند کرلیتے ہیں۔جسکا نتیجہ صدمے سے دائمی فرار کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہونے کا نکلتا ہے اور اگر فرار کی راہیں بھی دستیاب نہ ہوں تو معاشرتی بیگانگی کا یہ مرض انہیں گہری پستیوں میں لے جاتا ہے۔لہٰذا کسی بھی معاشرے میں اپنی ایسی شناخت جسکی بنیاد پر ان سے تعصب برتا جارہا ہو۔اسے فخر سے قائم ودائم رکھتے ہوئے معاشرے میں انضمام integration سے اپنی عزت دارانہ بقاء کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔’ ’
اسی صورت حال سے نبردآزما پاکسانی مسیحو کی معاشرتی بیگانگی کو کھوجنے اور اسکے سدباب کے حصول کے لئے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
یہ فکری تحریک جو نہ صرف پاکستانی مسیحیوں بلکہ غیرمسلم پاکستانیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل و خطرات اوردستیاب موقعوں ان کی توانائیوں، کمزوریوں کا حقیقت پسندانہ تخمینہ لگا کر ان کا تجزیہ طکمخ کر کے اس ملک کے غیرمسلم شہریوں کے لئے عزت سے جینے کے اسباب پیدا کرنے میں کوشاں ہے۔ہم شفافیت کو معاشرے کے لئے آکسیجن سمجھتے ہیں اور جس معاشرے میں جتنی شفافیت ہو گی وہ فکری آلودگی سے اتنا ہی پاک ہو گا، اس لئے اس سیاسی المیے کے متاثرین کو اس کتابچے کے مندرجات کو سمجھ کر اس کے ذمہ داروں یعنی اس ملک کی سیاسی و دانش ور اشرافیہ تک ضروری پہنچانے کی کوشش کریں۔
اس فکری تحریک میں کوئی عہدے دار نہیں ہر کوئی رضا کار ہے آپ بھی اس فکر کو پھیلانے میں اس کے رضا کار ہو سکتے ہیں۔ چاہے آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے آپ عام ورکر ہیں یا رہنما آپ کسی سماجی بھلائی کی تنظیم سے وابسطہ ہیں یا عام مسلم پاکستانی شہری ہیں ،جو ان غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی جان کر ا ن کی اپنی اپنی مذ ہبی شناخت کے تحفظ کے لئے ایوانوں میں ان کے نمائندے پہنچانے کے حق میں ہیں تو آپ اپنی وہ شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی اس فکری جدوجہد میں ہمارے ساتھی ہو سکتے ہیں حتی کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بہن بھائی بھی اس میں ضرور حصہ لیں۔ کیونکہ کل جب یہ انتخابی نظام نافذ العمل ہو گا تو آپ بھی یقنیا اس نظام کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیں گے، تو تب لوگ آپ کے بارے میں بقول محسن بھوپالی یہ نہ کہیں۔
نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ فکری بنیادوں پر استوار یہ مہم اپنے مقاصد ضرور حاصل کرے گی اس لئے اگر آپ سیاسی رہنما ہیں تو پھر تو ضرور اس مہم کا حصہ بنیں۔ اس لئے آئیں اس آگاہی مہم کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ غیر مسلم پاکستانیوں کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے بنیادی شہری و سیاسی حقوق کے لئے یہ انتخابی نظام وضع کروایا جا سکے۔
اعظم معراج
رضا کار ،تحریک شناخت پاکستان
11-09-2023

Advertisements
julia rana solicitors

نغمہ شناخت
اس دھرتی کے بچے ہو تم
صدیوں سے اس کے واسی بھی
آزادی کے سپاہی ہو تم
قائد کے ہمراہی بھی
وطن کے ہو سپاہی تم
قوم کے معمار بھی
قابل فخر قابل دید
محافظ ، غازی اور شہید
شہداء کے وارث ہو تم
ساتھی حیدران کے بھی
ھلال جرات کے استعارے
ہو جرات کے ستارے بھی
نشان بسالت کے ہو تم
ہو شان سبز و سفید کی
اے پاکستان کے مسیحیوں
جانو اور پہچانو تم
دھرتی سے نسبت کو بھی
اپنے اس ورثے کو تم
اپنی اس شان کو بھی
اپنی اس پہچان کو تم
اپنی اس شناخت کو بھی
اعظم معراج
29-08-2017

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply