نذرانہ یا صدقہ۔۔فرزانہ افضل

نذرانہ یا صدقہ۔۔فرزانہ افضل/   کچھ  سال پہلے تک میرا خیال تھا کہ دنیا میں دو چیزیں انمول ہیں، ایک حسن اور دوسرا فن، کیونکہ دونوں ہی بنیادی طور پر خداداد ہوتی ہیں۔ مگر “کالے رنگ نوں گورا کردی تے گورے نوں چن ورگا” والی تبت سنو کے بعد فیئر اینڈ لولی کی مارکیٹ پر ایک لمبے عرصے تک اجارہ داری کے بعد سائنس نے ایسی ترقی کی، کہ حسن کی حفاظت کیلئے نت نئی سکن کیئر، اور اب تو فلرز اور بوٹوکس حسین اور جوان بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور بھئی سکن ڈاکٹرز اور تھراپسٹس کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم بہت کچھ لکھ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔ اس ساری بات کا مقصد یہ تھا کہ اب حسن بھی خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک سائنس نے ایسی کوئی ایجاد نہیں کی کہ کوئی بھی انسان فطری طور پر صلاحیت نہ ہونے کے باوجود اچھا آرٹسٹ بن سکے۔ گوکہ پاکستان اور ہندوستان میں بہت سے نامور اداکاروں نے اپنی اولاد کو سلور اسکرین یا چھوٹی اسکرین یعنی ٹیلی ویژن پر متعارف کروایا مگر تمام تر محنت اور ٹریننگ کے باوجود بھی وہ اپنے والدین یا بڑے بھائی بہنوں جیسا مقام حاصل نہ کر سکے۔ لہذا فن ایک فطری صلاحیت ہے جو خدا کا عطا کردہ نہایت اعلیٰ  اور پاکیزہ تحفہ ہے جسے برس ہا برس کی مشق اور ریاضت کے ساتھ نکھارا جاتا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے لائیو کنسرٹس اور محفلوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ نامور گلوکاروں کی مقبولیت کے حساب سے چھوٹے اور بڑے لیول پر شو منعقد ہوتے ہیں۔ بڑی بلڈنگ مثلاً ایرینا وغیرہ میں تو ہزاروں کی تعداد میں تماشائی ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کی وجہ سے سٹیج پر پرفارم کرتے ہوئے آرٹسٹ تک رسائی ناممکن ہوتی ہے۔ مگر ایسا پروگرام جب کسی چھوٹے ہال میں مہمانوں کی کم تعداد کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کی اپنی ہی رونق اور لطف ہوتا ہے کیونکہ اسٹیج پر بیٹھے ہوۓ گلوکار یا فن کار کو آپ قریب سے دیکھ سکتے ہیں دنیا میں ہر ثقافت کے لوگ فنکاروں کو اپنے اپنے انداز سے سراہتے ہیں ہمارے ہاں تماشائی موسیقی اور گائیکی سن کر خوب جھوم اٹھتے ہیں اور خوشی اور جوش میں آرٹسٹ پر نوٹوں کی بارش کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک “مخصوص” زبان میں پنجابی لفظ “ویلیں” کی اصطلاح سے مشہور ہے۔ گوکہ ایک بہت شائستہ انداز میں اسے اردو زبان کے لفظ “نذرانہ” سے بھی جانا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں اس کو ٹپس Tips کہا جاتا ہے مگر حرف عام “ویل” ہی ہے۔

میرے محدود علم کے مطابق ویلیں دینے کے اس عمل کا ارتقاء “مجرا کلچر” سے ہوا ہے۔ ہم نے پرانی انڈین اور پاکستانی فلموں میں محفل رقص کے منظر میں نشے میں دھت تماشائیوں کو نوٹوں کی گڈی پر تھوک لگا کر ایک ایک کر کے رقاصہ پر اُڑاتے ہوئے دیکھا ہے حال ہی میں یکے بعد دیگرے چند میوزک کنسرٹس دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ افسوس کہ یہی رویہ ہر شو میں دکھائی دیا بلکہ ویلوں کے انداز میں مزید جدت پیدا کی گئی مداحوں کو ایک دوسرے کے سروں پر صدقہ کے انداز میں نوٹ وار کر فنکاروں کے آگے نوٹ اڑاتے ہوئے پایا گیا یقین مانیے  یہ سب حرکتیں دیکھ کر مجھے دِلی تکلیف اور بے حد شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس قسم کا جاہلانہ رویہ فنکاروں کی عزت اور شان کے سراسر منافی ہے۔ فن کا کوئی متبادل نہیں۔ وقتی طور پر فنکاروں کے فن اور گلوکاروں کی گائیکی سے محظوظ ہونا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا دل و جان سے احترام بھی کرنا ضروری ہے میں اس بات کی پوری طرح سے قائل اور بھرپور حمایت میں ہوں کہ فنکاروں کو عملی طور پر سراہا جانا چاہیے، شو کے ٹکٹ کے علاوہ اگر آپ کی جیب اجازت دیتی ہے تو اسٹیج تک ان کے پاس جائیں اور با ادب طریقے سے انہیں نذرانہ پیش کریں، خاموشی سے ان کے سامنے رکھیں اور سلام و آداب کر کے پلٹ لیں، دنیا دکھاوا مت کریں سروں پر وار وار کر نوٹ ان کے آگے مت پھینکیں۔ گلوکار اور فنکار بہت حساس ہوتے ہیں وہ اپنی ساری زندگی بے انتہا محنت اور ریاضت کر کے اس مقام تک پہنچتے ہیں کہ آپ کا دل بہلانے میں کامیاب ہوسکیں۔

فنکار کو آپ کی عزت اور ستائش کی ضرورت ہے آپ کے صدقے اور زکوٰۃ کی نہیں۔ ۔
فنکاروں کو نذرانہ دیں، صدقہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دامن بھی دریدہ ہے میرا ہاتھ بھی زخمی
شاخوں پہ گلابوں کے سوا اور بھی کچھ ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply