اسرائیل کو دو پہلوؤں سے دیکھو۔۔سعید چیمہ

کافی دنوں سے سائیں برکت نے ملاقات کا شر ف نہیں بخشا تھا،سائیں جی بھی عجب طبیعت کے مالک ہیں ملنے پہ آئیں تو لگاتار ہفتہ بھر ملاقات کا شرف بخشتے رہتے ہیں اور اگر طبیعت ملاقات پر آمادہ نہ ہو تو مہینوں غائب رہتے ہیں گویا کہ گمان غالب ہونے لگتا ہے کہ کسی گمنام گوشے میں راہی عدم نہ ہو گئے ہوں،سائیں جی سے اِس ناچیز کی  شناسائی کیسے ہوئی ہے، یہ پھر کبھی،گزشتہ صبح(جو کہ سائیں کا وقتِ ملاقات ہے) سائیں غریب خانے پر تشریف لائے،اب چونکہ یہ خاکسار گنے چنے معتقدوں میں شامل ہے اِس لیے اُن کی خدمت کو عین عبادت خیال کرتا ہے اور بدلے میں مجھے خصوصی نظرِ کرم کا مستحق گردانا جاتا ہے،موصوف نے سختی سے حکم دے رکھا ہے کہ روغنی و مقوی غذاؤں کا تکلف نہ کیا جائے کیونکہ وہ جسم میں غیر ضروری غدود کو بڑھا دیتی ہیں،لیکن چار عدد بریڈ،دو ہاف فرائی انڈے اور ایک گلاس دودھ سائیں جی کا پسندیدہ ناشتہ ہے،ناشتے کے بعد کچھ کیک رس اور چائے کا ایک بڑا کپ طلب کیا جاتا ہے اور یہ خاکسار مطالبے پر فوراً لبیک کہتا ہے۔۔

یہ خیال مت کیجیے کہ بغیر کسی لالچ کے یہ گناہگار اُن کی خدمت کرتا ہے بلکہ خدمت کی وجہ ہی لالچ ہے،اب لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ لالچ ہے کیا؟ سائیں برکت چونکہ وسیع العلم شخصیت ہیں،دنیا سے لیکر دین تک،دین سے لیکر سائنس تک،فزکس سے لیکر کیمسٹری تک گو کہ کوئی بھی موضوع لے لیں سائیں جی علم کا بحرالکاہل معلوم ہوں گے،مختصراً یہ کہ آپ آل اِن ون ہیں، لیکن علم کا یہ بحرالکاہل اپنے اندر کسی کو غوطہ زنی کی اجازت نہیں دیتا یہ خوش بختی صرف اِس خاکسار کے پاس ہے۔

سائیں جی  کی مدح سرائی اور فضیلتیں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے آپ اپنے ذہن میں اُن کا خاکہ بنا لیں جس میں اُن کی گفتگو کے بعد خودبخود رنگ بھر جائیں گے۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اور نہ کرنے کے حق میں یار لوگ دلائل کے انبار لگا رہے ہیں،آپ اِس معاملے میں کونسے گروہ کیساتھ دلائل کی مسند پر براجمان ہونگے؟ سائیں جی چائے کے آخری گھونٹ لے رہے تھے کہ خاکسار نے پہلا سوال پوچھا،سوال سن کر تھوڑی دیر کے لیے سائیں جی نے آنکھیں اٹھا کر طنزیہ مسکراہٹ سامنے والے پر ڈالی گویا کہ کہنا چاہتے ہوں کہ اِسی لیے تو خدمت کر رہا تھا کہ سوال پوچھ سکوں اور پھر چائے پُرلطف طریقے سے ختم ہونے لگی،”خزاں رسیدہ پیڑ کی ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے کوؤں کی طرح ہر کوئی کاں کاں کیے جا رہا ہے،معاملے کو سمجھے بغیر ہر کوئی منوں کے حساب سے دلائل دے رہا ہے،اسرائیل کے معاملے کو دو طرح سے سمجھنا ہو گا،اقتصادی اور اخلاقی پہلو سے،دیکھنا ہو گا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمیں کونسے اقتصادی فائدے ہونگے اور دوسرا پہلو اخلاقیات کا ہے کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں تو ہماری اخلاقی پوزیشن کیا ہو گی،عرصہ بیتا جب سے ملکوں کے تعلقات دو طرفہ مفادات پر استوار ہوتے ہیں مگر ہم ابھی بھی امت کے کنویں میں بیٹھے اپنی ٹر ٹر کیے جا رہیں ،دوبئی کے ولی عہد نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہی کہا گیا کہ یہ امت سے غداری ہے مگر محمد بن زید دورِ خاضر کے کوئی رجلِ عظیم تو نہ تھے جو اسرائیل کیخلاف کوہِ گراں کی طرح ڈٹ جاتے،یہ بندھن شادی ایسا تھا جس میں بالآخر دونوں نے بندھنا ہی تھا،تو دیکھتا رہ ابھی اور ممالک بھی اسرائیل کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونگے۔۔

“چاہے آسمان گر پڑے یا زمین پھٹ جائے لیکن ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے سائیں جی کو گفتگو کے دوران خاکسار نے ٹوکا،”تو کیا سمجھتا ہے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ہم خود کریں گے؟ جب ہر طرف سے سیلابی ریلے کی طرح پریشر آئے گا تو دھارے کی سمت میں بہنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا،ابھی تک اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو صرف اِس وجہ سے کہ ہماری اخلاقی پوزیشن کمزور ہوتی ہے اور پھر ہم ہندوستان کشمیر سے نکل جا ،کے نعرے نہ لگا سکتے،اگر اخلاقیات کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم کب کا اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہوتے اور دائیں بازو والے بھی یہ بات جانتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہمیں بہت سے اقتصادی فائدے ہونگے،اگر پاکستان بھی اسرائیل کی اقتدا میں باقی مسلمان ممالک کیساتھ صف میں کھڑا ہو جائے تو انگشتِ بدنداں نہ ہونا”۔آپ تو اِس معاملے میں نپی تلی رائے رکھتے ہیں،نیوز چینلز پہ آیا کریں لوگ آپ کو شوق سے سنیں گے اور اِس بہانے احساسِ کمتری کا شکاربیچارے اینکروں کو ریٹنگ بھی مل جائے گی،خاکسار نے سائیں جی کی مدح سرائی میں بارڈر کراس کیا تو تعریفی کلمات سننے کے بعد چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ سجائے سائیں جی گویا ہوئے کہ پوچھ اگلا سوال کیا ہے،

کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا،روشنیوں کا شہر کب بنے گا؟اب تو وزیرِاعظم نے کراچی کے لیے گیارہ سو ارب کے پیکج کا بھی اعلان کر دیا ہے،”چند دن پہلے وزیراعلی سندھ نے کہا تھا کہ کراچی کی رونقیں لوٹانے کے لیے ہمیں دس کھرب چاہیئں تو جواب میں شبلی بن احمد فراز نے کہا تھا کہ ہمارے پاس دس کھرب نہیں ہیں اگر ہوتے بھی تو نہ دیتےاور اب گیارہ سو ارب کا پیکج،اب سیاستدانوں کی باتوں پہ یقین نہیں آتا اور کراچی کی قسمت دیوار پہ ٹنگی ہوئی تصویر تو نہیں ہے جو آسانی سے بدلی جا سکے،کراچی کے مسائل کے حل کے لیے یکسوئی کیساتھ حکمتِ عملی بنانا ہو گی جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا” سائیں جی نے اپنا جواب ختم کرتے ہوئے ایک گلاس پانی طلب کیا۔کوئٹہ میں پولیس سارجنٹ کو گاڑی کی ٹکر سے راہی عدم کرنے والے سیاستدان کو عدالت نے ناکافی عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا ہے،آپ کے دل میں بھی تو درد کی ٹیسیں اٹھتی ہونگی؟پانی کا گلاس تھماتے ہوئے خاکسار نے سوال پوچھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“تجھے پتہ ہے شعیبؑ کی قوم پر فقط اس لیے عذاب آگیا تھا کہ وہ ناپ تول میں انصاف سے کام نہیں لیتے تھے،ہمارے نبیﷺ نے مخزومی عورت کا ہاتھ کٹوایا اور وہ کلمات کہے جو بے مثل تھے”اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو میں اُس کا ہاتھ بھی کٹوا دیتا،شکر کر رحمتِ عالمﷺ کی دعا کی بدولت اس امت پر سابقہ امتوں کیطرح عذاب نہیں آئے گا ورنہ اس سیاستدان کی بریت پر کیا عجب زمین پھٹ جاتی،سمندر ابل پڑتے،سورج آگ برسانے لگ جاتا،چاند بے نور ہو جاتا۔اِس دنیا میں فرعون اتنا کیوں اکڑتے ہیں جبکہ انجام بھی معلوم ہے کہ آخر میں سمندر کی بے رحم موجوں کے تھپیڑوں نے بے بس کر دینا ہے اور ذلت نے مقدر بن جانا ہے”جواب ختم کرتے ہی سائیں جی دروازے کی طرف لپکے،بتہیری آوازیں دے کے سائیں جی کو روکنا چاہا مگر وہ کہاں سننے والے تھے،اب دیکھئیے اگلی بار سائیں جی کب تشریف لاتے ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply