عجیب لوگ تھے۔۔۔ اللہ خاص کرم جاری رکھے/عدیل رضا عابدی

اللہ میرے مشرک اور بدعتی بزرگوں کو معاف کرے۔۔۔ امامِ صحافت وسعت اللہ خان کی ایک پرانی تحریر میری نظروں سے گزری، تحریر کیا تھی، 21 سال قبل کے میرے ماضی میں اٹھا کر پٹخنے کے لئے گویا ایک منجیق !

وسیع صحن میں آم کے درخت کے سائے میں سہ پہر 3 بجے لکڑی کی  چوکی پر خود کو بیٹھا ہوا پایا۔ “خالہ” جنہوں نے میری ماں کو اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا ، محلے کے سارے بچے ان سے قرآن پڑھے ہوئے تھے مجھے بھی انہی سے قرآن پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔ قرآن پڑھنے کی ” تمیز” آئی تو مع تجوید و قرات, قرآن کی تعلیم کے لئے اقبال صاحب کے پاس بیٹھا دیا گیا۔ موصوف محلے میں قائم مسجد عائشہ کے پیش امام تھے۔ گھر کے سامنے والا صابر بڑے بھائیوں کا دوست تھا۔ بغل والے گھر کے ایاز، فیصل اور فضل میرے دوست تھے۔ ہم کونے والے سبطین اور اس کے سامنے والے حسن کے ساتھ مل کر سرشام محلے میں ادھم مچائے رکھتے۔
کھیلتے، کھیلتے سراج الدین خالو کے گھر اکثر گھس جاتے یہاں پیٹ پوجا بلا آسرا ہوجاتی۔ سراج الدین خالو کے بچے میرے پھپھو اور چچا کے کلاس فیلو ہوا کرتے تھے۔ ان کے ہاں محرم کی 12ویں کو بننے والی حلیم کا سب کو انتظار رہتا۔

رجب کی 22 کو میرے گھر کونڈوں کی نیاز ہوتی۔ محلے کی لڑکیاں میری والدہ اور پھپھو کا آکر ہاتھ بٹاتیں اور صبح بعد از نیاز اپنے اپنے گھروں کو جاتیں۔
رمضان المبارک کے مہینے میں بڑی پرانی ریت کو دوام بخشا جاتا تھا ۔ تمام اہل ِ محلہ رمضان کی 15ویں اور 21 ویں کو میرے آنگن میں اور 27ویں کو فرید خان صاحب کے آنگن میں روزہ افطار کرتے۔ہمیں فکر نہ ہوتی کہ روزہ کس کے ساتھ کھولنا ہے۔ اذان ہوتی تو بس کھول لیتے تھے کیونکہ محلے کے سب ہی لوگ کھول رہے ہوتے تھے ویسے بھی بھوک اور پیاس کا ایک ہی مسلک ہے وہ ہے ” سیرابی”۔

عید آتی تو عین موقع پر والد اور دادا کو فیصلہ سنا دیتے کہ ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی۔کیوں ؟ جیسے سوالوں کا جواب کچھ اس طرح ہوتا کہ پچھلی بار امبر اور ثمرین نے ممانی ( چار گھر چھوڑ کر رہنے والی مرحومہ)ہم سے پہلے جاکر عیدی لے لی تھی۔ اب سب لڑکے ساتھ جائیں گے۔ خدا جانے کتنی عیدین اورجمعے کس کس فاروقی اور صدیقی کے پیچھے پڑھ ڈالے یاد نہیں۔

محرم آتا تو گلی کے سارے بچے شوقیہ چندہ جمع کرتے سبیل بناتے۔ بڑے بھی خوب تعاون کرتے اگر کسی سے بیس یا تیس روپے چندہ مل جاتا تو خوشی کا ٹھکانا نہ ہوتا۔ سبطین کا گھر واحد گھر تھا جہاں مردانہ مجالس کا جبکہ میرے گھر زنانہ مجالس کا عشرہ ہوتا۔ مجالس کے بعد بچ جانے والا ” تبرک” تمام گھروں میں باقاعدگی سے تقسیم ہوتا۔ محرم کی آٹھویں کو گلی کے کسی گھر میں دوپہر اور رات کا کھانا نہیں پکتا تھا۔ سب ہی ہمارے گھر میں لگے مولا عباس علمدار کی حاضری نیاز کے دسترخوان پر اپنے مقدر کا رزق کھاتے۔ جو آ نہیں سکتے تھے ان کے گھر پہنچا دیا جاتا۔ آٹھویں کی رات دس بجے چھ گلی پیچھے پتن چچا کے گھرسے جلوس برآمد ہوتا جو ہماری گلی پر اختتام ہوتا۔ اکثر تبرکات اسحاق بھائی اور پپو چچا کے گھر میں بڑھائے جاتے ان کا صحن کافی بڑا تھا۔ پرویز بھائی ہاتھ میں شربت کا جگ پکڑے مولانا قاسم نانوتوی کی نمائندگی کرتے نظر آتے۔ لپک لپک کر ایک ایک ماتمی کو شربت پلاتے۔ سر پر ہرا عمامہ باندھے کشمیری ابا عزاداروں کو گھر کے بنے نانختائی تقسیم کیا کرتے۔

نویں اور دسویں کو محلے کے سادات کے لئے ” امتی” اپنے گھروں سے کھانا پکا کر لاتے۔ شام غریباں پر بڑی بھابھی ( سامنے سے دو گھر چھوڑ کر) کے ہاں کھچڑا بنتا۔ مرکزی جلوس کے بعد سب سے بڑا رش انہی کے گھر نظر آتا تھا۔ مغرب کے فوری بعد سارا محلہ اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ کیا ہوا ,کس لئے؟ شام غریباں کا وقت ہے۔ حسین اور آل ِ حسین پر پریشانی کا وقت ہے۔ کسی کسی گھر سے ٹی وی پر شام غریباں کی مجلس چلنے کی آواز آتی۔ ادھر ٹی وی پر نشر ہوتی مجلس ختم ہوتی ادھر حسینی نقارہ بجتا۔ ہم بھی گھر سے باہر آجاتے۔ گلی سے گزرتے تعزیعے کے جلوس میں شامل ہوجاتے۔ عجیب وقت تھا ۔ عجیب لوگ تھے۔ اللہ ان خالہ پر رحم کرے ۔ بڑا ہوا تو پتا چلا کہ قرآن والی خالہ دیوبندی تھیں۔ اقبال صاحب اہل حدیث تھے۔ بھائیوں کا دوست صابر سپاہ صحابہ کالعدم کا مقامی امیر بن چکا تھا۔ ایاز، فضل، فیصل تینوں بھائی جماعت ِ اسلامی کے کشمیر جہاد میں “جام شہادت نوش” کر چکے ہیں۔ انہیں لے جانے والا وہی گلی کے کونے والا حسن خان تھا جو آج کل مچھ جیل میں ہے۔ سبطین کالعدم سپاہ محمد کا بھگوڑا ثابت ہوا آج کل ایران میں ہے۔

عرصہ ہوا ہم بھی وہ محلہ چھوڑ آئے. مگر آج بھی وہاں رجب کے کونڈے آتے ہیں مگر کوئی کسی کا ہاتھ بٹانے والا نہیں ہوتا کیونکہ بدعت ہے۔ رمضان آتے ہیں مگر اب ایک دوسرے کے آنگن میں روزہ افطا نہیں ہوتا کیونکہ حرام ہے۔ عید آتی ہے تو اب کوئی عید نہیں ملتا کیونکہ سمجھ نہیں آتا کے دو بار گلے ملنا ہے یا تین بار۔ محرم بھی آتا ہے اور گزرجاتا ہے۔ مجالس ہوتی ہیں مگر تبرک اب گھروں میں تقسیم نہیں ہوتا کیونک تبرک کھانا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ سراج الدین خالو حلیم اور دلیم کےتبلیغی چکر میں ایسے پھنسے کے انتظار عبث ٹہرا۔ محرم کی آٹھویں آتی ہے گزر جاتی ہے۔ اسحاق بھائی اور پپو چچا کے گھر کے دروازے نہیں کھلتے۔ اکثر تبرکات گلی میں شامیانہ لگا کر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔پرویز بھائی اب شربت نہیں پلاتے کیونکہ ان کے حصے کا حُسین اب یزید کا باغی ثابت ہوچکا ہے۔ ہرا عمامہ باندھے کشمیری ابا انتقال کر چکے ہیں ان کے بیٹے باپ کی بدعت سے خود کو روک چکے ہیں۔بڑی بھابھی بستر پر ہیں ,بے چاری بہووں کے رحم وکرم پر, اللہ ان پر رحم کرے چار بیٹے اپنے اوپر دیوبندی اہل حدیث اور بریلوی کا ٹیگ لگائے پھرتے ہیں۔ اب شیعوں کے لئے عصر عاشور فاقہ شکنی کا اہتمام نہیں ہوتا۔ گلی میں اندھیرا بھی نہیں ہوتا۔اکثر گھروں سے فلمی گانے چلنے کی آواز ضرور آجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں اکثر عصر عاشور کے بعد وہاں چلا جاتا ہوں کیونکہ ایک چیز کا انتظار رہتا ہے ۔۔۔ڈھول کی تھاپ کا انتظار اور اس کے ساتھ برآمد ہوتے ” سفید روشنیوں” والے تعزیے کا ۔۔ جس میں ,میں کبھی خالہ، ممانی، بڑی بھابھی ، اسحاق بھائی، فرید خان، پپو چچا،پرویز بھائی، سراج الدین خالو اور کشمیری ابا کا چہرہ تلاش کرتا ہوں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply