کچھ دن سے کٹوں، مرغی، انڈوں، کرپشن، کوئی ٹیکس نہیں دیتا، چور بزنس مین کے بعد ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے سادہ لوح پاکستانیوں اور انصافیوں کو لگا دیا گیا ہے۔ وہ ہے نمک۔
مضمون کو ان اشعار سے شروع کرتے ہیں، جوکہ ہمارے ملک کی پچھلے ایک سال کی داستان بھی ہے کہ
کہتی تھی غزل مجھ کو ہے مرہم کی ضرورت
اور دیتے رہے سب اسے اشعار نمک کے
جس سمت ملا کرتی تھیں زخموں کی دوائیں
سنتے ہیں کہ اب ہیں وہاں بازار نمک کے
کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ اچانک سوشل میڈیا پریہ شور اُٹھنے لگا کہ انڈیا اور اسرائیل پاکستانی نمک کو مٹی کے بھاؤ خرید کر سونے کے بھاؤ بیچ رہا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی نہیں جو کہ اس نمک کو برانڈڈ کر کے بیچ سکے۔۔
نمک ایک معدنیات ہے جو کہ سوڈیم کلورایڈ کی ایک قسم ہے۔خام حالت میں یہ کرسٹیلائین منرل کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ جسے پہاڑی نمک بھی کہتے ہیں۔ نمک ہماری زندگی کا ایک لازمی جُز ہے اور کوئی بھی کھانا نمک کے بغیر تیار نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ بلڈ پریشر کو زیادہ کرنے میں نمک ایک بہت بڑا عنصر ہے ، مگر پھر بھی نمک کے بغیر کسی بھی کھانے کا ذائقہ بہتر نہیں ہو سکتا۔
نمک کا استعمال کوئی چھ ہزار سال قبل مسیح میں ملتا ہے، جب اس وقت کے انسان نے پانی کو ابالنا شروع کیا۔ یہ پانی چشموں اور دریا کا تھا، جس سے نمک ملتاتھا۔ آہستہ آہستہ نمک انسان کے لیے اتنا ضروری ہوگیا کہ یہ بارٹر سسٹم کاایک اہم حصہ بن گیا،ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کچھ قبیلے نمک کے پیچھے لڑنے لگے۔
کیا نمک صرف کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ کھانے کے لیے نمک صرف چھ فیصد استعمال ہوتا ہے۔ بارہ فیصد پانی کو صاف کرنے کے لیے، آٹھ فیصد سڑکوں پر سے برف ہٹانے کے لیے، جبکہ چھ فیصد زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔۔ باقی کا 68 فیصد انڈسٹریل میٹریل کی مینوفیکچرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جس میں کاسٹک سوڈا،کلورین، پی وی سی،پلاسٹک، پیپرپلپ وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں تین ذرائع سے نمک حاصل ہوتا ہے۔ جھیلوں یا چشموں سے، سمندرسے اور پہاڑ سے جسے راک سالٹ کہتے ہیں
جیسے کہ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ سارے جہاں کے مسلمانوں کا درد صرف اور صرف ان کے جگر میں ہے، اسی طرح کاایک مغالطہ آج کل یہ ہوا ہے کہ سارے جہاں کا نمک صرف اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، جو کہ بالکل غلط ہے۔برٹش جیولوجیکل سروے کے مطابق دنیا میں تقریباَ 93 ملک نمک مختلف ذریعے سے حاصل کرتے ہیں۔ نمک کی پیداوار میں اس وقت چین کا پہلا نمبر ہے، جس کی نمک کی پیداوار 22.48 فیصد ہے، دوسرے نمبر پر امریکہ ہے، تیسرے نمبر کا سن کر عام پاکستانی کو تعجب ہو گا کہ وہ انڈیا ہے، جبکہ جرمنی تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان بیسویں نمبر پر ہے جس کا نمک میں مارکٹ کا حصہ صرف اور صرف 0.88 فیصد ہے۔ ایک اور جھٹکا کھانے کے لیے پاکستانی یہ سننے کے بعد تیار ہو جائیں کہ اسرائل میں بھی نمک کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کا نمبر 44 ہے اور اس کا مارکٹ شیئر ہے ، 0.15 فیصد۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ انڈیا اور اسرائیل خود نمک پیدا کرتے ہیں اور کجا وہ پاکستانی نمک منگوا کر مہنگے داموں بیچیں گے؟ لیکن انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اس لیے وہ کچھ مقدار، تقریباً 24 ہزار ٹن پاکستان سے اپنے مقامی استعمال کے لیے برآمد کرتا ہے.
پاکستان میں نمک کی کاتیں تین جگہوں پر ہیں۔ کھیوڑہ، ورچا اور کالا باغ میں ہیں۔ ایک جائزہ کے مطابق ان تینوں کانوں میں دس بلین ٹن نمک کے ذخائر ہیں۔یہ ذخائر چار سو سال تک کے لیے ہیں۔ 1938 میں برٹش انڈیا کے ساتھ ایک معاہدہ میں آئی سی آئی انگلینڈ کو رہتی دنیا تک یہ حق حاصل ہے کہ صرف وہ ہی اس کان سے نمک نکال سکتے ہیں۔جب پاکستان کو آزادی حاصل ہوئی تو انیکشیشن کے کاغذات میں یہ شرط شامل تھی کہ برٹش انڈیا کے پرانے سارے معاہدوں کو مانا جائے گا۔ اور پاکستان ان کو ختم نہیں کر سکتا۔ یہ کان پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی زیر نگرانی ہیں۔مگر اس طرح جب تک یہ دنیا ہے یا جب تک کھیوڑہ میں یہ نمک ہے، صرف اور صرف Imperial Chemical Industries (ICI) of England ہی نکال سکتی ہے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں