حق ، باطل اور حق تلفی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

آج کل سیاسی بیانیوں میں حق اور باطل کی اصطلاحات بڑی سرعت اور بے باکی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ سیاسی بیانیوں کے اختلاف کو یار لوگ حق و باطل کا معرکہ بنا لیتے ہیں۔ نقطۂ نظر کا اختلاف‘ حق و باطل کا اختلاف ہرگز نہیں۔جانتا ہوں کہ میرے نقطۂ نظر سے بھی یار لوگ اختلاف کریں گے۔مؤدبانہ درخواست ہے کہ اسے ایک غیر سیاسی کالم سمجھتے ہوئے ایک فرد کا ذاتی نقطہ نظر سمجھ کر صرفِ نظر کر دیں۔

عالم اگر سیاست کرنے لگے تو علم جہل اور تعصب کا نام بن کر رہ کر جاتا ہے، سیاستدان اگر دین میں مداخلت کرنے لگے تو دین کی صداقت عوام الناس کے ذہن میں ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی دنیا میں یہاں کا سیاستدان مذہبی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ وہ خود کو بزعمِ خویش حق پرست سمجھتا ہے اور اپنے مخالفین کو یک بینی دوگوش دائرہ حق سے نکال کر باطل کی صفوں میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ایسے بیانیوں میں نیم سیاسی و نیم مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ وہ خود کو اسلام کے ساتھ یوں متصل سمجھتی ہیں کہ اُن کی ہم نوائی گویا اسلام میں داخل ہونے کی سند ہے اور اُن کے سیاسی موقف سے اختلاف گویا توہینِ دین کا ارتکاب ہے۔ یہ طرزِ فکر بدتدریج خارجی فکر و عمل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس طرح سیاست اور دین دونوں متنازعہ ہو جاتے ہیں۔ دین ‘دینِ وحدت ہے— وحدت کی طرف لے کر آنے والے دین کے نام پر اُمّت کو تقسیم کرنے کا عمل انتہائی خوف ناک ہے۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں ‘ جتنا بیان کیا جاتا ہے‘بلکہ معاملہ یوں ہے کہ اُمّت میں سے ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور اپنی تفہیمِ دین کو فائق سمجھتے ہوئے پوری اُمّتِ مسلّمہ پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ یوں تو کسی بھی سطح پر تفرقے کا انجام بلآخر فرقہ ہی نکلتا ہے لیکن اگر “اصلاح” کے اس عمل میں سیاست اور طاقت بھی شامل ہو جائے تو اِسلامی معاشرے پر اِس کے فکری اَثرات دین سے دُوری کی صورت میں نکلتے ہیں۔پڑھا لکھا باشعور طبقہ جب دینی اقدار و اصطلاحات کی یہ درگت دیکھتا ہے تو وہ مغربی طرزِ فکر کی طرف پلٹ جانے میں عافیت جانتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ عوام الناس کے دینی جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے بھڑکانے والا سیاستدان میدانِ سیاست میں ایک فاؤل پلے کرتا ہے۔ کسی سیاسی موقف کا جواب صرف سیاسی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ دراصل اپنی بقا کو دین کی بقا کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دینا بجائے خود توہینِ دین ہے۔

اپنے مقابل کو باطل کہنے سے پہلے یہ تسلی کر لینا ضروری ہے کہ آیا ہم واقعی حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ کسی کو وقت کا یزید کہنے سے پہلے اپنے دَور کے حسین کو پہچاننا ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں فریق ہی یزیدی طرزِ فکر پر چل رہے ہوں‘ یعنی فریقین مادّی اور مالی مفاد کے حصول کے لیے باؤلے ہوئے جارہے ہیں اور بیانات میں ہر گروہ بزعم ِ خویش خود کو حسینی فوج کی سپاہ قرار دے رہا ہے۔ یہ اِلزام تراشی نہ صرف حال اور خیال کو متاثر کرتی ہے بلکہ ماضی کے مقدّس اَیّام اور شخصیات کو بھی دھندلا دیتی ہے۔ انسان فطری طور پر نرگسیت پسند پیدا ہوا ہے، اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ڈکشنری سے ڈھونڈ کر بلند و بالا اِصلاحات لے کر آتا ہے۔ کسی معمولی سے جذبے کی ترجمانی کے لیے بلامبالغہ وہ ہر ایسے اسم اور فعل کا استعمال کرتا ہے جس کا تعلق مبالغے کے صیغے سے ہوتا ہے،مثلاً ذہنی میلان کو اُلفت کہہ دیتا ہے، متاثر ہونے کو محبت اور گرویدہ ہونے کو جھٹ سے عشق کا نام دے دیتا ہے۔ ایسے زُود رنج انسان کو کوئی کہاں تک سمجھا سکتا ہے۔

ایک کم ظرف انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ جب اِحسان کرتا ہے تو اپنے اِحسان کا معاوضہ وصول کرنے کی اُمّید باندھ لیتا ہے، جب “معاوضہ” ملنے میں تاخیر ہو جائے تو تلخ ہو جاتا ہے، جب تلخ ہو جاتا ہے تو اُسی نظریے سے استعفیٰ پیش کر دیتا ہے جس نظریے کی بنیاد پر اُس نے نیکی اور احسان کا “کاروبار” کیا تھا۔ ایسے شخص کو اگر نیکی کا صلہ نہ ملے تو وہ نیکی کرنے ہی سے “تائب” ہو جاتا ہے۔ مرشدِ خیال حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ دُعا کرو ہمیں اُس بڑھیا کا نصیب نہ ملے جس نے عمر پر محنت سے سوت کاتا اور زندگی کے آخر میں اِسے اُلجھا دیا۔ آپ فرمایا کرتے کہ ضائع ہو جانے والی عبادتوں سے پناہ مانگا کرو۔ دراصل رائگاں ہو جانے والی محنتیں صرف عمل ہی کو برباد نہیں کرتیں بلکہ ثمرۂ ایمان بھی ضائع کر دیتی ہیں۔ اپنے رب کی رحمت کی اُمّید ایک درجۂ ایمان ہی تو ہے۔ اگر ہم درجۂ اِحسان پر ہیں یا درجۂ احسان پر متمکن ہونے کے متمنیّ ہیں تو ہمیں اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ ممکن ہے حق ہمیں بطور میڈیم استعمال کر رہا ہو اور حق سے باغی لوگوں کو ہمارے ذریعے ایک حجت کا اتمام اور اہتمام ہو رہا ہو۔ ہمیں اپنی حق تلفی کرنے والوں کو باطل اور باطل پرست ہونے کا دُشنام نہیں دینا چاہیے۔اگر ہم فی الواقع حق پرست ہیں تو ہمیں اپنے حق پر اصرار نہیں کرنا چاہیے— ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے سب حقوق بحق سرکارﷺ محفوظ ہیں۔

کسی معاملے میں جھگڑا کرنے والے دونوں فریق عملاً باطل پر بھی ہو سکتے ہیں — عین ممکن ہے کہ اُن کے اپنے حق پر ہونے کے دعوے باطل ہوں اور دوسروں کے باطل پر ہونے کے فتوے بھی باطل ہوں۔ بشری کمزوریوں سے عبارت کوئی پری پیکر بھی ہو تو ہمہ حال حق پر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ میدانِ حق میں دعویٰ بذاتِ خود باطل تصور کیا جاتا ہے۔ جو حق پر ہوتا ہے‘ اُسے اپنے حق پر ہونے کی وکالت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جو حق پر ہوتا ہے‘ وہ حق کے ساتھ ہوتا ہے اور جس کے ساتھ حق ہوتا ہے‘ اسے اپنے حق پر ہونے کی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی— اُسے فوری نتائج سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ وہ حق تعالیٰ کے اُس وعدے پر یقین رکھتا ہے کہ حق قائم رہنے والا ہے اور باطل ذھق ہونے والا ہے— کافور ہونے والا ہے۔ باطل ایک دُھند کی طرح ہوتا ہے ‘ جن قلوب و اَذہان پر یہ دھند چھا چکی ہو‘ وہ حقیقت اور سراب میں فرق نہیں کر سکتے ‘ حق کی بابت اُن کی فہم و ذکاوت ایک دھندلکےمیں ٹھہر جاتی ہے۔ جب زمانے کے اُفق پر حق کا خورشیدِ عالم تاب طلوع ہوتا ہے‘ تو باطل کی دھند ایسے غائب ہو جاتی ہے‘ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ حق کے طلوع ہونے کا وقت کیا ہے؟ اُس ساعت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اُس کا صرف انتظار کیا جا سکتا ہے— بحکم حق تعالیٰ “کونوا مع الصادقین” صادقین کے ہمراہ ہو کر انتظار— جسے حُسنِ انتظار بھی کہا جاتا ہے۔ صادقین کی معیت ہمارے انتظار کو حسین بنا دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حق اور باطل محض عرضی نوعیت کی relative اَقدار نہیں بلکہ معروضی طرز کی حقیقتیں ہیں۔ حق اور باطل کا تعلق حق اور باطل کی پہچان کروانے والی شخصیات سے ہے۔ حق اور باطل محض فلسفہ ہائے حیات نہیں‘ یہ محض فکر و عمل کی راہیں نہیں بلکہ اُن کا معیار قائم بالحق شخصیت کے ساتھ ہے— وہی شخصیت حق کا تعارف ہے— وہی فرقان ہے۔ فرقان مجموعہ اُصول و ضوابط نہیں بلکہ فرقان ایک ذات ہے— جو معیارِ حق ہے۔ وہ ذات ایک کسوٹی ہے جس کی بتائی ہوئی بات یا دکھاے گئے عمل سے حق اور باطل کے راستوں میں تفریق کی جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے” سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے”— یعنی صداقت کا معیار صادقؐ کی ذاتِ بابرکات ہے‘ اور یہ ذاتؐ ایک اَٹل سچائی اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ اِس ذاتؐ سے وابستگی ہمیں صداقت کے قریب کرتی ہے—اِسی قربت کے سب ہم قربِ حق تک پہنچتے ہیں۔ جب اِس زبانِ صادقﷺ سے فرما دیا گیا کہ “علی مع الحق والحق مع العلی” (علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے)‘ تو یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہوگئی کہ حق اور باطل میں تفریق کرنے کے لیے ہمیں علی ابن ابی طالبؑ کے قول و کردار کے قریب آنا ہوگا— کردارِ علوی ہر دور میں موجود ہوتے ہیں کہ ولایتِ علیؑ جاری و ساری ہے۔ معیارِ حق ہمارے آس پاس کہیں چلتا پھرتا موجود ہوگا— اُس کا کردار‘ کردارِ علوی کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیں‘ فرقان واضح ہو جائے گا‘ بغیر کسی دعوے کے ‘ بغیر کسی مبالغے اور بحث مباحثے کے!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply