اُبھرے ہوئے الفاظ تو اندھوں کے لیے ہیں۔۔۔۔ادریس آزاد

ہم خوشاب میں ہرسال ایک کُل پاکستان مشاعرہ کروایا کرتے تھے۔ یہ ایٹیز80s کی بات ہے۔ میں نے جوانی میں قدم رکھا تو بزم فکر و فن خوشاب خاصی فعّال تھی۔ فاروق لودھی کی صدارت کا غالباً پہلا سال تھا۔ اس سے پہلے عتیق اختر افغانی صدر ہوا کرتے تھے اور میرا یار منیر ایازؒ، اللہ اُسے جنت الفردوس میں ہمیشہ خوش رکھے، جنرل سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ سالانہ مشاعرہ نہایت ہی دلچسپ اور پرلطف سرگرمی تھا۔ تقریباً ہرمشاعرہ کی صدارت فاروق روکھڑی (ہم تم ہونگے بادل ہوگا) کیا کرتے تھے۔ مہمانان ِ خصوصی و اعزاز بدلتے رہتے تھے۔ انہی مشاعروں میں بڑے بڑے جابر شاعروں اور جغادری نظم، انشائیہ، کالم اور مزاح نگاروں سے ملاقاتیں ہوئی۔ انہی مشاعروں میں منصور آفاق سے ملاقات ہوئی۔ انہی مشاعروں میں مُنّو بھائی، علامہ رشک ترابی، غلام جیلانی اصغر، گلزار بخاری، قائم نقوی۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت سے بڑے بڑے ناموں سے ملاقات ہوئی۔ انہی مشاعروں میں سلمان گیلانی نے،

“گزڑا نہیں اِدھڑ سے جو سلمان خیڑ ہو”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنائی تھی

اور جن کے جانے کے بعد منیر ایاز نے اگلے شاعر کو بلانے کے لیے کہا، کہ اب تشریف لاتے ہیں۔ عمڑ دڑاز ساجد ۔ ہائے عمر دراز ساجد بھی مرحوم ہوگئے۔

مری آنکھوں کے رستے سے مرے دل میں نہیں اُترا
گزرگاہوں میں پانی تھا وہ بزدل ڈر گیا ہوگا

عمر دراز ساجد

بعض ایسے اشعار یاد ہوگئے جن کے شعرأ کے نام اور چہرے بھول گئے۔ مثلاً

چل آ اِک بار پھر کھیلیں، وہی جو کھیل کھیلا تھا
تری خیرات پتھر کی مرا کشکول شیشے کا

خیر! جی چاہتا ہے کہ ان تمام مشاعروں کا احوال لکھوں لیکن سردست جو مجھے یاد آیا وہ قلمبند کرنا چاہتاہوں۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ہمارے سٹیج پر براجمان مہمانان ِ اعزاز میں سے ایک سرگودھا کے پروفیسر محمد اقبال تھے۔ پروفیسر اقبال انگریزی کے معروف پروفیسر، ممتاز شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کے شاگرد (مجھ سمیت) جانتے ہیں کہ آپ پیدائشی نابینائی کے باوجود بلیک بورڈ پر انگریزی لکھا کرتے اور آپ کی لائن ٹیڑھی نہ ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی تمام تر تعلیم نابیناؤں کے سکولوں میں حاصل کی تھی۔ کتابیں انگلیاں پھیر پھیر کر پڑھا کرتے اور پڑھنے کی رفتار وہی ہوتی جو ہم آنکھوں والوں کی ہوتی ہے۔

بھاگٹانوالہ سے معروف شاعر مولوی اسلم آئے ہوئے تھے، جن کے ایک شعر کا ان دنوں بڑا چرچا تھا۔

اپاہج اور بھی کردینگی یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

مولوی اسلم سینئر شاعر تھے۔ آخری شعرأ میں بلائے جاتے تھے۔ رات کے لگ بھگ دوبجے کا وقت تھا۔ پنڈال پوری آب و تاب سے چمک دمک بلکہ دھمک رہا تھا جب مولوی اسلم کی باری آئی اور انہوں نے آتے ہی پروفیسر اقبال کی طرف دیکھے بغیر شعر پڑھا۔

اُبھرے ہوئے الفاظ تو اندھوں کے لیے ہیں
مجھ کو تو ہے الفاظ کی گہرائی میں جانا

سامعین نے بے پناہ داد دی لیکن پروفیسر اقبال کا خیال جس جس سامع کے ذہن میں آتا گیا وہ فوراً اپنی داد کو وہیں گلے میں ہی روکتا گیا۔ پروفیسر اقبال بھی اپنی نشست پر فقط پہلو بدل کر رہ گئے۔ مولوی اسلم نے حسبِ معمول نہایت عمدہ کلام سنایا اور چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد منیر ایاز مرحوم نے پروفیسر اقبال کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ اور پروفیسر اقبال نے آتے ہی مولوی اسلم کے نام یہ شعر پڑھا،

چل پڑتے ہیں انگلی کے اشارے کو پکڑ کر
ہم آنکھ میں موجود نظر بھول گئے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

بس پھر کیا تھا۔ ایک تو وہ نابینا تھے اور سب کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ اس پر مولوی اسلم کا شعر اُن کے لیے بہت درد دینے والا تھا۔ چنانچہ سامعین نے داد کے ڈونگرے برسادیے۔ بزم فکروفن خوشاب کے سالانہ مشاعرے ایسے واقعات سے مالامال ہوتے تھے۔ مرحوم طاہر جمیل نے تو ایک بار داد لینے کی “اَخیر” کردی تھی۔ لیکن اس کا احوال کسی اور دن۔ انشااللہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply