بیت الخلا ایک ضرورت ہے۔۔اسماعیل گُل خلجی

ذرا سوچیے! چاہے آپ مہمان ہو ں یا میزبان آپ رفع حاجت کرنا چاہتے ہیں لیکن گھر میں بیت الخلا موجود نہیں اور نہ ہی آپ کو گھر کے باہر پبلک ٹوائلٹ یعنی عوامی بیت الخلا کی سہولت میسر ہے، ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ ۔۔اس صورت حال کا روزانہ ایک بڑی تعداد پر مشتمل پاکستانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جس کا         آسان حل جو ان کے پاس ہے وہ یہ ہے کہ کھلے آسمان تلے کسی ایسی جگہ پر رفع حاجت کرلی جائے جہاں تھوڑا بہت پردہ ہو۔  اس عمل کو ہم انگریزی زبان میں اوپن ڈےفکیشن کہتے ہیں ۔ ایسی جگہ کوئی کھیت، نہر، دریا کا کنارہ، ندی نالہ، جنگل، پہاڑ یا سڑک کا کوئی کنارہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کے (جائنٹ مانیٹرنگ پروگرام) کے مطابق پاکستان دنیا میں بھارت، انڈونیشیا، نائجیریا اور ایتھوپیا کے بعد پانچواں ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی اڑھائی کروڑ افراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں ۔ایسا اس لئے ہے کہ پاکستان کے 13 فیصد گھروں میں بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان سوشل اینڈ لونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے 15-2014 کے یہ اعداد و شمار دیہی اور شہری سطح پر زیادہ تفریق کے حامل ہیں ۔ سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں کے صرف تین فیصد گھروں میں بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں جبکہ دیہی علاقوں کے 21 فیصد گھر اس سہولت سے محروم ہیں ۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کی 64 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں گھروں کی نمایاں تعداد میں بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت جاری ہے ۔
پاکستان سوشل اینڈ لونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے 15-2014 کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کا عمل صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ہے۔ پنجاب کے 24 فیصد دیہی علاقوں میں بیت الخلا موجود نہیں جبکہ سندھ کے 16 فیصد دیہی مکانات اس سہولت سے محروم ہیں ۔اسی طرح خیبر پختون خوا  کے 14 فیصد اور بلوچستان کے 18 فیصد گھرانے بیت الخلا نامی جگہ کا  وجود نہیں رکھتے ۔
انسان جب کسی کھلی جگہ پر رفع حاجت کرے اور وہ انسانی فضلہ  وہیں  پڑارہے تو ایسے مکھیوں اور کیڑوں کے ذریعہ مختلف بیماریاں پھیلتی ہے اور اس سے پھیلنے والی بیماری انسان کے لئے موت کا سبب بن سکتی ہے ۔
2017 میں شائع ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک اوپن ڈےفکیشن فری پاکستان حاصل کرنے کے لئے روزانہ 820  لیٹرین تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply