صحافت کے اساتذہ جھوٹ بولتے ہیں۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں صحافت پر جو کڑ اوقت آیا ہے شاید ہی کسی اور حکومت میں صحافت پر آیا ہو ۔ صحافیوں کی جان تو پہلے بھی خطرے میں تھی معاشی حالت بھی دیدنی تھی مگر نوکری کا جانا کسی وبال جان سے کم نہیں  ۔فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی دن رات ڈیوٹی سرانجام دیتے وقت خود تو اچھے ہوٹلوں میں کھانا کھاکر سو جاتے ہیں مگر اُن کے گھروں میں فاقے ہی چلتے رہتے ہیں ۔ عید پر بھی ان کے گھروں میں بچوں کے کپڑے نہیں بنتے۔ یہ ہم اُن صحافیوں کی بات کررہے ہیں ۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ، بڑے صحافی تو ایک چینل چھوڑ کر دوسرے چینل کو جوائن کر لیتے ہیں جبکہ عام صحافی دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس حکومت کے برسرا قتدار   آنے کے بعد پشاور کے اکثرصحافیوں نے اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کی غرض سے ماسٹر ڈگری کے بعد ایم فل کی ڈگریاں بھی حاصل کرلی ہیں ۔ اور کچھ نے داخلے لے لئے ہیں جس کے لئے وہ ہر ہفتے اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں یہ وہ صحافی تھے جو بڑے شوق سے صحافت کے میدان میں اُترے  تھے اب انہوں نے یونیورسٹی میں صحافت کے شعبو ں میں پڑھانے کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں ۔ اس وقت خیبر پختونخوا  کی گیارہ یو نیورسٹیوں میں شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کا مضمون پڑھایا جارہا ہے ۔ جس میں سب سے پرانے شعبہ گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان اور پشاور یونیورسٹی کا شعبہ جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن ہے۔ جس سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں طلبہ طالبات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں ۔ اور مختلف ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے اداروں میں کام کر رہے ہیں ۔ کوہاٹ یونیورسٹی، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان ، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک ، ہزارہ یونیورسٹی ، ملاکنڈ یونیورسٹی ، سوات یونیورسٹی ، صوابی یونیورسٹی، وومین یونیورسٹی صوابی سمیت پشاور میں پرائیویٹ یونیورسٹی اقراءنیشنل یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کام کر رہا ہے ، جبکہ سرحد یونیورسٹی میں بھی صحافت کا شعبہ قائم تھا جو اب کچھ وجوہات کی بناءپر بند کیا گیا ہے جبکہ سٹی یونیورسٹی پشاوربھی اس شعبہ کو شروع کرنے کے لئے اپنی تگ ودو کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں وہاں پر بھی کچھ یونیورسٹیوں میں اس شعبہ کو شروع کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ۔

اس کے برعکس تمام یونیورسٹیوں میں چونکہ بی اے کا خاتمہ ہوچکا ہے اب بی ایس چارسالہ کورسز متعارف ہوئے ہیں تو ہر یونیورسٹی میں صحافت کے مضمون کو کسی نا کسی سبجیکٹ میں پڑھایا جارہا ہے۔ خواہ وہ سائنس کے مضامین ہوں یا پھر سوشل سائینسز کے ،صحافت کا مضمون کسی نہ کسی طور شامل کیا گیا ہے کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کی ہدایات پر بھی عمل کرنا پڑتا ہے ، جس کے مطابق ہر شعبے  میں داخلہ لینے والا طالب علم دوسرے شعبے کا مضمون بھی پڑھے  گا۔ اورطلباءکے لئے چونکہ صحافت ایک بہترین اور آسان مضمون ہے اس لئے شعبوں کے چیئرمین اس مضمون کو لازمی اپنے کورس کا حصہ بناتے ہیں ۔ اس لئے ہر یونیورسٹی میں اب یہ مضمون پڑھایا جارہا ہے ۔ حالانکہ ملک بھر میں صحافت کا برا وقت چل رہا ہے اور پھر پشاور میں صحافت کے مواقع بھی کم ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے بھی اشتہارات بند کردئیے جس کا غصہ مالکان نے عام صحافیوں پر نکالا اور انہیں دفاتر سے چلتا کردیا ۔ اس حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی پشاور سمیت ملک بھرمیں ´صحافیوں کو اخبارات اور میڈیا چینلز سے نکالا گیا، کچھ شہروں میں تو بالکل سٹاف کو ہی فارغ کرکے صحافت کو آن لائن کردیا گیا ہے اب بہت سے اخبارات سنٹرلائزڈ ہوگئے ہیں ۔ پشاور میں تین سو کے قریب صحافی بے روزگار ہوگئے تو اُن کو جان کے لالے پڑگئے۔ صبح آفس گئے تو شام کو کہا گیا کہ کل سے نہ آئیں ۔ پشاور میں اکثرصحافی جو اب اخبارات اور میڈیا چینلز سے نکالے گئے ہیں انہوں نے اپنے گھروالوں سے یہ بات چھپائی ہے کہ وہ اب ملازمت نہیں کرتے۔ پشاور کی ایک خاتون جرنلسٹ اب شہد کے کاروبار میں چلی گئی ہے جبکہ ایک اور شعبہ صحافت کا گولڈ میڈلسٹ آئس کریم کی دکان کھول کر روزی روٹی کما رہا ہے ۔ جبکہ ایک اور صحافت کا طالب علم اپنے بھائی کے ساتھ ملکر پشاور کے بلور پلازہ میں موبائل کا کاروبار کررہا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک بھر بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا میں صحافت کا کوئی مستقبل نہیں تو یونیورسٹی انتظامیہ کیوں کر صحافت کے شعبوں کو قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اس کے لئے کیوں اقدامات نہیں اٹھائے جاتے کہ جو طلباءیونیورسٹیوں سے فارغ ہوجاتے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔ پشاور کے اداروں سے نکالے گئے طلباءہر اتوار کو مختلف ٹیسٹوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ جہاں پی آر او یا کمیونیکیشن آفیسر کی پوسٹ  ہوتی ہیں مگر مجموعی طور پر کتنے ادارے ہیں بیس یا تیس ۔ تو باقی طالب علم کہاں جائیں گے ؟۔ یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے لئے بھی اب ایم فل کی شرط لازمی ہوگئی ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق صوبے بھرکی یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ میں لیکچرز کی پوسٹس بھی زیادہ تر  پُر ہوگئی ہیں ۔ اور جو اسسٹنٹ پروفیسر یا پروفیسر کی پوزیشنز ہیں وہ آئندہ کچھ برسوں میں فل ہوجائیں گے اور پھر صحافت کے طالب علموں کے لئے یونیورسٹی میں ٹیچنگ بھی خواب بن کر رہ جائے گا ، تب یہ فارغ التحصیل طالب علم کہاں جائیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ا س وقت ان تمام یونیورسٹیوں میں جہاں جہاں صحافت پڑھائی جارہی ہے اساتذہ طالب علموں کو سبز باغ دکھارہے ہیں کہ صحافت میں بہت چارم ہے ۔ آپ یونیورسٹی سے فارغ ہونگے تو آپ کو ملازمت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ رپورٹر، سب ایڈیٹر ، اینکر، رائٹر کی ملازمتیں میڈیا میں جبکہ پی آر او کی پوزیشنیں سرکاری اداروں میں موجود ہیں ، جو آپ کو جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا حقیقت میں یہ میڈیا ڈیپارٹمنٹس میں پڑھانے والے سارے اساتذہ اپنے طالب علموں سے جھوٹ بولتے ہیں ۔ وہ انہیں دوسرا رخ کبھی بھی نہیں دکھاتے کہ صحافت کے شعبے سے فارغ ہوکر آپ کو دھکے بھی کھانے پڑیں گے۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply