ماہِ رمضان اور ہمارے رویے ۔ ۔۔محمد فیاض حسرت

ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ  ذرہ برابر بھی ہمیں  کسی کا احساس نہیں۔   اگر احساس ہے بھی تو اس احساس کی نوعیت صرف  اپنی ذات تک محدود ہے ۔ دن  رات  ہماری سوچ و فکر صرف   اپنی ذات کیلئے  ہوتی ہے کبھی کسی دوسرے کیلئے  ہم سوچتے تک نہیں   وہ  کس حال  میں ہے،  وہ کیسے جی رہا ہے  ،کہیں  وہ جینے کے لیے مر تو نہیں رہا  ، کہیں  اسے کوئی  پریشانی  تو نہیں، ہم ایسا سوچیں بھی کیوں بھلا ؟ اس میں ہمارا کیا بھلا ہونے والا  ہے۔

رمضان کے مہینے میں   اس احساس کی نوعیت ذرا سی بدل جاتی ہے کیونکہ بادشاہ سلامت شیطان صاحب تو   قید کر دیے جاتے ہیں    اور   ان کے وسوسوں سے کچھ چھٹکارہ  ملتا ہے ۔  جہاں رمضان کی کئی   برکتیں  و رحمتیں ہیں وہاں  ہمارے  لیے یہ   کوئی  غیر معمولی بات نہیں کہ ہمیں   کچھ احساس ہوتا  ہے  ان لوگوں کا  جنہیں     زندہ رہنے کے لیے    ٹھیک سے کھانا  نصیب نہیں ہوتا ۔تو ہم ان بیچارے لوگوں  کے ساتھ   اس مہینے میں اس احساس کے ساتھ کچھ اچھا برتاؤ بھی  رکھتے ہیں ۔

لیکن کچھ لوگوں کا احساس بالکل مختلف بلکہ منفی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ۔ ہماری تاجربرادری   میں سبزی فروشوں کو ہی دیکھ لیجئے   ان کا رویہ کس  قدر منفی  ہو جاتا ہے ۔ کس اہتمام سے وہ  اس مہینے میں  لوگوں کو  لوٹتے ہیں ۔  ان کا بنا یا ہوا فارمولا  بالکل آسان  کہ    اس مہینے میں  ہر شے کی  مقررہ قیمت  کو  دو سے ضرب دی جائے ، بعض دفعہ تو   یہ ضرب تین چار مرتبہ بھی دے دی جاتی ہے  ۔ رمضان میں  ہمیں یہ تحفہ ملتا ہے  کہ ہر  کیے  گئے نیک عمل کا ثواب دس گناہ زیادہ ہے  ۔ کہیں اس حساب سے     قیمتوں میں اضافہ تو نہیں ہو رہا؟  ارے  ثواب اور قیمتوں کا کیا تعلق ؟

یقین جانیے مجھے ہر دفعہ بہت دکھ ہوتا ہے جب بھی میں کوئی  چیز  خریدنے جاتا ہوں اور  سوچتا ہوں کہ   آخر ہم کب  ٹھیک ہوں گے ۔ ایک دفعہ  تو ایک صاحب سے کافی تکرار ہو گئی اسی معاملے پہ ۔ہوا یوں کہ میں نے   بنا قیمت پوچھے ایک کلو  آم خریدے  ، آموں کا شاپر ہاتھ  میں لیا اور  قیمت پوچھی   تو  حیرانگی  ہوئی ۔ فوراً پوچھا آخر کیا وجہ ہے یہ رمضان میں   ہر شے کی قیمت دو گنا  کیوں ہو جاتی ہے؟ تو  جواباً کہا گیا کہ ہم جہاں سے خریدتے ہیں ہمیں وہاں سے ہی ایسے ملتا ہے  ۔ اس کی اس بات میں کتنی سچائی تھی میں یہ  نہیں جانتا  ۔ اس کے بعد میں بولتا گیا اور وہ سنتا گیا ۔ سنیے اس معاملے میں آپ کاروباری حضرات کا ہی  قصور نہیں  ہم لوگوں کا بھی  ہے ۔ ہمیں جیسا تیسا ملتا  ہے اور جس قیمت پر ملتا ہے ہم خاموشی سے  لے لیتے ہیں ، ہم  خیال تک  نہیں کرتے  بلا وجہ   ہم  اپنی محنت سے کمائے ہوئے پیسے کیوں کسی  کو دے آتے ہیں ۔آپ کو  تو   پتا ہے  کہ   اگر   کاروبار میں کسی چیز کو بیچا جائے تو ایک حد تک منافع رکھ کے بیچا جاتا ہے ۔اس سے بڑھ کے منافع کے چکر میں پڑے تو وہ منافع  ہر گز  درست نہیں ۔عام دنوں میں کوئی بھی شے  اگر سو روپے کی ہوتی ہے تو وہ اس مہینے میں دو سو  کی ہو جاتی ہے۔  کیا اس میں آپ کے منافع کی حد ایک گنا  زیادہ ہوتی ہے ؟

سنیے ۔۔۔ دیکھیے اگر آپ  اسی طرح   کرتے ہیں تو  آپ کا   کاروبار   ،آپ کی کمائی حلال نہیں۔یہ تو جانتے ہیں ناں کہ  حرام کا ایک لقمہ حلق سے اتر گیا تو  تب  تک کوئی دعا قبو ل نہیں ہوتی  جب تک اس لقمے کا اثر رہتا ہے   تو پھر غور فرمائیں کہ آپ کا اس طرح سے منافع کمانا آپ پہ کتنا اثر انداز ہو رہا  ہو گا ۔

ابھی میری بات  ختم نہیں ہوئی تھی  کہ ان صاحب نے    کہا ۔ آپ ٹھیک کہہ رہے   ۔ بس کیا کریں کاروبار  ہی ایسا ہے ۔ مطلب کاروبار ہی ایسا ہے ۔یعنی  کاروبار   میں  سب چلتاہے

یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر عمل کا حساب ہوگا۔ ۔پھر بھی   ہم  صحیح و غلط  میں تمیز کیے  بغیر ہر کام کر گزرتے ہیں ۔

ہم لوگوں کے رویے  کس قدر منفی پہلو ؤں کاشکار ہیں ۔ کبھی بھی کسی کی مجبوری سے ہم فائدہ اٹھائے بغیر نہیں رہتے  بجائے اس کے کہ ہم اس کی مجبوری میں  اس کی کوئی مدد کریں۔ الٹا اسے اور نقصان پہنچا دیتے ہیں ۔آخر ہمارے  منفی رویے  کب مثبت   رویوں  میں بدلیں گے   ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اکثر  سوچتا اور کہتا رہتا ہوں  کہ اگر ہم میں ہر ایک انفرادی طور پہ اپنے رویوں  کو  ٹھیک کرنے کی کوشش کرے تو  حقیقتاً    اس ملک میں کتنا بڑا انقلاب آ جائے ۔اس ملک میں کتنی  بڑی تبدیلی آ جائے ۔ لوگ کتنے خوشی سے جئیں  اور جئیں بھی ایسے کہ بس پیارو محبت ایک دوسرے  میں  بانٹیں۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply