گونگے لفظ/یوحنا جان

کسی بھی خطے   کے رہنے والے لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کا ایک ذریعہ ہے جس کو زبان کہتے ہیں ۔ زبان میں الفاظ ترتیب اور ترکیب سے اپنے مقصد اور موقف کو بیان کرکے دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بھی ہیں ۔ ایک بات جوآپ  شاید آج تک نہ جان  پائے ہوں ، وہ” خیال “جو اِن لفظوں میں جان ڈال کر دوسروں کو قریب لانے کا عندیہ دیتا ہے ۔ اس کا عکس ابتداء سے ہی چلتا آ رہا ہے جو نہ صرف انسان کے کردار ، اعمال اور جذبات کی ترجمانی کے لحاظ سے بلکہ داخلی و خارجی سراپا نگاری ہے۔

لفظ کوئی بھی ہو اس کے پیچھے خیال کا عمدہ ہونا ضروری ہے جو اس کو متعبر اور اعلیٰ درجہ دلواتا ہے ورنہ وہ بدتر اور قنوطیت کا روپ ہے۔ عام طور پر اس کا اندازہ گھر، گلی ،محلے ، اسکول ، کالج یا کسی بھی جگہ پر دیکھا جائے تو ذہن سے نکلنے والا خیال ہی اس کا مرکزی سبب ہے جس کے تحت لفظ کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے۔ عمدہ خیال ہی عمدہ ادب کو تخلیق کرتا ہے جو لفظوں میں اعلیٰ پن کا عنصر ڈال کر چلتی پھرتی تصویر اور عزت کی نگاہ دلواتا ہے اگر یہ نہیں تو الفاظ گونگے اور بہرے قرار پاتے ہیں ۔ جس کے عوض سماعت سے عاری اور تقویت سے خالی کشکول ملتا ہے۔

خیال کا متحرک ہونا اور اس کا اسلوب بھی جاندار ہونا اس کے شاندار ہونے کا عزم رکھتا ہے۔ رہی بات دوسری جانب بے جان کی تو صرف یہی کافی ہے کہ سوچنے ، سمجھنے اور عمدہ ہونے کا فقدان۔ جب خیال مقصدِ حیات کا متلاشی پایا جائے تو لفظ بے جان سے جاندار ہو کر خودبخود راہ ہموار کرتے ملیں گے۔ جو کسی بھی شخص کے مقصدِ زندگی اور زندہ ہونے کی دلیل ہے لیکن جب جذبات و خیالات ہی مُردہ ہوں تو کوئی بھی دوا اور لفظ اثر نہیں دکھاتا بلکہ خالی کشکول ہی ملے گا اس کو جتنا مرضی بجانے میں وقت صَرف کر لیا جائے نتیجہ شورشرابہ اور بہرہ پن ہی ہے۔

اس کے عوض شور اور بہرے پن کا شکار مسلسل تخلیقی صلاحیت سے محروم اور زوال کا سامنا کرتے پائیں گے۔ جو کسی بھی قوم ، معاشرہ اور ریاست کی تنزلی کی عمدہ مثال ثابت ہوتا ہے۔ جس کے بدلے اُجڑے دیار ، مصنوعی رنگت، بات بات پر آگ بگولہ ، عدم توازن ، ہنگامہ آرائی ، حقارت کی نگاہ ، بے ضمیری اور ہر طرح کی ناکامیاں ان لوگوں کا مقدر ہوتی ہیں ۔ اس کا خمیازہ نہ صرف ایک فرد بلکہ آنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا ہوتا ہے ۔1947 ء سے لے کر اب تک کے حالات اس کی لاجواب دلیل ہیں ۔ اندھا ، اندھے کو راہ دکھائے گا تو دونوں گڑھے میں ہی گریں گے۔ اس اندھے پن کا براہ راست وہی خیال و تخلیق سے عاری اور بہرے پن کی نشانیوں کے حامل ہیں ۔ جو کئی سالوں سے کشکول لیے الزام مقدر پر لگانے میں اول دستہ ہیں ۔

اس کی دلیل یا ثبوت اور کیا ہو سکتے ہیں کہ جس معاشرہ اور ریاست کا آپ اور میں حصہ ہیں وہاں اس صورت حال کے انبار گلی گلی ہر دروازے کے اندر اور باہر ملیں گے۔ جو باہر نکلتے ہی اسی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بہرے پن کا فرض بخوبی ادا کرتے نظر آئیں گے۔ جن کے کھوکھلے نعرے ہوس کے ہتھیار لیے ، جنم لیتے اور بولتے لفظوں کو گونگا و بہرہ کرنے میں مرکزی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ تخلیق ہونے سے قبل ہی کفن کا ماتم لیے قبر کی طرف جانے کا عزم کرتے ہیں ۔ جو چاروں اطراف احساس کی کوکھ سے جذبات و خیالات سے آگاہی پاتے ہی منہ پر تالا لگا کر ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتا ہے۔
جب لفظ ہی خیال سے لاتعلق ہوکر ایسی گھمبیر صورت حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں جو ابھی نکلتی کونپل کی طرح نرم ہیں تو معاشرہ انارکی میں تبدیل ہو کر انتشار ، بربادی اور ناکامی کا سہرا سجائے اعلانیہ بتاتا ہے کہ یہاں گونگے اور بہرے بسیرا کرتے ہیں ۔ یہاں کسی متحرک اور جان دار کی وقعت نہ ہے اور نہ ہی وہ کسی بولتے لفظ کو مجسم کر سکتا ہے۔ وہ کون ہے جس نے لفظوں کو پایا ؟ وہ کون ہے جس نے تخلیق کرنے والے کو پایا؟ ان سوالوں کے جوابات شاید مجھے اپنے ادرگرد ماحول اور لوگوں میں نہ ملیں ۔ وجہ وہی عمدہ خیال سے عاری ، فتور سے لبریز اور تعلیم کے نام پر تجارت کا فروغ۔ یہ وہ بنیادی عوامل اور عناصر ہیں جو آج کے دور میں لفظوں کو بولنے سے قبل ہی دفن کر دیتے ہیں ۔ الفاظ خود ہی اپنا جنازہ اپنے کندھوں پر اُٹھائے قبرستانوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔
ایک دن چند متحرک الفاظ تخلیق کار کے ذہن میں اُبھرنے لگے لیکن ساتھ ہی منہ پر تالا لگانے گونگے اور بہرے آن کھڑے ہوئے۔ چند لمحات کے بعد انھی متحرک لفظوں کا جنازہ نہر کے کنارے بے ضمیروں کے کندھوں پر ہمیشہ کے لیے دفن ہونے کے لیے جاتے دیکھا۔ اسی راستے ایک رکشہ کھٹرا ملا جس کی پشت پر لکھا تھا :
” ہارن مت دو یہ قوم سو رہی ہے ”
تب سے ہی احساس اور جذبات جو لفظوں کے رنگ میں مجسم ہونے کے لیے تیار تھے اپنے کفن دفن کی فکر میں لگ گئے کیونکہ ان کو اپنے اردگرد نظر اُٹھانے پر سر کٹے اور کپکپاہٹ سے وابستہ کئی اپنے جیسے ملے جن کی صدائیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی تھیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کی رگوں سے چند بچے ہوئے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ یہ اُس کا نتیجہ ہے جو بے ذائقہ ، کڑواہٹ اور ترش سے بھرپور ذہنوں کا فتور گھر گھر دستک دیے جنم لینے والے لفظوں کو جنم لینے سے قبل ہی موت کا پیغام دینے میں مشغول پائے گئے۔ جو ابھی احساس کی کوکھ سے خیال کے ذریعے مجسم ہو رہے تھے ۔ فتور کا زہر دے کر پہلا سانس بھی نہ لینے دیا گیا۔ ان کے چہرے اذیت کی لہر اور بیگانے پن کا لبادہ لیے ہاتھوں میں سیاہ کشکول وحشت کے دیے جلائے تخلیق کی گود اور کوکھ کو زہر آلودہ کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بانجھ پن کا زہر ایک وبا کو جنم دے کر ہمیشہ کے لیے تخلیق کی کوکھ کو منجمد کر دیا ہے۔ صرف گوشت کا لوتھڑا باقی ہے پر اندر سیاہ بادل خمیہ زن ہوئے لمبی زبانوں کو صرف جگالی کروانے کا فن سیکھا رہے ہیں جن پر صرف گونگے لفظ باقی ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply