دور حاضر کے ادیب اور مزاحمتی ادب۔۔صائمہ جعفری

ایک اچھے ادیب کا کام اپنے اردگرد کے حالات کا مشاہدہ کرنا اور معاشرتی تضادات کو عوام  کے سامنے لانا ہے جن سے یا تو وہ لا علم ہیں یا جنہیں وہ نظرانداز کرتے ہیں ۔ ایک با شعور ادیب سوالات اٹھاتا ہے، اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے اس کا جواب تلاش کرتا ہے ۔ایک اچھے ادیب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے خیالات، حالات اور واقعات کی تشریح کرکے اسے پڑھنے والوں کے لئے آسان بناتا ہے ۔جو عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔

یاد رہے کہ ایک اچھا اور سچا ادیب عوام کو عمل پر مجبور کرتا ہے ۔ وہ نہ  صرف زندگی کی تلخیوں کو بیان کرتا ہے بلکہ  ان سے لڑنے کی ہمت اور حوصلہ لوگوں میں اجاگر کرتا ہے ۔
ایک ادیب کے خیالات جتنے وسیع  ہوں گے ،اس کی تحریر اتنی ہی جاندار ہوگی خواہ اس کی ساخت کچھ بھی ہو، نثر ، نظم یا کالم وغیرہ ۔ ہر دور کی اپنی خصوصیت ہوتی ہیں جن کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ادیب کا شعور پروان چڑھتا ہے ۔ انسانی شعور کو معروضی حالات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

تاریخ  گواہ ہے کہ  مثبت تحریروں نے اقوام کی تاریخ بدل کر رکھ دی جبکہ  ناقص تحریروں نے عوام کو اُلجھا کے رکھ دیا ۔

اب آجائیں ایک نظر آج کل کے لکھاریوں جنہیں ادیب کہنا مناسب نہیں ہوگا ،پر ڈالیں ۔ جدید دور کے بیشتر لکھاری ساتھ موضوعات پر ہلکے پھلکے تبصرے کرتے ہیں جو عوام میں جلد مقبول بھی ہو جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں رسول بخش پلیجو صاحب  نے کیا خوب فرمایا کہ  گھٹیا  سوچ اور رویوں کی نشاندہی کرنا بھی مزاحمت ہے ۔ افسوس کہ  آج کل کے لکھاریوں کے پاس نہ  تو سوچ ہے، نہ فکر اور نہ ہی وہ سماجی عزائم ہیں جو مزاحمتی ادب تخلیق کرتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر تحریر خواہ وہ انتہائی اعلیٰ  درجے کی ہو ،یا اوچھی اور گری ہوئی، اس کے پیچھے کوئی نہ  کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، اچھا لکھاری اعلیٰ  مقاصد کے لئے لکھتا ہے جبکہ  ساتھ لکھاری سستی شہرت کے لئے یا وقت گزاری کے لئے لکھتا ہے ۔ آج کل کے لکھاری مزاحمتی ادب سے دور اس لئے ہیں کیونکہ  ان میں تنقیدی شعور کی کمی ہے ۔ مثبت تنقید کے لئے غیر جانبداری کا ہونا ضروری ہے، جو آج کل نا پید ہے۔ ہماری اجتماعی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہم نے شکایتی کلچر کو جنم دیا ہے جہاں ہر شخص  دوسرے سے ناراض اور نالاں ہے مگر ان ناراضگیوں کی نوعیت ذاتی ہے نہ کہ نظریاتی ۔ شکایتی کلچر میں رہنے کی وجہ سے زیادہ تر لکھاری تنقید کرنے سے گھبراتے ہیں کہ  کہیں معاشرے میں ان کے تعلقات خراب نہ  ہوں اور وہ با اثر افراد کی گڈ ول میں سے خارج نہ ہو جائیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن  کی وجہ سے ہمارے پاس عوام دوست ، لبرل اور مزاحمتی اداب ناپید ہو تا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply