• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتے نفرت انگیز بیانیے/ثاقب لقمان قریشی

سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلتے نفرت انگیز بیانیے/ثاقب لقمان قریشی

میں نے 2008ء میں فیس بک پر پہلا اکاؤنٹ بنایا تھا۔ 2012ء تک ہم لوگ اپنی تصاویر، لطیفے، احادیث وغیرہ اس پر شیئر کر دیتے تھے۔ 2012ء میں ایک سیاسی جماعت کا نفرت آمیز بیانیئے کے ساتھ ظہور ہوا۔ اس کے بعد ہنسی مذاق، پیار محبت کی جگہ گالم گلوچ نے لے لی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ نفرت کے اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ اور قوتیں بھی سرگرم ہونا شروع ہوئیں۔ جنھوں نے نفرت کے کچھ نئے بیانیوں کو فروغ دینا شروع کیا۔
نفرت آمیز بنانیئے کو انسانیت کی بھلائی، تبدیلی، آزادی رائے وغیرہ کہہ کر فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ بنانیہ سب سے پہلے پڑھے لکھے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ عام لوگ ان پڑھے لکھے لوگوں سے متاثر ہوکر اس کا حصہ بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی تعداد جب بڑھ جاتی ہے۔ پھر اسے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
2018ء سے سوشل میڈیا پر کچھ لوگ نمودار ہونا شروع ہوئے۔ جنھوں نے دین اسلام کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان میں سے ذیادہ تر اپنے آپ کو بیرون ملک مقیم پاکستانی ظاہر کرتے تھے۔ ذیادہ تر لوگ عمر رسیدہ تھے۔ حیران کن طور پر سب کی اردو نہایت اعلٰی تھی۔ اسکی وجہ شائد یہ تھی کہ اردو میں کی گئی بات ذیادہ لوگ سمجھ سکتے تھے۔ ان لوگوں نے آہستہ آہستہ مذہب کے خلاف بنانیئے کو فروغ دینا شروع کیا۔ ان لوگوں کو سپورٹ دینے کیلئے ہر دو ماہ بعد مدرسوں میں بچوں سے جنسی ذیادتی کے واقعات سامنے لائے جاتے۔ اوپر نیچے ایسے واقعات کی بھر مار ہو جاتی۔ جو نفرت کے اس بیانیئے کے مزید فروغ کا باعث بنتے۔ جنسی ذیادتی کے ان واقعات کو سپورٹ تو نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مذہب کے خلاف نفرت کے اس بنانیئے کی کامیابی کے بعد سے یہ واقعات غائب ہوگئے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے۔
مزے کی بات یہ بھی ہے۔ اپنے آپ کو امن پسند ملحد ظاہر کرنے والے یہ لوگ صرف اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے ہونے والی ذیادتی پر خوب شور مچاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ میانمار، انڈیا اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والی ذیادتیوں پر جب میں نے انکے اکاونٹس میں خاموشی دیکھی تو میں سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ نفرت کا یہ بیانیہ آج اتنا مقبول ہوچکا ہے۔ جو شخص دین کا جتنا بہترین مذاق اڑاتا ہے۔ اتنا بڑا لبرل کہلاتا ہے۔
ایک طرف مذہب کے خلاف نفرت کا یہ بیانیہ فروغ پا رہا تھا۔ دوسری طرف انجینئر صاحب نمودار ہوئے۔ جنھوں نے تمام فرقوں کے علماء سے ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ چند روز قبل میں نے انجینئر صاحب کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں وہ فرما رہے تھے جب تک وہ آخری فرقہ پرست مولوی کو قبر میں نہیں اتار دیتے آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ سوال یہ ہے آپ کون ہوتے ہیں کسی کو قبر میں اتارنے والے؟
میرے چھوٹے بھائی صاحب جنھیں ہم علم کا خزانہ کہتے ہیں وہ بھی انجینئر صاحب کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک روز کہنے لگے کہ انجینئر صاحب فرقوں پر درست سوالات اٹھاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کیا ہمارے ملک اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز یہی ہیں جو کہ انجینئر صاحب فرما رہے ہیں۔ اوئے توئے اور دوسروں کو قبر میں اتارنے والا کیسے کسی کو سیدھا راستہ دکھا سکتا ہے۔ انجینئر کے فالوورز اگر فرقوں پر جملے کستے ہیں اور انکے ماننے والے ان سے لڑتے ہیں۔ اس سے دین کی کیا خدمت ہوئی؟
میری نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ وہ بیانیہ جو آپ کو کسی مذہب، فرقے، قوم، رنگ و نسل کے خلاف نفرت پر اکساتا ہے شدت پسند بیانیہ ہے۔ ایسی باتوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اپنی پڑھائی اور اپنے کام پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر کی چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اگر کوئی اچھا شوق یا عادت اپنا رکھا ہے تو اسے نکھارنے سے جڑ جائیں۔ پھر وقت بچ جاتا ہے تو اپنے ہاتھوں سے اردگر کے ضرورت مند لوگوں یا پھر ماحول کی خدمت کریں۔ اپنے ملک سے، اس کی مٹی، اس میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں، اس کے ماحول سے پیار کرنا سیکھیں۔
آجکل کے لوگ اپنی ذات کو کسی بیانیئے سے جوڑ لیتے ہیں پھر اسی کے ساتھ جڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔ میرے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ چند برس قبل میرے پاس ایک طرف دیسی علماء، دوسری طرف دیسی لبرلز اور تیسری طرف گوہر تاج کا انسان دوستی کا بیانیہ تھا۔ میں نے شدت پسندی کے بیانیئے پر توجہ نہ دی اور انسان دوستی کی مہم کا حصہ بن گیا۔
ساڑھے تین سال کے مختصر سے وقت میں، میں نے معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق کی آواز بننے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ ساتھ میں نے خواتین، مزدوروں اور اقلیتیوں کے حقوق پر بھی قلم آزمائی کی۔ خواجہ سراء اور معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے آج جتنی بھی آگہی ہے۔ اس میں ہماری تحریروں کا اہم ترین کردار رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply