12اکتبور 1999اور اس کی یادیں ۔۔زین سہیل وارثی

12 اکتوبر 1999 ویسے تو پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے، لیکن یہ دن ہمارے ذہن پر ان گنت نقوش چھوڑ کر گیا۔ اس دن نے مجھے سیاسی سوچ دی جو اب تک میرے ساتھ ہے اور مرنے تک رہے گی۔ شکریہ جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کے رفقاء کا جنھوں نے میرے ذہن کو سیاسی طور پر اتنا پختہ کیا کہ میں آئین کو اس ملک کی سب سے مقدس دستاویز سمجھنے لگا۔

اس دن کی روداد یہ ہے کہ ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، مارشل لاء کا نام نہیں سنا تھا، البتہ ان دنوں پی ٹی وی ہی واحد ٹیلیویژن چینل تھا۔ اس پر شام 5 بجے خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت ہم نے خبر سنی کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو برطرف کر دیا گیا ہے اور فوج کی کمان جنرل ضیاء الدین بٹ کو دے دی گئی ہے۔ یہ خبر ایک سے دو بار نشر کی گئی۔ اس کے بعد نشریات منقطع ہو گئیں۔ عوام الناس کو یہ پتا چل گیا کہ کچھ بڑا معاملہ ہو گیا ہے، تبھی نشریات معطل ہوئی ہیں۔ کچھ دیر بعد پی ٹی وی پر ملی نغمے چلنا شروع ہو گئے۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ ہمارا من پسند ڈرامہ ابھی 8 بجے لگ جائے گا، لیکن ہمارا انتظار رائیگاں گیا۔ طرفہ  تماشا کہ رات 9 بجے کا خبرنامہ بھی نشر نہ  ہوا۔ اب ہم نے گلی محلہ اور بازار میں خبریں تلاش کرنے کی کوشش کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ملک کی باگ دوڑ فوج نے سنبھال لی ہے اور وزیراعظم نواز شریف صاحب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتاری کے بعد کے نتائج زبان زد عام تھے کہ جس طرح بھٹو مرحوم کو پھانسی دے دی گئی تھی، اسی طرح جناب نواز شریف بھی اب چند دنوں کے مہمان ہیں۔ کیونکہ نواز شریف نے بھی بھٹو والی غلطی کی ہے، کہ میرٹ کا گلا گھونٹ کر مشرف صاحب کو جنرل بنایا اس لئے اب انکا مقدر پھانسی ہی ہے۔

گھر پہنچ کر ہم   خوش تھے کہ ملک میں ہنگامی صورتحال ہے، اس لئے کل سکول سے چھٹی ہو جائے گی، رات 11 بجے تک ہم اپنے سپہ سالار کی تقریر کا انتظار کرتے رہے، سپہ سار اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ تقریر انھوں نے رات دو بجے ریکارڈ کروائی۔ اس کے بعد جناب نواز شریف پر طیارہ سازش کیس چلا جس کی عدالتی کاروائی کراچی میں ہوتی رہی، پی ٹی وی پر مختصر دورانیہ کی فوٹیج چلا کرتی تھی، جس میں عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو بکتر بند گاڑی میں مجرم کے طور پر لایا جاتا تھا۔ ان پر مقدمہ کو طیارہ اغوا سازش سے زیادہ قتل کا مقدمہ ثابت کیا جاتا تھا۔

مسلم لیگ ن کے تمام سیاسی رہنماؤں و کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، 17 اکتوبر کو مشرف صاحب نے 7 نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جس میں احتساب اولین ترجیح تھا، 1999 سے 2001 کے بلدیاتی انتخابات تک جتنا احتساب ہوا سب کے سامنے ہے، جس کی وفاداری بدل گئی اسکا احتساب ختم ہو گیا، جس کی نہ  بدلی اسکا احتساب کڑا ہو گیا۔ نوازشریف کی سزا معاف کر دی گئی اور مبینہ ڈیل کے طور پر انکو سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف کے تمام رفقا جو اس کاروائی میں ملوث تھے انکے مشرف صاحب کے متعلق انٹرویو دیکھ لیں، تو اندازہ ہو جائے گا کہ مشرف صاحب نے مارشل لاء اپنی ذاتی خوشنودی کے لئے لگایا تھا۔ ان کے تمام رفقاء جن میں جنرل شاہد عزیز، کرنل اشفاق حسین، جنرل عزیز، جنرل محمود، جنرل مظفر عثمانی مرحوم سب ان کے اس اقدام سے بعد میں تائب ہو کر گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ جنرل شاہد عزیز تو یہاں تک کہتے تھے کہ مجھے اتنا تنگ مت کرو کہ سب کے کچے چٹھے کھول دوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دن سے سبق کیا سیکھا گیا، اس کا جواب فی الحال یہ ہے کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، جسے ہر طاقتور کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینک سکتا ہے، اس طاقتور کی شکل بدلتی رہتی ہے، کبھی مولوی فضل اللہ، کبھی صوفی محمد، کبھی سیاستدان، اور کبھی آمر۔ ہمارے بڑوں نے یہ دستور کی دستاویز جسے متفقہ طور پر 1973 میں منظور کیا تھا، طاقت میں رہتے ہوئے کبھی اس پر عملدرآمد نہیں کیا، چاہے بیوروکریٹ ہو، جج ہو، سیاستدان ہو، جنرل ہو، ذاکر یا مولوی ہو، ان سب کو آئین کے تقدس کا خیال طاقت کھونے کے بعد ہوتا ہے۔ امید ہے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کو بھی حکومت سے باہر نکل کر آئین کی اہمیت کا احساس ہو جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply