موتیے کا ہار۔۔سیّد مہدی بخاری

پنجاب یونیورسٹی چوک میں موتیے کے ہار بیچنے والے نے گاڑی کا شیشہ زور سے بجایا تو میرا دھیان نہ جانے کہاں سے ٹوٹا۔ پہلے پہل تو مجھے اس حرکت پر غصہ آیا مگر پھر اسے دیکھا تو دوسری ہی سانس میں غصہ رفو ہو گیا۔ یہ ایک نوجوان سا لڑکا تھا۔
لے لو صاحب، موتیے کے گجرے لے لو، ہار لے لو۔۔۔
تم ویسے ہی پیسے رکھ لو موتیے کے گجرے نہیں چاہیئں ۔۔۔
نہیں صاحب۔ بھیک نہیں مانگتا۔ گجرے لو تو پیسے لوں گا۔ بیگم صاحبہ کو دے دو صاحب۔ (اس نے برابر والی سیٹ پر بیٹھی میری بیگم کی طرف اشارہ کیا)
اچھا لاؤ  دو۔۔۔
دو گجرے لے کر چلا تو بیگم بولی ” آج تو آپ نے کمال کر دیا، میرے لئے موتیے کے گجرے شاہ صاحب۔۔۔ اب گھر جا کر یہ نہ کہیے گا کہ میری انارکلی رقص پیش کیا جائے”۔

بیگم خوش ہو گئی، گجرے بیچنے والا بھی قدرے خوش ہو گیا مگر میرا دھیان پھر اس پھول بیچنے والے لڑکے کی طرف چلا گیا جو ایک شام کراچی میں مل گیا تھا اور جس سے ملنے کے بعد میں نے سڑکوں و چوراہوں پر پھول بیچنے والوں کو کبھی تلخ لہجے سے انکار نہیں کیا، بلکہ بنا پھول لیے ان کو دام ادا کر دیتا ہوں۔

شام میں کراچی کی ٹھنڈی ٹھنڈی ساحلی ہوا بہت دل لُبھا رہی تھی۔ میں گھومتا گھماتا گھر یعنی اپنے سسرال لوٹ رہا تھا۔میں مزار قائد کی طرف سے یونیورسٹی روڈ کی طرف جارہا تھا۔ جب جیل چورنگی پہنچا تو سڑک اور چوراہے پہ گاڑیاں تو کم تھیں مگر آگے کسی موٹر سائیکل سوار کو حادثہ پیش آچکا تھا۔ اُس وجہ سے ٹریفک جام تھا۔

اسی دوران ایک کم عمر ، پتلے دُبلے اور سانولے لڑکے نے میری کھڑی گاڑی کی کھلی کھڑکی میں جھانکا ۔ عمر ہو گی اُس کی یہی پندرہ سولہ برس۔ سفید ململ کا کلی دار کُرتا اور شلوار پہنے  ہوئے تھا۔
“پھول لے لو۔” اس نے سُرخ اور سفید گلابوں کا ایک چھوٹا سا گلدستہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ اس کے ہاتھ میں چار پانچ اور گُلدستے بھی نظر آرہے تھے۔
“نہیں” میں نے گردن ہلا کر صاف انکار کیا۔
“لے لیں صاحب۔۔۔” اس نے اصرار کیا۔
“نہیں” میرا لہجہ تھوڑا سا سخت اور شاید آواز ذرا سی اونچی ہو گئی تھی۔
“مرضی ہے جی۔۔۔” اس نے کہا اور آگے بڑھ گیا مگر وہ آگے کیا بڑھا کہ قیامت ڈھا گیا۔میری گاڑی جہاں کھڑی تھی، اس کے برابر دو رویہ سڑک میں حدِ تقسیم کے لیے پتلی سی فٹ پاتھ تھی۔ وہ گلدستہ فروش لڑکا کچھ ایسا اُداس ہوا کہ جب پلٹا تو گنگناتا ہوا آگے بڑھا اور فٹ پاتھ پہ جا کھڑا ہوا۔

وہ خوش گُلو بدستور گنگنا رہا تھا۔ اُس کے گنگنانے کی لَے اتنی اونچی تھی کہ میں گاڑی کے اندر بیٹھا بھی سُن رہا تھا۔ کسی پھول بیچتے لڑکے کی آواز اتنی پُرسوز بھی ہو سکتی ہے اس سے قبل کبھی نہ دیکھا سنا  تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا، فوراً گاڑی سائیڈ پر لگائی اور دروازہ کھول کر نیچے اُترا۔

“اے سنو۔۔۔ گلدستہ بیچو گے؟ ” میں نے اس کے قریب جا کر کہا۔ وہ چونکا۔ اس کا گنگنانا بند ہوچکا تھا۔

“کیوں۔۔” اس کی آنکھوں میں حیرانی اور لہجے میں انا صاف جھلک رہی تھی۔ “ابھی تو آپ نے۔۔۔” میں نے قطع کلامی کرتے ہوئے جملہ مکمل کر دیا “انکار کردیا تھا، یہی کہنا چاہ رہے ہو ناں ؟ ”

اس نے کچھ نہ کہا، خاموشی سے ایک گلدستہ آگے بڑھا دیا۔ “سارے دے دو۔” میں نے یہ کہتے ہوئے بٹوے میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔

” میرے پاس ٹوٹے روپے نہیں ہیں ” اس نے نوٹ کی طرف ہاتھ بڑھانے کے بجائے شائستہ لہجے میں جواب دیا۔ یہ سن کر میں نے کہا۔ “مجھے بقایا کی ضرورت نہیں، بس ایک سوال کا جواب دے دو۔”

اس نے چند لمحے حیرانی سے مجھے دیکھا اور پھر توقف کے بعد کہنے لگا۔ “جی کہیے۔۔۔”
“ابّا کہاں کے ہیں؟” یہ سن کر فوراً بولا۔ “یہیں کے جی، کراچی کے۔۔۔”

میں نے پھر اپنا سوال دہرایا ذرا بدل کر۔ “میرا مطلب کہ اس سے پہلے۔۔۔” وہ کچھ ہچکچایا اور پھر جواب دیا۔ “یو-پی (اتر پردیش) ” یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیے رکا۔ “وہ تو یہی بتاتے ہیں”
“جو اشعار ابھی تم گنگنا رہے تھے، وہ کس سے سنے؟”
“ابّا سے، انہیں شاعری کا بہت شوق ہے۔ ان سے کئی بار سنا، مجھے اچھا لگا، اب تو یاد ہو چکا ہے”
“ضرور ہونا چاہیے تھا یوپی کے جو ہیں مگر سنو۔۔۔” میں نے اس لڑکے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
” کہیئے۔۔” وہ چونکا۔ اس کی آنکھیں سوالیہ انداز میں تھوڑا سا پھیل گئی تھیں۔ “یہ اشعار آئندہ نہ پڑھنا۔ ابّا پڑھتے ہیں تو انہیں پڑھنے دو”
“مگر کیوں؟” اس کی آنکھوں، چہرے اور لہجے میں سوال تھا۔
“اس لیے کہ تمہارے واسطے یہ بہت بعد کے شعر ہیں، تم انہیں وقت سے پہلے پڑھ رہے ہو، یہ تمہاری عمر نہیں۔” میری بات سن کر اس نے کچھ نہیں کہا۔ خاموشی سے ہاتھ آگے بڑھایا۔ میرے ہاتھ سے گلدستے واپس لئے، پیٹھ موڑی اور پھر گنگنانے لگا

“جس روز ہمارا کُوچ ہوگا ۔۔۔ پھولوں کی دُکانیں بند ہوں گی ”

ہزار کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھا۔ ٹریفک کھل چکا تھا۔ میرے لئے پھولوں کا سودا ناممکن تھا۔ دُکان تھی، دُکان دار بھی تھا، گاہک بھی اور پیسے بھی مگر میرے لئے اس کے پھولوں کی دُکان بند تھی۔وہ جا چکا تھا۔ میں پلٹا اور ہجوم میں اجنبی بن کر اس سمت بڑھنے لگا جہاں گاڑی کھڑی تھی۔

اب کیا کہوں کہ کوئی جا کر افتخار عارف سے پوچھے کہ بھیا یہ شعر کیوں کہے تھے۔ جواب میں ان کی آنکھوں سے نمی ضرور جھلکے گی۔ میں تو اتنا جان سکا کہ پھولوں کی دُکانیں نہ بند ہوں گی۔ انمول اشعار کے دلفریب مہک والے پھول، ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہو چکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی
شیریں سخنوں کے حرف دشنام
بے مہر زبانیں بند ہوں گی
پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا
یادوں کا سراغ تک نہ ہو گا
ہمواری ء ہر نفس سلامت
دل پر کوئی داغ تک نہ ہو گا
پامالیِ خواب کی کہانی
کہنے کو چراغ تک نہ ہو گا
معبود ! اس آخری سفر میں
تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا
جس آنکھ نے عمر بھر رلایا
اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply