وقت اور خدا۔۔۔۔جبرا ن عباسی

وقت بھی خداکا ایک روپ ہے ، گھڑی نے اسے اگرچہ منٹ  سیکنڈوں تک قید کر لیا ہے ۔ مگر یہ دن رات ، ہفتہ ، مہینہ ، سال و صدیاں محض ایک انسانی پرسپیشن ہیں ۔ کہہ  لیجیے دھوکہ ہیں ۔

دیکھا جائے تو اس کا کوئی وجود نہیں ، صرف حال ہی حال ہے ، تخلیق کائنات سے لے کر آفرنیش انسانی نسل اور آج کی اس صدی و لمحہ حال تک زمانہ حال چل رہا ہے ۔ ماضی و مستقبل انسانی پرسیپشن ہیں ان کا کوئی وجود نہیں  ، حال ہی حال ہے ۔

خدا کے وجود کا تصور کیوں زوال پذیر نہیں  ہو رہا ، خدا صرف حال میں ہے ، اس کا کوئی ماضی نہیں رہا ،نہ کوئی مستقبل ہو گا ۔ کوی نہیں  کہہ  سکتا وہ (خدا) ایسے خدو خال رکھتا تھا اور یا وہ ایسے خدو خال کا مالک ہو گا ۔

جیسے اقتصادیات ہمیشہ براہ راست انسان کی ذہنی صحت و نشو نما کو متاثر کرتی رہیں ، ایک صوفی نے کہا تھا ’’چھٹا رکن روٹی ہے‘‘۔ مارکس نے ثابت کیا دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں ہوئیں ، واقعات و انقلاب آئے وہ معاشی حالات کی پیداوار تھے ۔

ایسے ہی وقت  میں خدا کی ہیت اور عوامی کانسپٹ بھی تبدیل ہوتا رہا ہے جیسا کہ زراعت کے زمانوں میں زرخیزی ، بارشوں اور فصلوں کے دیوی دیوتا با اثر و رسوخ تھے ، جب کچھ خاندان چالاکیوں اور سفاکیوں سے امیر اور خوشحال ہونے لگے تو اب فن ، ادب اور رومانس کے دیوی دیوتا کا شمار ہونے لگا ۔ یونانیوں اور ہندووں کی متھالوجی میں تاریخ دانوں اور ارتقا دانوں نے اس حقیقت کو باقاعدہ دریافت کر رکھا ہے ۔

اگر وقت صرف حال ہے ماضی اور مستقبل نہیں  تو انسان یا ہر جاندار کیوں ہمیشہ پہلے پیدا ہوتا ہے پھر مرتا ہے ، انسان کیوں نہیں  خدا جیسی امر ہونے کی صفات رکھتا ہے ۔ انسان کا جسم مادہ ہے ، مخلتف سکالرز کا خیال ہے مادہ کبھی فنا نہیں  ہوتا بلکہ اپنے خدوخال تبدیل کرتا ہے جیسا کہ پلاسٹک ، لوہا وغیرہ جو کسی بھی سانچے میں ڈھل جاتا ہے ۔

ایسے ہی انسانی مادہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جیسے مردہ انسان کا بدن زمین میں بکھر جاتا ہے ۔ پھر وہ بیجوں کا حصہ بن  جاتا ہے ، خوراک کی صورت میں مرد اور عورت کو توانائی بخشتا ہے اور نسل انسانی کی پیداوار و افزائش میں کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ کوئی مکمل تصویر نہیں ، جزو ہے۔

اصل عنصر دو ہیں روح اور زندگی ، روح بھی ہمیشہ حال میں رہتی ہے جیسا کہ وہ کبھی فنا نہیں  ہو گی ، مگر اہم اس سے زندگی ہے جسے ہم اور آپ محسوس کر سکتے ہیں ، انسان فنا ہو رہے ہیں ، مر کھپ رہے ہیں مگر زندگی کو اس سے کوئی خطرہ نہیں  ۔ زندگی بھی امر ہے ۔ روح اور زندگی کسی لمبی نامعلوم منزل کی مسافر ہیں ۔ بدن ایک سانچہ ہے جہاں روح اور زندگی قید ہیں۔

موجودہ زمانے میں خدا کس خدو خال کا حامل ہے ۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، ٹیکنالوجیکل ٹرانسفرمیشن ، صنعتی خالصتاً مادہ پرستی کے دور میں ہم انسان خدا کے بارے میں کیسا رویہ رکھ رہے ہیں ؟۔کچھ طبقے بالکل انکاری ہیں ان کو اس بحث میں   لانا فضول ہے۔ خدا کے ساتھ ایک اور کانسیپٹ” خوف “ہمیشہ منسلک رہا ہے اگر بارشوں کا دیوتا اندرا ناراض ہو گیا یا تو شدید طوفان بھیجے کا یا خشک سالی ہو گی ۔

اب کے زمانوں کے خدا کے ساتھ جہنم کا خوف منسلک ہے ۔ مذہبی صحیفوں نے اگرچہ خدا کی صلہ رحمی کی ضمانت دے رکھی ہے مگر خوف کا عنصر بدستور غالب ہے اس کی ایک بڑی وجہ مذہبی طبقہ کی طرف سے ہر وقت جہنم کا پروپیگنڈہ کرتے رہنا ہے ۔ یہ خدا کٹیگرائز بھی ہے امیر کا خدا صدقہ ، زکوۃ ، حج اور پیسہ خرچ کرنے سے خوش رہتا ہے جبکہ غریب کا خدا اخلاقیات کی پاسداری ، ہر وقت گناہ کے خوف میں مبتلا رہنے ، مقدر یعنی غربت کو بھگتنے ، اور خدا کی عظمت کے ’’ لفظی ‘‘ قصے سنانے سے خوش رہتا ہے ۔ یہ معیارات زمانوں ، واقعات و انقلابات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔

اگرچہ یہ انکار ممکن نہیں  کہ خدا کا کوئی وجود نہیں  ، خدا اپنے وجود کا ہر وقت احساس دلاتا ہے ، اس نے ہم کو قدرت کے باریک مگر پیچیدہ معاملات میں الجھا رکھا ہے ۔ قادر مطلق کی ذات کی سمجھ اس انسان کے ذہن میں کہاں سما سکتی ہے جب ایک انسان اپنے دماغ کا محض پانچ فیصد استعمال کرتا ہو ۔ کائنات کا نظام ’’ اسباب و اثرات‘‘ کے فارمولے پر چل رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اخلاقیات مذہبی نوعیت   کی کسی بھی معاشرے میں کامیاب نہیں  ہیں کیونکہ معاشرے ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، اس تبدیلی کا سبب اقتصادیات ، سیاسیات اور کلچر میں ترقی آنا ہوتا ہے ۔ جیسے تصورِ خدا ہر قوم سے لے کر ہر جغرافیہ اور ہر ذہن اور ہر دور میں مختلف ہوتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ایک اور عمل جاری ہے ارتقا کا ۔ ارتقا یعنی وقت کے ساتھ ساتھ بہتری۔ وقت اور ارتقا لازم و ملزوم ہیں ۔ ہر انسان کو محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ ’’ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کر رہا ہے کہ نہیں ‘‘۔

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply