فروزن کھانوں کے ذائقے ۔ سائنس سے بزنس – وہارا امباکر

آج سے سو سال قبل کلارنس برڈزآئی نے اپنے خاندان سمیت انتہائی سرد ٹندڈرا کے علاقے لیبراڈور میں رہائش اختیار کی۔ ہر چیز سرد لیکن مقامی انیوٹ کی طرح برڈزآئی نے بھی زندگی گزارنا سیکھ کیا۔ برف میں سوراخ کر کے جب ٹراؤٹ مچھلی پکڑی جاتی تھی تو نکلنے کے ساتھ چند سیکنڈ میں یہ جم جاتی۔ اس کا ذائقہ مزیدار رہتا اور یہ دوسرے جمے ہوئے کھانوں کی طرح بد ذائقہ نہیں ہوتی تھی۔ اس فرق نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ایسا کیوں؟ یہ مچھلی کئی مہینوں تک ذائقہ برقرار رکھتی تھی۔ برڈزآئی نے یہ تجربہ سبزیوں اور پھلوں پر کرنا شروع کیا۔ جن چیزوں کو انتہائی سردی میں جمایا جاتا تھا، وہ ذائقہ بہتر رکھتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مائیکروسکوپ کے نیچے جب ان کا تجزیہ کیا تو ایک چیز نظر آئی۔ یہ فرق برف کے کرسٹلز کا تھا۔ جن میں یہ کرسٹل بڑے سائز کے تھے، وہ بد ذائقہ ہو رہے تھے۔ یہ بڑے کرسٹل کھانے کے مالیکیولر سٹرکچر کو توڑتے تھے۔ برڈ آئی کو اس کی توجیہہ پتا لگی کہ آہستہ ہونے والی فریزنگ برف کے ہائیڈروجن بانڈ کو بڑی کرسٹل کی شکلوں میں بناتی تھی جبکہ تیزی سے ہونے والا فریز ان کو بہت چھوٹے کرسٹلز میں، جو کھانے کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ عمل فلیش فریز کا ہے جو آج فروزن کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مقامی مچھیرے اگرچہ صدیوں سے یہ دیکھتے آئے تھے لیکن ان کو کرسٹل یا مالیکیول کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ تحقیق نہیں کر سکتے تھے۔
اس وقت کے فروزن کھانے اس قدر بد ذائقہ تھے کہ نیویارک میں ان کی جیل کے قیدیوں کو کھلانے پر بھی پابندی لگ گئی تھی۔ برڈزآئی نے اپنے تجربات جاری رکھے اور اس طریقے سے فریز کرنے کے لئے ڈبل بیلٹ فریزر ایجاد کر لیا۔ اس کی بنائی ہوئی کمپنی جنرل سی فوڈ تھی، جسے آج ہم جنرل فوڈز کے نام سے جانتے ہیں۔ برڈزآئی نے دنیا کی ایک بڑی کھانوں کی صنعت کا آغاز کیا اور آج بھی برڈزآئی کا نام فروزن فش فلے کے پیکٹس پر موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply