مجنون۔۔سیدمصطفین کاظمی

ظریف میاں صاحب  نرم دل آدمی ہونے کیساتھ ساتھ سادہ دل انسان ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پے کبھی کبھار دنوں تک اپنا خون جگر کیے رہتے ہیں۔کتنی بار کہا بھی ہے کہ میاں اخبارات اور خاص کر ٹی وی چینلوں پر سرشام چلنے والی نوٹنکی سے بہتر ہے پکوان چینل دیکھا کرو اللہ بھلا کرے اس چینل کے باورچی بھول کر بھی ملکی یا غیر ملکی حالات پر کوئی بات نہیں کرتے۔ کوئی طوفان آئے یا بم پھوٹ رہے ہوں ان بچاروں کی ساری توجہ شگفتہ اور نسرین کو نیا پکوان سکھانے پر مرکوز رہتی ہے۔ سو میرا خیال ہے کہ یہ چینل ظریف میاں کی صحت و سلامتی کیلئے انتہائی موزوں ثابت ہو گا۔

ابھی کل ہی کی  بات ہے کہ ملکی افواج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ بلکہ یوں کہیے کہ تقریباًًً سارے ملک کے تعلقات عامہ و خاصہ کے حقیقی سربراہ قبلہ اعلیٰ حضرت نے صحافی کہلانے والے طبقے کے رتنوں کو مدعوع کیا اور ایک تاریخ شکن و پر وقار خطاب ان کی سماعتوں کی نظر کیا ۔اب یہ سارا معاملہ بڑے میاں اور ان کے چاہنے والوں کے مابین تھا لیکن حسب عادت اس قضیے کی بو ظریف میاں کے ناک چڑھ  گئی  اور چڑھی بھی کیا گویا ڈسے ہوئے بیٹھے ہیں فشار خون اس قدر بلند کہ فوارہ بن کے ابلنے کو ہے۔ پوچھا ،میاں کیا ہوا۔۔ کہا انداز میں تکبر تھا ۔۔میں نے کہا میاں تم کیوں باولے ہوئے جاتے ہو تمہارا کیا لینا دینا۔اب لگے حوالے دینے  متن  آمریت پسندانہ سوچ کا عکاس تھا ۔میں کہا میاں تم پہلے ہی بیمار رہتے ہو  اور اگر کہیں ناگہانی موت مر گئے کو بڑی بی کا کیا بنے گا خاندان کے اکلوتے چشم وچراغ ہو اپنا نہیں تو گھر والوں کا خیال کرو۔اب میں مناتا ہوں اور یہ ہیں کہ مان کے  نہیں دے رہے۔

چھوڑو بیٹا اچھا ہے اس مووے کو نامعلوم افراد اٹھا لے جاویں کام کا نہ کاج کا سارا دن اخبار اور ٹی وی سے چپکا رہتا ہے، بڑی بی نے پردے کے پیچھے سے چائے کی پیالی میری طرف بڑھاتے ہو کہا۔۔ نہیں خالہ۔۔ اللہ نہ کرے آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ اپنے ظریف میاں اچھے بھلے آدمی ہیں بس ذرا حساس طبیعت کے مالک ہیں۔میں تو کہتی ہوں سارا قصور اس کے ابا کا ہے میں  نے  کہا بھی تھا میرا ایک ہی بیٹا ہے اسے غربت افلاس،مزدور کسان، حاکم محکوم ، عدل انصاف و برابری کی کتابیں مت پڑھاؤ لیکن خدا رحمت کرے ان کے ابا مرتے مرتے بھی اپنا کام کر گیئے ۔ بڑی بی اور نجانے کیا بڑبڑاتی ہوئی  صحن کی طرف نکل گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں بھئ وہ تمہارے کبوتر کیسے ہیں میں نے بات بدلنے کی لا حاصل کوشش کی لیکن پھر سے ظریف میاں کی  ایک رگ چھڑ گئی  اور یہ جو لاپتہ افراد ہیں کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ ہیں۔۔تھے۔ہوتے ہونگے اپنی سوچوں میں گم میں نے لاپروائی سے جواب دیا۔پرسوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین صدر مملکت کے گھر کے باہر بیٹھے ہیں کوئی صدر صاحب تو کیا ان کے خانساماں تک نے نہیں پوچھا انہیں۔کیسے چلے گا یہ سب۔
لو نیا درد سر شروع ہو گیا  اور اب تو میری ساری کی ساری بردباری جواب دینے کو آ گئی۔ سنو میاں! اور غور سے سنو یہ جو ہوائیں چل رہی ہیں نہ ان میں آزادی اور جمہوریت کے بڑے بڑے افلاطون منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور تم نے اگر یہ روش نہ بدلی تو یا تو اٹھا لیے جاؤ گے یا پھر مار دیے جاؤ گے اور وہ جو تمھاری اماں ہیں نہ انہی لاپتہ افراد کے لواحقین کیساتھ کسی دھرنے میں بیٹھی بیٹھی مر جائیں گی۔بہتر ہے کبوتر اڑاؤ اور وقت گزارو باقی سب امن پسند بھی آجکل یہی کر رہے ہیں  اور ہاں پکوان چینل دیکھا کرو بس! باہر  نکلتے  ہوئے میں نے زور سے آواز دیتے ہوئے کہا۔

Facebook Comments

سیدمصطفین کاظمی
لوگوں نے گفتگو میں کریدا بہت ہمیں ۔ ہم خود سے ہمکلام تھے اکثر نہیں ملے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply