زمینی حقائق اور ہماری خواہشات/شاکر ظہیر

ایک حادثہ تھا جو گزر گیا اور کچھ پر گزر رہا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کیسے ہوا ، کیوں ہوا ، کس نے کیا ، کون کون ملوث تھا ، کس کو کس کی حمایت حاصل تھی ۔؟ زیرِ بحث اور توجہ طلب یہ ہے کہ نوجوان ایک جوش جذبے سے نکلے اور وہ انتہاء پر پہنچ گئے ، کیوں ؟ لوگوں میں یہ جذبہ جوش جنوں کوئی ایک دو دن میں پیدا نہیں ہو سکتا ، اس کےلیے ایک خاص بیانیہ ترتیب دینا پڑتا ہے اور اسے اس حد تک لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھایا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں ۔ میں اپنے علاقے میں ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جنہوں نے عمران خان کی گرفتاری پر رو رو کے بُرا حال کر لیا اور تین تین دن تک کھانا نہیں کھایا ۔ پھر عمران خان کی  رہائی پر صرف اس کے دیدار کےلیے لاہور کا سفر کیا اور ایک نظر دیکھ کر واپس آگئے ۔

یہ بیانیہ بنانا اور اسے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے میں کئی عوامل نے کام کیا ۔ ایک ایسی طلسماتی شخصیت ہوگی جو آئے گی اور بس آ کر دو چار دنوں میں سب کچھ ٹھیک کر دے گی ۔ ہمارے پاس دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ۔ ہم اتنی ترقی کر جائیں گے اور معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں گے کہ مغربی ممالک کے لوگ روزگار کےلیے ہمارے پاس آئیں گے ۔ یہ ان سب محرومیوں کا مداوا ہے جس کےلیے بنیاد سے کوشش نہیں کرنی بلکہ ایک طلسماتی شخصیت بس جادو کی چھڑی گھما کر سب ٹھیک کر دے گی ۔ اس طلسماتی شخصیت کے تصور نے ہمیں بحیثیت  قوم ناکارہ اور نکھٹو بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ہر دور میں اس بیانیے کو کیش کروانے والا کوئی نہ کوئی آ جاتا ہے اور ڈگڈگی بجانا شروع کر دیتا ہے اور ہم اس پر تماشا لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ ترقی اور نظام کی تبدیلی کا راستہ کٹھن اور لمبا ہوتا ہے جس کےلیے ہم کبھی تیار نہیں ہوتے ۔ درخت والد لگاتا ہے اور پھل اولاد کھاتی ہے ۔ جس نظام کو ہم سب تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس نے خود کو قائم کرنے کےلیے ایک لمبا سفر طے کیا ہے ۔ اب اسے تبدیل کرنے کےلیے اس سے بھی لمبے سفر کی ضرورت ہے جس میں دانشمندی ، سیاسی سوج بوجھ کی ضرورت ہے ۔ لیکن یہاں بس صبح سے شام نہیں ہونی چاہیے اور رزلٹ نکلنا شروع ہو جائے ۔ اللہ جانے ہم کب حقیقت کی دنیا میں رہنا سیکھیں گے ۔

یہ نظام جس میں ہر ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے کو تبدیل کرنے کی کوشش ہر دور میں ہوتی رہی ہے ۔ جس نواز شریف ، بینظیر مرحومہ کے خلاف ہم سب ہیں ، ان کا انٹرویو دیکھیں تو وہ بھی یہی کہہ  رہے ہیں کہ یہ ادارے ان حدود کے اندر رہیں جو آئین میں ان کےلیے مقرر کی گئی ہیں ۔ لیکن ان دونوں سیاست دانوں نے خود اپنی حدود سے تجاوز نہیں کیا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں ۔ باقی کے اختلافات اپنی جگہ لیکن وہ سیاست میں یہ بات جانتے تھے کہ جب بھی چوہدری کو ڈائریکٹ چیلنج کیا جائے گا اس کا اپنا بچاؤ کےلیے رد عمل انتہائی شدید ہو گا اور ہونا بھی چاہیے ۔ اس ڈائریکٹ چیلنج سے اپنے مخلص کارکنان کو کھو دینا لازم ہے جو انتہاء کے اقدامات کےلیے جان کی پرواہ کیے بغیر گھروں سے باہر نکل آتے ہیں ۔ اور کوشش کی ناکامی کے بعد مایوس ہو کر ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ باتیں ان سیاستدانوں نے بھی تجربات ہی سے سیکھی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس بات کی شدید خواہش ہے کہ ہماری قوم اپنے حقیقی زمینی حالات کو تسلیم کرکے بہتری کےلیے کوشش کرے ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ کوشش ہماری زندگی ہی میں پھل دے لیکن اس کوشش کے اثرات لازماً ہوں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply