ماں میری پیاری ماں۔۔عاصمہ حسن

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

ماں نے سب کچھ سکھا دیا لیکن یہ سکھانا بھول گئی کہ اس کے بعد کیسے جینا ہے ـ ماں ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا ـ ماں کو زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ وہ تو آنکھیں پڑھ لیتی ہے ـ بِنا کچھ کہے آپ کے  دل کی ہر بات جان جاتی ہے ـ حتٰی کہ فون پرآواز سن کر ہی پہچان جاتی ہے کہ اولاد پر کیا گزر رہی ہے ـ ماں کو اللہ تعالی نے اس جہاں میں بہت خاص بنا کر بھیجا ہے جو رب کے بعد سب سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہے ـ جس کی محبت بے لوث اور بے پناہ  ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ـ حیرت کی بات ہے کہ ماں جیسی بھی ہو اولاد کے لئے پوری کائنات میں سب سے خوبصورت ہوتی ہے اور سکون صرف ماں کی آغوش میں ہی ملتا ہے ـ۔

ہم الحمد اللہ چار بہن بھائی ہیں لیکن کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ امی نے کسی ایک کو خاص توجہ دی ہو یا کسی ایک کو نظر انداز کیا ہو ـ یکساں اپنی محبت کے رنگ ہماری زندگیوں میں شامل کئے ہیں ـ ماں وہ خوشبو ہے جو گھر کو مہکا دیتی ہے ـ ماں کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر ہی ایک عجیب طمانیت اور سکون کا احساس ہوتا ہے ـ دوستی تو پہلے ہی تھی لیکن ابو کی وفات کے بعد ہم چاروں بہن بھائی اپنی امی کے قریب تر ہو گئے ـ میری امی کی فلاسفی تھی کہ ماں اپنے بچوں کی بہترین دوست ہوتی ہے ـ یہی وجہ ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک ہمیں کبھی کسی اور دوست کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے لئے ہماری ماں موجود تھی جو ہماری ماں سے زیادہ ہماری سہیلی تھی ـ امی نے ماں ہونے کے ساتھ ساتھ باپ کا بھی کردار ادا کیا کیونکہ ابو زیادہ تر پردیس میں رہے اور اس طرح انھوں نے ہمیں زمانے کی گرم ‘ سرد ہوا سے اپنی محبت اور توجہ سے بچا لیا ـ۔

آجکل جو سب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کی بہتر تربیت کے لئے ماں باپ کا دوستانہ رویہ بہت اہمیت رکھتا ہے یہی بات میری امی کئی برس پہلے کہا کرتی تھیں کہ بچوں کے دوست بن جاؤ تاکہ ان کو کسی اور سہارے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ـ جب میری بیٹی اس دنیا میں آئی تب بھی امی نے یہی نصیحت کی کہ اپنے بچوں کے دوست بن جاؤ اور ہر بات شیئر کرو ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھو کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے دل کی ہر بات آپ سے کریں اور اس کی مثال انھوں نے خود اپنے عمل سے قائم کی تھی ـ۔

امی ساری زندگی صوم و صلوٰۃ کی پابند رہیں ـ امی بتاتی تھی کہ جب بڑے بھائی کا معلوم ہوا کہ وہ اس دنیا میں آنے والے ہیں تبھی سے انھوں نے تہجد اور صلوٰۃ التسبیح پڑھنا اپنا معمول بنا لیا اور بس پھر آخری سانس تک اس سلسلے کو ٹوٹنے نہ دیا حتٰی کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی انھوں نے کبھی اپنی نماز نہ چھوڑی’ کہتی تھیں کہ شاید یہ میرا آخری سجدہ ہو ـ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب امی ہسپتال میں داخل ہوئیں تب بھی تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی اور ان کو اس بات کی پریشانی تھی کہ وہ وضو سے نہیں ہیں ـ بے ہوشی کی حالت میں ان کی تسبیح ہاتھ سے چھوٹ گئی جیسے ہی ان کو ہوش آیا انھوں نے اپنی تسبیح کے بارے میں ہی استفسار کیا ـ اللہ تعالٰی سے ان کا تعلق بہت گہرا تھا ـ جتنی بھی پریشانیاں ‘ دکھ اور تکلیفیں آئیں انھوں نے ہمیشہ شکر کا کلمہ اپنی زبان سے ادا کیا ـ۔

عبادات کا یہ عالم تھا کہ جمعہ والے دن ہم میں سے کوئی بھی ان کو کال کرنے کی ہمت تک نہیں کرتا تھا نہ کسی کو اس دن گھر آنے کی اجازت ہوتی تھی ـ جمعہ کے دن کے خاص وظائف ہوتے تھے ـ اس کے علاوہ وہ عصر سے مغرب تک اعتکاف میں بیٹھتی تھیں اور اگر کسی روزمرہ کی مصروفیت کی وجہ سے کوئی ذکر رہ جاتا تو بہت پریشان ہوتیں اور موڈ سخت خراب ہوتا کہ میرا پڑھنے والا آج پورا نہیں ہوا ہے ـ۔

امی کبھی کوئی فیصلہ جلد بازی یا جذبات میں نہیں کرتی تھیں ان کے جیسی معاملہ فہمی ‘ سمجھداری ‘ دوراندیشی ہم بہن بھائیوں میں سے کسی میں نہیں آئی ـ امی بڑے سے بڑا فیصلہ ہم سب کی مشاورت سے کرتی اور بڑے تحمل مزاجی سے کرتیں ـ جب کسی بات پر ناراض ہوتیں تو خاموش ہو جاتیں پھر کچھ وقت کے بعد بڑے آرام اور پیار سے بات سمجھاتی ـ اگر ہم سوچیں تو حیرت ہوتی ہے کہ نہ جانے انھوں نے کیسے ان مشکل حالات میں ہم سب بہن بھائیوں کی تربیت کی ـ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب اعلیٰ  تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی زندگیوں میں کامیاب اور خوش ہیں ـ امی نے ہمیں دین اور دنیا کی تعلیم سے آراستہ کیا’ ہمارا اللہ پر یقین اور توکل قائم کیا ‘ دعا مانگنا سکھایا ‘ جھکنا اور شکر گزار بننا سکھایا ‘ مسائل سے پر قابو پانا اور پھر سے ابھرنا سکھایا’ ہر مشکل کا سامنا کرنا سکھایا ‘ ہر لمحہ ہماری راہنمائی کی ‘ ہمت بڑھائی ان کا اعتماد ہی تھا جو آج ہم سب اس مقام پر ہیں ـ ہر مشکل گھڑی میں چٹان کی طرح ہمارے ساتھ کھڑی ہو جاتیں ـ جائے نماز پر بیٹھ جاتیں اور دعائیں کرتی نہ تھکتی تھیں ـ ظاہر ہے ماں کے دل سے نکلی دعائیں کیسے رد ہو سکتیں تھیں اور وہ رنگ لے آتیں ـ وہ ان کی دعاؤں کا ہی حصارتھا جس کی وجہ سے ہم ہر آفت و مصیبت سے نہ صرف محفوظ رہے بلکہ کامیاب و کامران ہو کر نکلتے ـ۔۔
بقول وصی شاہ :
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے

امی نے بہت مشکل زندگی گزاری ‘ زندگی کی کئی اتار چڑھاؤ دیکھے لیکن کبھی ہم نے ان کو ہمت ہارتے اور ٹوٹتے نہ دیکھا کیونکہ ان کا اللہ پر یقین ہی بہت مضبوط تھا ـ ابو بیمار ہو گئے اور بستر پر لگ گئے ـ ان کی بیماری کافی طویل چلی لیکن مجال ہے کہ امی نے اُف تک کیا ہو ،نا صرف ابو کے سارے کام بلکہ گھر’ باہر اور ہم سب کی تعلیم و تربیت وغیرہ سارے کام خود کئے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امی کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ ایک زمانہ ان کا گرویدہ تھا ـ سارے کا سارے محلہ ان کے گن گاتا تھا ـ سب رشتہ داروں ‘ بہن بھائیوں ‘ دوست احباب کو جوڑ کر رکھتیں ـ ان کے گھروں میں نہ جا سکتیں تو ان سب کو اپنے گھر بلا لیتیں ـ اپنے گھر میلاد اور صلاۃ التسبیح کی محفل سجا لیتیں ـ کبھی کسی کا برا نہ سوچتیں ہمیشہ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ ہی پہنچاتی تھیں ـ امی خود تو تنگ ہو جاتی تھیں لیکن ماتھے پر شکن نہ آنے دیتیں اور کسی سوالی کو کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتی تھیں ـ ایسی تھی میری امی ! جب امی کا انتقال ہوا تو نجانے کون کون آکر ملا ‘ لوگ گلے لگ کر روتے رہے اور کہتے کہ آج ہماری ماں مر گئی ـ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply