• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عطاء الحق قاسمی، پرویز رشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ۔۔محمد مشتاق

عطاء الحق قاسمی، پرویز رشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ۔۔محمد مشتاق

جی ہاں۔ یہ فیصلہ صرف عطاء الحق قاسمی صاحب کے خلاف نہیں ہے کہ ان کی “ادبی خدمات” گنواکر اس فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا جائے۔ فیصلہ پرویز رشید کے خلاف بھی ہے جو ان دنوں وزیراطلاعات تھے اور جنھوں نے قاسمی صاحب کی تعیناتی کا سارا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس ضمن میں قانون اور ضابطے کی دھجیاں اڑائیں۔ فیصلہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی ہےجو ان دنوں وزیر خزانہ تھے اور جنھوں نے اپنی وزارت کے عہدیداروں کی راے کو روندتے ہوئے قاسمی صاحب کےلیے تنخواہ و مراعات کا وہ پیکیج منظور کیا جس کی قانون اور ضابطے میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ فیصلہ فواد حسن فواد کے خلاف بھی ہے جو جانتے تھے کہ یہ سارا معاملہ خلافِ قانون ہے لیکن انھوں نے وزیراعظم کے زبانی احکامات کی بنیاد پر اس سارے معاملے میں کی گئی خلاف ورزیوں سے نہ صرف یہ کہ صرفِ نظر کیا بلکہ اس میں اپنا حصہ بھی ڈالا۔
چنانچہ جس رقم کی وصولی کا سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے اس کا صرف آدھا ہی قاسمی صاحب سے وصول کیا جائے گا؛ بیس بیس فی صد دونوں وزیر اور دس فی صد فواد حسن فواد دا کریں گے۔
یہ بھی نوٹ کریں کہ سپریم کورٹ نے قاسمی صاحب کی “ادبی خدمات” یا ان کے “بڑے ادیب” ہونے پر بحث ہی نہیں کی ہے۔ اس لیے بعض دوستوں کے تبصرے پڑھ کر کہنا پڑتا ہے کہ:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے!
سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد اس امر پر ہے کہ پی ٹی وی کارپوریشن میں ڈائریکٹر اور چیئرمین کی تعیناتی کا قانونی طریقہ اور ضابطہ کیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کیسے کیسے ہوئی اور کون کون اس کےلیے ذمہ دار ہے۔ ہاں، اس میں یہ بات ضرور زیرِ بحث آئی ہے، اور آنی چاہیے تھی، کہ پی ٹی وی ایک کارپوریشن/کمپنی ہے جس کا کروڑوں کا بزنس ہے تو کیا اس کے ڈائریکٹر یا چیئرمین کےلیے اتنے بڑے کاروبار کے چلانے کا تجربہ بھی درکار تھا یا صرف ادیب ہونا ہی کافی تھا؟ کون اس سوال کے ضروری ہونے سے انکار کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور متعلقہ دستاویزات کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انھیں پڑھ کر آپ کو میاں محمد نواز شریف صاحب کا طرزِ حکمرانی پوری طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ کیسے ایک دوست/قصیدہ گو کو نوازنے کےلیے پہلے 65 سال کی عمر کی انتہائی حد میں کمی کی گئی؛ پھر کیسے اس کی تعیناتی پر ہونے والے اعتراضات کو نظرانداز کرکے محض “تمییزی اختیارات” (discretionary powers) کی چھتری استعمال کرتے ہوئے ہر ضابطہ پامال کیا گیا؛ کیسے اس مقصد کےلیے دو وزارتوں (اطلاعات اور خزانہ) کے وزرا اور عملے کو استعمال کیا گیا اور ان سے اپنی مرضی کی سمریاں بنوائی گئیں؛ اور پھر کیسے اس سب کچھ پر اپنے سیکریٹری فواد حسن فواد کو محض زبانی منظوری دیتے رہے؟ (جی ہاں، میاں صاحب کو فائلوں پر نوٹ لکھنے سے الرجی ہے۔)
اس فیصلے میں یہ بات بھی مقامِ عبرت ہے کہ کیسے پرویز رشید صاحب نے خود کو بری الذمہ قرار دلوانے کےلیے پہلے اپنی وزارت کے ماتحت عملے کی طرف، پھر وزارت خزانہ کی طرف اور پھر بالآخر اس وقت کے وزیراعظم کی طرف ذمہ داری منتقل کرنے کی کوشش کی! کاش نون لیگی دوست اس پہلو پر غور کرسکیں!
فیصلے میں ایک قابلِ عبرت مقام یہ بھی ہے کہ کیسے ہماری بیوروکریسی اس سارے فساد میں طوعاً یا کرھاً شریک ہوتی ہے۔ فواد حسن فواد جیسے سینیئر سول سرونٹ کیسے وزیراعظم کو خوش کرنے کےلیے جانتے بوجھتے قانون کی خلاف ورزیاں ہونے دیتے ہیں اور ان میں اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں؟ ڈاکٹر وقار مسعود خان صاحب جیسے دیانت دار سیکریٹری خزانہ کیسے اس لوٹ مار کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور کیسے وزیر خزانہ ان کے اعتراض کو مسترد کرکے نئی سمری بنوا کر تنخواہ اور مراعات کے غیرقانونی پیکیج کو منظور کرواتے ہیں اور وقار مسعود صاحب کیسے اس پر خاموش رہنے کے سوا کچھ اور نہیں کرپاتے!
اور باقی رہا معاملہ عطاء الحق قاسمی صاحب کا، تو مقامِ عبرت صرف یہ نہیں ہے کہ کیسے اس عہدے کےلیے اہلیت اور صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود وہ اسے قبول کرلیتے ہیں اور اتنے بڑے پیکیج کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر ہنسی خوشی گلے لگاتے ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ پھر کیسے وہ اس عہدے اور پوزیشن سے مزید غیرقانونی اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام آباد کلب کی ممبرشپ ہو، بیرون ملک کا سفر ہو، ایک سرکاری گاڑی کے بجاے دو سرکاری گاڑیوں اور ایک ذاتی گاڑی کا خرچہ ہو، یا ٹی اے ڈے کے بلز ہوں، اپنی پروموشن کےلیے پروگرامز کا انعقاد ہو، اپنے (دانشور اور معلمِ اخلاق) بیٹے کو مالی فوائد پہنچانے کی کوشش ہو، یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پی ٹی وی کارپوریشن کے مینجنگ ڈٖائریکٹر نہیں ہیں مینجنگ ڈائریکٹر کے اختیارات کا بے دریغ استعمال ہو، ہر جگہ انھوں نے خوب خوب برسوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کی ہے۔
اور ہاں، یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا کہ کسی عہدے پر کسی شخص کی تعیناتی غیرقانونی قرار دی گئی ہو اور اس کے بعد اس کی تقرری سے لے کر اس کی معزولی تک کی مراعات اور تنخواہیں اس سے وصول کی گئی ہوں۔ ماضیِ قریب میں ہی سپریم کورٹ نے ایک سے زیادہ دفعہ ان ایم این ایز یا ایم پی ایز سے بھی وہ ساری مراعات اور تنخواہیں وصول کرنے کے فیصلے دیے ہیں جو پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن بننے کےلیے ابتدا سے نااہل تھے اور انھوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔
اس لیے پیارے دوستو! قاسمی صاحب کی ادبی خدمات گنوانے کے بجاے ان امور پر توجہ کریں تو بہتر ہوگا۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply