ہندؤوں کا کئی جنموں کا عقیدہ مختلف زمانوں کے افراد نے اپنی محدود سمجھ بُوجھ کے باعث گردآلود کردیا ،ورنہ ان کے ہاں آنے والے نبیوں اور رسولوں نے یقیناً انہیں زندگی کے الگ الگ عالمین میں تسلسل سے جاری رہنے کا وہی تصور دنیاوی الفاظ اور عصری مفاہیم کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہوگی جو تصور قرآن بھی دیتا ہے۔
قرآن کے مطابق دُنیا میں ہماری پیدائش ہماری پہلی پیدائش تو بہرحال نہیں ہے، نہ یہ اس عالم یا کسی دوسرے عالم میں ہماری آخری پیدائش ہے، بس قرآن کے دیے ہوئے مفاہیم کو عصری تفاسیر کا قیدی سمجھ لینے کے باعث ہم نے آدم سے شروع ہونے والی انسانی زندگی کی کہانی کے جنت اور دوزخ میں حتمی سکونت پذیر ہونے جیسے سادہ سے عقیدے پر اکتفا کر لیا ہے۔
سادہ لوگ آدم سے قیامت تک اور قیامت کے دن حساب سے جنت دوزخ تک کا یہی سادہ عقیدہ بھی رکھیں تو اچھی بات ہے، کیونکہ سبھی کا مقصد بہرحال دُنیاوی زندگی سے کامیاب ہو کر آگے جانا ہے۔البتّہ متجسس اذہان اور تحقیق پسندوں کے لیے قرآن نے امکانات کی بے شمار کُنجیاں رکھ چھوڑی ہیں، لیکِن یہ امکانات بہرحال شاہراعِ عام نہیں ہیں۔
پہلے تو قرآن کی وہ آیت ہی دیکھ لیجیے جِس میں اللہ فرماتے ہیں کہ انسانوں سمیت بعض دیگر مخلوقات کو بھی دُنیا میں اللہ کی مُجوّزہ ذمّہ داری سنبھالنے کا آپشن دیا گیا تھا، لیکِن انسان کے سوا سبھی نے خُود کو کمزور بتا کر اللہ کی پیش کردہ آپشنل ذمہ داری لینے سے معذرت کر لی۔
اس معاملے کی تفصیل پھر سہی، لیکن قرآن کی اِس آیت سے یہ تو طے ہوگیا کہ انسان آدم کی مادی تخلیق سے پہلے بھی اجتماعی حیثیت میں کسی دوسرے عالم میں کسی اور غیرمادی شکل میں موجود تھا جہاں اللہ نے اُس سے یہ مُکالمہ کیا تھا۔
پھر اللہ ،انسان کے دنیاوی ذمہ داری قبول کرنے کے عہد کا ذکر کرتا ہے جو اس نے اپنی دُنیاوی تخلیق سے بھی پہلے کیا تھا۔
یعنی ہم دُنیاوی تخلیق سے پہلے بھی نا صرف موجود تھے بلکہ اتنا شعور اور سمجھ بوجھ ضرور رکھتے تھے کہ اگلے جنم میں کوئی بڑی ذمہ داری لینے کا وہ فیصلہ کر سکیں جو دوسری مخلوقات آپشن کے باوجود نہ کر پائی تھیں۔ یعنی ہم پہلے بھی دیگر مخلوقات سے زیادہ سمجھ بوجھ اور ذہانت کے حامِل تھے۔ ہمیں وہاں ہمارے امتحان کی جھلکیاں یا بنیادی پُوائنٹس سکرین پر دکھانے کے سے کسی انداز سے یقیناًَ دکھائے گئے تھے یہ اُسی عہد کا ثبوت ہے کہ ہمیں اکثر جگہوں یا حالتوں میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم یہ سب پہلے دیکھ چکے ہیں۔ایسا کبھی نہ کبھی ہم میں سے ہر ایک کو لگتا ہے۔
جن کا ایمان زیادہ عملی ہو اُن پر یہ کیفیت اکثر طاری ہوتی ہے تبھی تو اللہ قرآن میں کہتا ہے یاد کرو تم نے عہد لیاتھا۔ یہ عہد اس احساس کے ذریعے ہر ایک کو یاد آتا ہے لیکن لوگ اسے وہم سمجھ کر بھلا دیتے ہیں۔خیر ہم اپنے مضمون کی طرف آتے ہیں۔
پھر قُرآن میں آدم کی جنّت میں موجودگی اور علم سیکھنے کا ذکر ہے جو یقیناً پہلے عالم سے مختلف ایک عالم تھا۔
پھر آدم کو دُنیا میں بھیجے جانے کا ذکر ہے جو پچھلے دونوں عالمین سے ایک الگ عالم ہے۔ پھر قرآن ہماری موت کے بعد ہماری پردے یعنی برزخ کے پیچھے موجودگی کا ذکر کرتا ہےجسے لوگ عالمِ برزخ کے نام سے جانتے ہیں یہ قرآن میں انسانی زندگی کی چوتھے عالم میں موجودگی کا بیان ہے۔
پھر قُرآن ایک قیامت کا ذکر کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بتا دیتا ہے کہ دنیا میں ناکام رہ جانے والوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔
ناکام رہ جانے والوں کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کے اشارے سے دو باتیں واضع ہوئیں، ایک یہ کہ برزخ یعنی پردے کے پیچھے کا عالم جہاں ہم موت کے بعد موجود ہونگے آسمان سے پرے نہیں ہے, کیونکہ آسمان کے دروازے حساب کے بعد صرف فلاح پانے والوں کے لیے کھلیں گے۔
دوسری بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ قیامت کے بعد والا روزِ حساب بھی آسمان سے پرے نہیں ہے, کیونکہ آسمان کے دروازے حساب کے بعد صرف فلاح پانے والوں کے لیے کھلیں گے۔
یعنی روزِ جزا بھی دُنیا میں ہی سجے گا اور روزِ جزا کے لیے جب مجھے دوبارہ اُٹھایا جائے گا۔میری وہ پیدائش بھی اسی دُنیا میں ہی ہوگی یہ انسان کا پانچواں جنم ہی تو ہے۔
حساب ہو گیا تو نیکوکاروں اور فلاح پاجانے والوں کے لیے تو آسمانوں کے دروازے کھل جائیں گے، وہ ایک نئے عالم میں پہنچیں گے, جسے جنّت کہتے ہیں, جہاں کا جسم بھی الگ ہوگا اور حقائق بھی الگ،یعنی زندگی ایک چھٹا جنم اور روپ اختیار کرے گی۔
جب ناکام رہ جانے والوں کے لیے آسمان کے دروازے ہی نہیں کھلنے تو ظاہر سی بات ہے اُنکی تو جہنم اسی دنیا میں ہوگی،قیامت کے بعد کی اُس نئی دُنیا کے حقائق بھی الگ ہونگے ، جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ سُورج سوا نیزے پر یعنی زمین سے قریب تر ہوگا۔ یعنی اُس نئے ماحول کی مناسبت سے جہنمیوں کو جسم اور چھٹا جنم بھی اُنہی نئے حقائق کی مناسبت سے دیا جائے گا۔
سُورۃ البقرۃ کی آیت باسٹھ میں اللہ یہودیوں، عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسے لوگ جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور انکے اعمال بھی اچھے ہُوئے تو انکا اجر اللہ کے پاس ہے، انہیں روزِ قیامت نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم۔
یہ لیجیے قرآن نے ایک بالکل ہی نئے امکانات کے دروازے کھول دیے۔ اللہ کہہ دیتا کہ یہ بھی جنّت میں جائیں گے لیکن اللہ نے بس یہ کہا کہ انہیں روزِ قیامت نہ کوئی خوف ہوگا نہ غم۔
مجھے یہ سمجھ آتا ہے یہ کسی ایسے عالم میں بھیجے جائیں گے جو جہنم نہیں ہوگا ,لہٰذا انہیں خوف نہ ہوگا۔
یہ دُنیا سے بہتر ہوگا لہٰذا انہیں غم بھی نہ ہوگا۔
مجھے یہ لگتا ہے انکے لیے اُس زندگی یا عالم سے جنّت میں پہنچنے کی گنجائش رکھی جائے گی، بالکل ویسے جیسے جہنم والوں میں سے لوگوں کو وقتاًفوقتاً جنّت میں مُنتقل کیا جاتا رہے گا۔
اللہ کا اُن افراد کے لیے امتحان کا پیمانہ کیا ہوگا، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن جنّت تک پہنچتے ہُوئے انکے نفس نے سات جنم تو پورے کر ہی لیے۔
رام پور انڈیا کے ایک مسلم سکالر سیّد عبداللہ طارق نے اپنی کتاب میں تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سُورۃ البقرۃ کی آیت باسٹھ میں جس طبقے کو سیبینز یا الصٰبئین کہا گیا ہے وہ انڈیا کا ہی ایک مذہب تھا جسکی تعلیمات کو انڈیا میں آئے دیگر تمام الہامی ادیان کی طرح ہندوازم نے ہی اپنے اندر ضَم کر لیا۔
ویسے بھی موجودہ ہندازم اور موجودہ بدھ ازم بہت سے انڈین نبیوںؑ اور رسُولوں کی تعلیمات کا بگڑا ہُوا مرکب ہیں۔
اور انڈین اوریجن کے تقریباً تمام مذاہب سات یامتعدد جنموں کا عقیدہ رکھتے ہیں جو اُنکے نبیوںؑ پر اُتری وحی کی ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ وحی بھیجنے والے اللہ نے تو ہر نبیؑ پر ملتا جُلتا پیغام ہی اُتارا تھا جو آخری نبی محمدﷺ پر اُتری آخری وحی یعنی قُرآن کی شکل میں مکمل ہوگیا۔
لیکن قُرآن کو نہایت گہرائی اور باریکی سے دیکھیں تو انسان کی زندگی کی کہانی سات جنموں میں تمام نہیں ہوتی اسے ابھی بہت سفر کرنا ہے۔
اللہ ایسا اَحد ہے کہ اُسکی کسی بھی صفت کے پیمانے پر نہ تو کوئی شخصیت اُسکی ہمسر ہو سکتی ہے نہ کوئی نظام،خواہ وہ شخصیت نبیوںؑ کی ہو یا فرشتوں کی۔
خواہ وہ نظام روزِ جزا بپا ہونے سے پہلے کا ہو یا بعد کا،یعنی جنّت دوزخ کے نظام کو بھی بالآخِر فنا ہونا ہے کیونکہ ابدیت فقط اللہ کے لیے مخصوص ہے۔تمام مخلوقات بشمُول آسمانو زمین ، ستاروں سیّاروں حتیٰ کہ جنّتوں اور دوزخ کو بھی اپنے لیے طے کردی گئی انفینیٹی کے بعد فنا ہونا ہے۔
سُورۃ الرحمٰن کی چھبیسویں آیت میں اللہ خود کو ہر چیز سے ممتاز کرتے ہُوئے ایک عمومی قانون دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔
اِس سے اگلی آیت میں اللہ اپنے ہی اوّل اپنے ہی آخِر ہونے پر مہر لگا کر یہ واضح کر رہا ہے کہ ہمیشگی کی صِفّت میں بھی اُس کا کوئی شریک نہیں۔
یعنی پھر جنّت یا دوزخ میں مخلوقات کے ہمیشہ رہنے کے تصوّر کو انہی آیات کے تناظر میں دوبارہ سمجھنا ہوگا کیونکہ اگر جنّتی اوّل نہ سہی آخِر بھی سمجھے جائیں تو اللہ کی آخِر والی صفّت پر ضرب لگے گی۔
اُدھر سُورۃ النساء کی ایک سو بائیسویں آیت میں اللہ فرماتے ہیں کہ نیک اعمال والے جنّت کے باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
لیکن سُورۃ ہُود کی ایک سو چھ سے ایک سو آٹھ آیت تک غور سے پڑھیں تو اللہ بہت خُوبصورت انداز میں اپنے لیے ہمیشگی اور انسانوں کے لیے ہمیشہ رہنے میں فرق بتاتے ہیں۔
اِن آیات میں جہنمیوں کے جہنم اور جنتیوں کے جنّتوں میں اُس وقت تک رہنے کی بات کی گئی ہے جب تک تمام آسمان اور تمام زمینیں (یعنی نظام) باقی رہیں گے۔
یعنی انسانوں کے لیے ہمیشہ کا تصور اُس نظام کے لیے طے کردہ تقدیر تک کا ہے۔ بالآخِر اُس نظام کو بھی ہر چیز کی طرح فنا ہونا ہے۔
یعنی جنتی اور دوزخ والے تب تک وہاں رہیں گے جب تک وہ نظام باقی رہے گا یہی اُنکی ہمیشہ ہوگی۔یعنی جنّتوں اور دوزخ کی فنا کا وقت میرے تصور کے لفظ ہمیشہ کے بھی بعد یعنی اِنفینیٹی جِتنا دُور ہے لیکن فنا تو انہیں بھی ہونا ہے کیونکہ ہمیشہ سے ہمیشہ تک موجودگی صرف اَحد کا خاصہ ہے۔
قُرآن کی رُو سےنہ تو یہ دُنیا میرا پہلا پڑاؤ ہے نہ کسی جنّت کا کوئی باغیچہ یا دوزخ کا کوئی گڑھا میری آخری منزِل ہوگا۔
قُرآن کے مُطابِق جنّت میں بھی جنّتیوں کو ارتقاء اور شعُور کی منزلیں طے کرتے ہُوئے طبق در طبق اُوپر کی طرف چڑھتے جانا ہے۔
کون جانے ایک طبق سے دوسرے طبق کے درمیان میرے وقت کے تصور کے مطابِق کتنے وقت کا فاصلہ ہو یقیناً یہ فاصلہ بھی اِنفینیٹی ہی کہلائے گا۔
یعنی مجھے تو جنّت کے ایک طبق کے پڑاؤ کا وقت ہی ہمیشہ جتنا لگے گا۔
کون جانے وہاں اگلے طبق تک پہنچنے کے لیے کِس پیمانے پر امتحان ہو گا لیکِن سُورۃ اِنشقاق کی اُنیسویں آیت یہ تو واضع کرتی ہے کہ ہر طبق کی حالت یعنی سٹیٹ اور نوعیت پچھلی سے الگ ہوگی۔
قُرآن ہی کی رُو سے نہ تو جنّتوں میں سے کسی جنّت میں ویسا کُچھ ہے جِس کا میں تصور کر سکوں نہ ہی دوزخ ویسی ہے جیسی اُسکی شبیہہ میرا چشمِ تصوُر بُنتا ہے۔
میری دُنیاوی موت اُس فنا کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو علم کی اپنے لیے طے کردہ انتہا کے بعد میں اللہ کے انعامِ خاص کے طور پر قبول کروں گا۔
موت تو دُنیا اور آخرت کے بیچ ایک پڑاؤ ہے جِس کے دوران نفس کی شکل میں ہی سہی میں موجود تو ہوں گا۔ حالتِ نیند میں ہی سہی وہ حالت بھی تو میری موجُودگی ہی ہوگی۔
میری موت بہرحال میری فنا نہیں فنا تو عدم وجُود کا نام ہے مجھے ایک دِن بہرحال فنا ہونا ہے کیونکہ میں احَد نہیں ہُوں۔ باقی تو صرف اللہ ہی کو رہنا ہے۔
سُورۃ ہُود ہی کی آیت ایک سو آٹھ کے یہ بہت اہم نُقطے ہیں جو یہ ظاہِر کرتے ہیں کہ ایک تو جنّت اور دوزخ کی ہمیشگی اللہ کے اگلے منصوبے سے مشروط ہے جو زمینوں اور آسمانوں کی فنا کے بعد شُروع ہوگا دُوسرے یہ کہ جنتیوں کا جنّت و دوزخ کے بعد کے اُس نئے منصوبے میں بھی کوئی کِردار تو باقی رہے گا کیونکہ اللہ اُن پر بخشش اور عطا جاری رکھنے کا وعدہ کر رہا ہے۔
ایک طرف ہر چیز کے فنا ہونے کا قانُون دوسری طرف جنّت و دوزخ کی بقا کو زمینوں اور آسمانوں کی تقدیر سے مشروط کرنا تیسری طرف جنتیوں کے لیے ’’ بخشش کبھی ختم نہ ہوگی ‘‘ کہنا ایک ایسے امکان کی طرف اشارہ ہے جسے الفاظ میں ڈھالنے کی ہمت ابن عربی تو کر سکتے تھے ،میں نہیں کر سکتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں