• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسرائیل سے سفارتی تعلقات۔۔۔میرا نقطہ نظر۔۔انوار احمد

اسرائیل سے سفارتی تعلقات۔۔۔میرا نقطہ نظر۔۔انوار احمد

آخر ہم ہی کیوں عربوں کی خوشنودی میں اسرائیل سے بگاڑ کیے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا اس سے کسی قسم کا جھگڑا بھی نہیں جس فلسطین کے لئیے ہمارے پیٹ میں زیادہ مروڑ اٹھتا ہے وہ ہمیشہ سے بھارت نواز رہا ہے ۔ یاسر عرفات نے کبھی پاکستان کو منھ نہیں لگایا اور نہ ہی کشمیر کے موقف پر ہماری کبھی تائید کی ۔ میں بارہا فلسطینیوں سے ملا اور انکے ساتھ کام بھی کیا مجھے تو انکی اکثریت بہت زیادہ لبرل اور مذہب بیزارنظر آئی۔تاریخ کامطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خود اپنی زمینیں فلسطینیوں نے یہودی آباد کاروں کو منہ مانگی قیمتوں پر فروخت کی تھیں جسکی وجہ انکے علماء اور مفتیوں نے فتوی صادر کیا تھا کہ دنیا تو چودھویں صدی کے بعد ہوگی ہی نہیں لہذا سادہ لوح فلسطینیوں نے یہودیوں کو اپنی آبائی زمینیں من مانی قیمتوں میں فروخت کردیں اور اپنی دانست میں انہیں بیوقوف بنادیا ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی عرب ممالک اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ عرصے سے سفارتی تعلقات قائم ہیں تو پھر ہمیں عرب رومانس میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا حق کیوں نہیں جبکہ سعودی عرب کے بھی وفود اکثر اسرائیلیوں سے ملتے رہتے ہیں اور اسکے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تو عمان نے بھی گفت و شنید کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ اسرئیل کے نتن یاہو اور اسکی خفیہ ایجنسی کے افراد عمان کا دورہ بھی کررہے ہیں ۔ شنید ہے کہ یہ وفد اسلام آباد یاترا بھی کرچکا ہے لیکن ابھی تک سرکاری سطح پر اسکی تصدیق یا تردید ہونا باقی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کی دنیا میں مذہب نہیں سب سے بڑی ترجیح مشترکہ مفادات ہیں ۔ بھول جائیں کہ کبھی اسرائیل فلسطین کو چھوڑے گا یا کشمیر کبھی ہمارا ہوسکے گا ۔ اس خوش فہمی سے جتنی جلدی نکل آئیں بہتر ہے اور ایٹمی قوت کے ڈاکٹرائن کو فراموش کرکے معاشی ترقی اور امن کا راستہ اختیار کیا جائے بصورت دیگر بربادی ہی خطہ کا مقدر ہوگی ۔ دوسرے کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے اور خود ساختہ ” اسلام کا قلعہ ” بننے سے گریز کیا جانا چائیے ۔ پہلے اپنی عسرت اور بدحالی پر تو قابو پالیں ۔ ضروری ہے کہ قوم کو مغالطوں سے نکال کر سچ کی دنیا دکھانا ہوگی ۔ آج کی جنگ ایٹمی نہیں بلکہ معیشت کی ہے ۔ کیمیونسٹ روس کے پاس ایک اندازے کے مطابق پینتیس ہزار سے زیادہ ایٹمی وار ہیڈ تھے اسکے علاوہ ایک بڑی فوج اور ساز و سامان بھی تھا لیکن اسکے باوجود عظیم روس ٹوٹ گیا چونکہ اسکے پاس عوام کو دینے کے لئیے روٹی نہیں تھی ۔۔۔ کیا وہ لاتعداد ایٹمی ہتھیار روس کے کام آسکے اور اسےشکستگی سے بچا سکے ؟
کیا ہی اچھا ہوکہ اگر کل نہیں تو آج یہ بات سمجھ آجائے اور اسرائیلی وفد سے کھل کر گفت و شنید کی جائے اور جلد از جلد دونوں ممالک میں دوستی ہو اور سفارتی تعلقات قائم ہوجائیں ۔ کیا ہمارے سفارتی اور تجارتی تعلقات کیمیونسٹ چین اور ملحد روس سے نہیں ؟ کیا کل تک یہی روس ہمارا سب سے بڑا دشمن تصور نہیں کیا جاتا تھا جو بوجوہ ہمیشہ ہمارا مخالف ہی رہا اور اس نے کشمیر کے موقف پر اقوام متحدہ میں ہماری ہر قرار داد کو ویٹو کردیا ۔ لیکن اسی روس کے ساتھہ آج ہم مشترکہ جنگی مشقیں بھی کررہے ہیں اور دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں ۔۔صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک سے دوستی اور تجارتی تعلقات اپنی خود مختاری اور سلامتی کی بنیاد پر جلد از جلد استوار کئیے جائیں تاکہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھے جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں میں امن اور آتشی کا دور دورہ ہو جس سے خطے کی عوام کی خوشحالی منسلک ہے ۔۔۔
تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد دو ملک نظریاتی بنیادوں پر قائم ہوئے ایک اسرائیل تھا اور دوسرا پاکستان ۔ درحقیقت دونوں ملکوں کی پیدائش ترقی یافتہ دنیا کی نئی تقسیم اور برطانوی سامراج کا ایجنڈا تھیں جو یورپ اور مغربی طاقتوں کے مفاد میں تھا ۔اسرائیل تو انہی طاقتوں کے آشیرواد سے اب تک قائم ہے اور روز افزوں ترقی کی جانب گامزن ہے، اسکے علاوہ اسکی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہودیوں کا سرمایہ اور علم و تحقیق کے میدان میں اسکی حیرت انگیز ترقی بھی ہے ۔ جغرافیائی حوالے سے اسرائیل کے اطراف میں تقریبا دس عرب ممالک ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال بھی ہیں اور انکے پاس جنگی ساز و سامان اور وسائل کی بھی کمی نہیں لیکن کسی کی مجال نہیں جو اس ” بے بی ” کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ بھی سکے ۔
ہمارا ” دو قومی نظریہ ” مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ، اور یہ ثابت ہوا کہ مذہب سے زیادہ طاقتور زبان اور کلچر ہے ۔ یہی ایک تاریخی حقیقت بھی ہے ۔ اگر پاکستان کا وجود مذہبی نظریہ یا دو قومی نظریہ کی بنیاد پہ پورا اترتا تو قیام پاکستان کے وقت تمام مذہبی جماعتوں اور اکابرین دین نے اسکی مخالفت کیوں کی تھی ؟ بدقسمتی سے تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل ” آزادی ” کے فورا بعد شروع ہوگیا اور ہنوز زور شور سے جاری ہے ۔۔ وہ طبقہ اور مذہبی گروہ جو قیام پاکستان کا سخت مخالف تھا آج وہی مذہبی جماعتیں پاکستان کے سب سے زیادہ خیرخواہ اور اسکے چاچے مامے بنے ہوئے ہیں اور اسی پاکستان کو جسے انہوں نے ” نا پاکستان ” قرار دیا تھا آج وہ اسے ایک ” اسلامی ریاست ” اور مملکت خداداد بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ حضرات اس حقیقت کو مان کر نہیں دیتے کہ جناح صاحب سے لیکر مسلم لیگ کے تمام زعماء انتہائی سیکولر اور آزاد خیال تھے ۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کو ہی دیکھ لیں اس میں اہم عہدیدار ہندو ، پارسی، عیسائی اور قادیانی حضرات تھے ۔
پاکستان کی بدقسمتی کہ قائد بہت جلد قوم کو چھوڑ گئے ۔ انکی موت بھی ایک معمہ ہے جس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اور پھر جلد ہی لیاقت علی خاں کی شہادت نے موقع پرست عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ۔ اسکے بعد کی تاریخ اپنی پسند کی مرتب کی گئی۔ قائد کی تقاریر اور فرمودات پر مذہبی لبادہ ڈال دیا گیا اور انکو ایک مذہبی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا ۔ آج کا پاکستان مکمل طور پر نسلی ، لسانی اور مسلکی گروہوں میں بٹا نظر آتا ہے ۔ صوبوں کے مابین کوئی ہم آہنگی نہیں ۔ ہر گروہ ایک دوسرے کو غیر محب وطن اور کافر قرار دینے کی انتہائی کوشش میں مصروف ہے ۔۔ دنیا ترقی کے منازل طے کررہی ہے اور اب چاند کی تسخیر کے بعد مریخ پر چھٹیاں منانے کی تیاریاں کررہی ہے اور ہم کو عید و رمضان کا چاند ہی نظر نہیں آتا ہم اپنی ہر ناکامی پر یہود ونصاری کی سازش کا پردہ ڈال کر چین کی نیند سوجاتے ہیں اور ہر تباہی اور بدامنی کے پیچھے را کا ہاتھ نظر آرہا ہے ۔ دنیا کی بہترین فوج اور ایجنسیز کے ہوتے ہوئے یہ کس طرع ممکن ہو پاتا ہے ؟کیوں نہیں انکے منصوبہ سازوں اور ایجنٹس کو پکڑ کر منظر عام پر لایا جاتا ؟ وقت آگیا ہے کہ ہم اس Dilemma سے باہر نکلیں اور حقیقت کا کھلی آنکھوں مقابلہ کریں ورنہ اس جدید دور میں ہمارا کوئی مقام نہ ہوگا ۔ مان لیں کہ ترقی یافتہ دنیا نے ہمکو پہلے ہی Trash کرددیا ہے ۔ اب اگر آپ خود سے میاں مٹھوبنے ریں تو آپ کی مرضی لیکن اس سے کچھ بہتری کی امید فضول ہے ۔
دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھتی ہیں اور اپنے نقائص اور غلطیوں سے کچھ سبق سیکھتی ہیں ۔ لیکن ہم تو ایک سنہری ماضی کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی قوم ہیں جو اس سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ایسا ہوپائیگا کہ ہم اسرائیل اور بھارت سے دوستی اور امن کے ساتھہ اپنی اپنی سالمیت اور خود مختاری کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرسکیں ۔ مذہبی انتہا پسندوں سرحد کے دونوں جانب ہیں جنہیں نفرت کی سیاست ہی راس ہے ۔ یہی گروہ اور لشکر ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی پر بھی کسی حد تک اثر انداز ہیں کیا وہ کبھی اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے دینگے ۔ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔ حکومت سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں اگر یہ چاہے تو سب کچھ ممکن ہے بس ذرا حوصلہ چائیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply