قطر، نئی صف بندی۔۔۔ثاقب اکبر

قطر اور سعودی عرب کے مابین پیدا ہونے والے بحران کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک ننھے چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی کے مابین پیدا ہونے والا اختلاف نہیں، اگرچہ ہونا یونہی چاہیے تھا۔ اب تک اس واقعے کو تقریباً ساڑھے تین ماہ ہونے کو ہیں، لیکن کسی مرحلے پر یہ محسوس نہیں ہوا کہ ایک چھوٹے سے ہمسائے نے جس کا بہت کچھ انحصار ایک بڑے ہمسائے پر تھا، اسے منانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قطر اس بحران کے بعد داخلی طور پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ اس وقت قطر کے عوام کا سب سے مقبول نعرہ ہے ’’میں بھی تمیم ہوں۔‘‘ سعودی عرب جو کسی وقت یہ سمجھتا تھا کہ وہ قطر کے اندر سے تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اب یقینی طور پر اس سوچ میں ایک دراڑ ضرور آچکی ہے۔ قطر کی برآمدات کا زمینی اور فضائی حوالے سے انحصار سعودی عرب پر تھا۔ غذائی اجناس تمام تر سعودی عرب کے راستے سے پہنچتی تھیں۔ توقع کی جاسکتی تھی کہ اس اچانک بندش پر قطری عوام بے چین اور پریشان ہو کر اپنی حکومت کے خلاف باہر نکل آئیں گے، لیکن قطری عوام نے بہت حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ دوسری طرف ایران اور ترکی تیز رفتاری سے قطر کی مدد کو پہنچ گئے۔ ایران نے سمندری اور فضائی راستے قطر کے لئے کھول دیئے اور غذائی اجناس ابتدائی چند دنوں میں ہی قطر تک پہنچا دیں۔ آج ایرانی مال سے قطر کی مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ ترکی نے بھی بڑھ چڑھ کر قطر کی مدد کی اور اب ترکی کا مال ایران کے زمینی راستے سے قطر سے نزدیک ترین بندرگاہ تک پہنچنے لگا ہے اور فضائی راستے سے پہنچنے والے مال پر آنے والی زیادہ لاگت کی بھی اس طرح تلافی ہوگئی ہے۔

سیاسی طور پر بھی قطری حکومت اس وقت زیادہ پراعتماد دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک بڑا اظہار قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی کا گذشتہ جمعرات (14 ستمبر2017) کا دورۂ ترکی ہے۔ جہاں انہوں نے ترکی کے صدر طیب اردوان سے ملاقات کی۔ 5 جون 2017ء کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد امیر قطر کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے، جو یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ انہیں داخلی طور پر اس وقت کسی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ قطر اور ترکی کے مابین گذشتہ چند برسوں میں سیاسی، اقتصادی اور فوجی روابط میں خاصی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ دونوں ملک مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے حامی رہے ہیں بلکہ سعودی عرب اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ قطر سے روابط منقطع کرتے ہوئے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر پر جو الزامات لگائے تھے، ان میں سب سے اہم دہشت گرد گروہوں سے روابط ہی کا الزام تھا۔ سعودی عرب نے قطر سے روابط کی بحالی کی شرائط میں اخوان المسلمین سے روابط توڑنے کی شرط بھی عائد کر رکھی تھی۔ سعودی عرب کی یہ بھی خواہش ہے کہ قطر ترکی سے فوجی روابط منقطع کرے، جبکہ قطر میں امریکہ کا خطے میں سب سے بڑا اڈا قائم ہے، جس پر سعودی عرب کو کوئی اعتراض نہیں۔

سعودی سربراہی میں علاقے کے چار ممالک کے قطر سے قطع روابط کا سب سے دلچسپ پہلو قطر اور ایران کے مابین قربت ہے، جبکہ ان ممالک کی طرف سے قطر سے روابط کی بحالی کے لئے ایک بنیادی شرط ایران سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ ہے۔ اس بائیکاٹ کے بعد جس طرح سے ایران نے قطر کی مدد کی ہے اور بغیر کسی شرط کے اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے وسائل پیش کئے ہیں، اس نے قطری قیادت کو بہت متاثر کیا ہے۔ اس کا اظہار گذشتہ منگل (12 ستمبر2017) کو قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس کے موقع پر ہوا، جب سعودی اور قطری نمائندوں کے مابین ایران کے موضوع پر حیران کن جملوں کا تبادلہ ہوا۔ قطر جو ایک عرصے تک خلیج تعاون کونسل میں سعودی عرب کا ساتھی رہا ہے اور ایران مخالف گروپ میں نمایاں طور پر دکھائی دیتا رہا ہے، کے نائب وزیر خارجہ نے بھری محفل میں ایران کو خراج تحسین پیش کرنا شروع کر دیا۔ قطری نمائندہ سلطان بن سعد المریخی نے کہا کہ ایران ایک شریف ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا محاصرہ کرنے والے عرب ممالک ہمیں ایران سے روابط پر برا کہتے ہیں، جبکہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایران ایک شریف ملک ہے۔ اس نے ہمیں مجبور نہیں کیا کہ ہم کس ملک سے سفارتی تعلقات رکھیں اور کس ملک سے نہ رکھیں، جبکہ سعودی عرب نے ہمیں ایران سے روابط منقطع کرنے کے لئے کہا اور ہم نے اس کی تائید کرتے ہوئے تہران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے سعودی نمائندے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: لیکن اب جو کچھ تم نے ہم سے سلوک کیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ہم نے تہران میں اپنا سفیر پھر سے تعینات کر دیا ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مصر اور عرب لیگ کے لئے سعودی سفیر احمد قطان نے کہا: قطر کا نمائندہ کہتا ہے کہ ایران ایک شریف ملک ہے، یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ قطری نمائندے کی ایران کے لئے ایسی ستائش اور وہ بھی قاہرہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں سعودی عرب کے سفیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، واقعاً کیسا عجیب منظر ہوگا، علامہ اقبال کا ایک شعر بے ساختہ یاد آتا ہے:
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

قطری نمائندے نے یہ بھی کہا کہ ہمارا محاصرہ کرنے والے ممالک قطری حکومت کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ممالک کی طرف سے قطر کا محاصرہ ظالمانہ اور غیر قانونی ہے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی قیادت میں قطر کا محاصرہ دوررس اثرات مرتب کر رہا ہے اور اس کے مزید گہرے اثرات سامنے آئیں گے۔ اس کا ایک اشارہ قطر کی طرف سے عراق کے کرد علاقوں میں علیحدگی کے لئے مجوزہ ریفرنڈم کی مخالفت ہے، جبکہ امریکہ اور اسرائیل اس ریفرنڈم کی حمایت کرچکے ہیں، اگرچہ بظاہر نیم دلی سے امریکہ فی الحال اس ریفرنڈم کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کرنے کا کہہ رہا ہے۔
قطر نے جس رائے کا اظہار کیا ہے، یہ وہی ہے جو عراق، ترکی، شام اور ایران کی حکومتیں رکھتی ہیں۔ اسی طرح قطر فلسطینی تنظیم حماس کی بھی حمایت کرتا ہے، جبکہ سعودی عرب نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، جبکہ ایران اور ترکی کے حماس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور ان کی قیادت کا دونوں ملکوں کے ہاں خاصا احترام پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اخوان المسلمین کے علاقے کے دسیوں ممالک میں گہرے اثرات ہیں۔ علاقے کی مستقبل کی تشکیل اور صف بندی میں یقینی طور پر اخوان کا کردار اہم ہے۔ اخوان کا سعودی عرب کے اندر بھی خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اس کا ایک حالیہ اظہار سعودی حکومت کی طرف سے اپنے دسیوں علماء اور دانشوروں کی گرفتاریاں ہیں۔ ان میں سے کئی ایک پر الزام ہے کہ وہ اخوان المسلمین کی حمایت کرتے ہیں۔ بعض علماء قطر سے روابط کی بحالی کے حامی ہیں، جس کا اظہار انہوں نے اپنے ٹویٹس میں کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قطر نے شعوری طور پر نئی صف بندی کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply