’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتّل اورہری مرچیں ایک آنے کی ڈھیری۔‘‘ پتہ نہیں سبزی بیچنے والی عورت کا چہرہ کیسا تھا کہ مجھے لگا پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی سار ی سرخی اورہری مرچوں کی ساری خوشبو اس کے چہرے پر موجود تھی۔
ایک بچہ اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔ ایک مٹھی میں اس نے ماں کی چولی پکڑ رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ وہ بار بار پالک کے پتے پر پٹکتا تھا۔ ماں کبھی اس کا ہاتھ پیچھے ہٹاتی تھی اور کبھی پالک کی ڈھیری کو آگے سرکاتی تھی، پر جب اسے دوسری طرف بڑھ کوئی چیز ٹھیک کرنی پڑتی تھی، تو بچے کا ہاتھ پھر پالک کے پتوں پر پڑ جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنے بچے کی مٹھی کھول کر پالک کے پتوں کو چھڑاتے ہوئے گھورکر دیکھا، پر اس کے ہونٹوں کی ہنسی اس کے چہرے کی سلوٹوں میں سے اچھل کر بہنے لگی۔ سامنے پڑی ہوئی ساری سبزیوں پر، جیسے اس نے اپنی ہنسی چھڑک دی ہو اور مجھے لگا کہ ایسی تازی سبزیاں کبھی کہیں اگی نہیں ہوں گی۔
بہت سارے سبزی بیچنے والے میرے گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے تھے۔ کبھی دیر بھی ہو جاتی، پر کسی سے سبزی نہ خرید پاتی تھی۔ روز اس عورت کا چہرہ مجھے بلاتا رہتا تھا۔
اس سے خریدی ہوئی سبزی جب میں کاٹتی، دھوتی اور برتن میں ڈال کر پکانے کے لئے رکھتی توسوچتی رہتی کہ اس کا شوہر کیسا ہو گا۔ وہ جب اپنی بیوی کو دیکھتا ہوگا، چھوتا ہوگا، تو کیا اس کے ہونٹوں میں پالک کا، ٹماٹرو ں کا اورہری مرچوں کا سارا ذائقہ گھل نہ جاتا ہوگا؟
کبھی کبھی مجھے خودپر شرمندگی ہوتی کہ اس عورت کا خیال کس طرح سے میرے پیچھے پڑ گیا تھا۔ ان دنوں میں ایک گجراتی ناول پڑھ رہی تھی۔ اس ناول میں روشنی کی لکیر جیسی ایک لڑکی تھی،جیوی۔ ایک مرد اس کو دیکھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کی زندگی کی رات میں ستاروں کے بیج اگ آئے ہیں۔ وہ ہاتھ لمبے کرتا ہے، پر ستارے ہاتھ نہیں آتے اور وہ مایوس ہو کر جیوی سے کہتا ہے۔
’’تم میرے گاؤں میں اپنی ذات کے کسی آدمی سے شادی کر لو۔ مجھے دور سے تمہاری صورت ہی نظر آتی رہے گی۔‘‘
اس دن کا سورج جب جیوی کو دیکھتا ہے، تو وہ اسی طرح سرخ ہو جاتا ہے، جیسے کسی نے کنواری لڑکی کو چھو لیا ہو۔ کہانی کی ڈوریں لمبی ہو جاتی ہیں اور جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں پڑ جاتی ہیں۔ اس جیوی کا خیال بھی آج کل میرے پیچھے پڑا ہوا تھا، پر مجھے شرمندگی نہیں ہوتی تھی، وہ تو دکھوں کی لکیریں تھیں، وہی لکیریں جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں، لکیروں میں مل جاتی ہیں۔لیکن یہ دوسری جسکے ہونٹوں پر ہنسی کی بوندیں تھیں، اصل میں زعفران کے ریشے تھیں۔
دوسرے دن میں نے اپنے پیروں کو روکا کہ میں اس سے سبزی خریدنے نہیں جاؤں گی۔ چوکیدار سے کہا کہ یہاں جب سبزی بیچنے والا آئے تو میرا دروازہ کھٹکھٹانا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک ایک چیز کو میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ آلو نرم اور داغدار۔ پھر پھلیاں جیسے ان کے دل خشک ہو گئے ہوں۔ پالک جیسے وہ دن بھر کی دھول پھانک کر بہت تھک گئی ہو۔ ٹماٹر جیسے وہ بھوک کی وجہ سے بلکتے ہوئے سو گئے ہوں۔ ہری مرچیں جیسے کسی نے ان کی سانسوں میں سے خوشبو نکال لی ہو، میں نے دروازہ بند کر لیا۔ اور پاؤں میرے روکنے پر بھی اس سبزی والی کی طرف چل پڑے۔
آج اس کے پاس اس کا شوہر بھی موجودتھا۔ وہ منڈی سے سبزی لے کر آیا تھا اور اس کے ساتھ مل کر سبزیوں کو پانی سے دھو کر الگ رکھ رہا تھا اور ان کے بھاؤ لگا رہا تھا۔ اس کی صورت جانی پہچانی سی تھی۔ اسے میں نے کب دیکھا تھا، کہاں دیکھا تھا۔ ایک نئی بات میرے پیچھے پڑ گئی۔
’’بی بی جی آپ!‘‘
’’ ہاں میں، پر میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔‘‘
’’اسے بھی پہچانا نہیں کیا؟ یہ رتنی۔‘‘
’’ مانکو، رتنی۔‘‘ میں نے اپنی یادوں میں ڈھو نڈا، لیکن مانکو اور رتنی کہیں نہیں موجود تھے۔
’’تین سال ہو گئے ہیں، بلکہ مہینہ اوپرہو گیا ہے۔ ایک گاؤں کے پاس کیا نام تھا اس کا بھلا، آپ کی موٹر خراب ہو گئی تھی۔‘‘
’’ ہاں ہوئی تو تھی۔‘‘
’’اور آپ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں بیٹھ کر دھلُیا آئے تھے، نیا ٹائر خریدنے کے لئے۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘ اور پھر میری یادداشت کے نہاں خانوں میں مجھے مانکو اور رتنی مل گئے۔
رتنی تب ادھ کھلی کلی جیسی تھی اور مانکو اسے پرائے پودے پر سے توڑ لایا تھا۔ ٹرک کا ڈرائیورمانکو کا پرانا دوست تھا۔ اس نے رتنی کو لے کر فرار ہونے میں مانکو کی مدد کی تھی۔اس لئے راستے میں وہ مانکو کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہا تھا۔
راستے کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کہیں خربوزے بک رہے ہوتے، کہیں ککڑیاں، کہیں تربوز اورمانکو کا دوست، مانکو سے اونچی آواز میں کہتا، ’’بڑی نرم ہیں، ککڑیاں خرید لے۔ تربوز تو ایک دم لال ہیں اور خربوزہ بالکل میٹھا ہے ۔خریدنا نہیں ہے تو چھین لے واہ رے رانجھے۔‘‘
’’ارے چھوڑ مجھے رانجھا کیوں کہتا ہے؟ رانجھا سالاعاشق تھا کہ حجام تھا؟ ہیر کی ڈولی کے ساتھ بھینسیں ہانک کر چل پڑا۔ میں ہوں ایسابولو۔‘‘
’’واہ رے مانکو۔ توُ تو مرزا ہے مرزا۔‘‘
’’مرزا تو ہوں ہی، اگر کہیں صاحباں نے مروا نہ دیا تو۔‘‘ اور پھرمانکو اپنی رتنی کو چھیڑتا،’’دیکھ رتنی، صاحباں نہ بننا، ہیر بننا۔‘‘
’’واہ ر ے مانکو، تو مرزا اور یہ ہیر۔ یہ بھی جوڑی اچھی بنی۔‘‘ آگے بیٹھا ڈرائیور ہنسا۔
اتنی دیر میں مدھیہ پردیش کا ناکہ گزر گیا اور مہاراشٹر کی سرحد آ گئی۔ یہاں پر ہر ایک موٹر،لاری اور ٹرک کو روکا جاتا تھا۔ مکمل تلاشی لی جاتی تھی کہ کہیں کوئی مارفین، شراب یا کسی طرح کی کوئی اور چیز تو نہیں لے جا رہا۔ ٹرک کی بھی تلاشی لی گئی۔ کچھ نہ ملا اور ٹرک کو آگے جانے کیلئے راستہ دے دیا گیا۔ جوں ہی ٹرک آگے بڑھا،مانکو بے تحاشا ہنس دیا۔
’’سالے مارفین تلاش کرتے ہیں، شراب تلاش کرتے ہیں۔ میں جو نشے کی بوتل لے جا رہا ہوں، سالوں کو نظر آئی ہی نہیں۔‘‘
اور رتنی پہلے اپنے آپ میں سکڑ گئی اور پھر دل کی ساری پتیوں کو کھول کر کہنے لگی،’’دیکھ کہیں نشے کی بوتل توڑ نہ دینا۔ سارے ٹکڑے تمہارے تلووں میں اتر جائیں گے۔‘‘
’’کہیں ڈوب مر۔‘‘
’’میں تو ڈوب جاؤں گی،تم گر سمندر بن جاؤ۔‘‘
میں سن رہی تھی، ہنس رہی تھی اور پھر ایک دکھ سا میرے دل میں ابھرآیا،’’ ہائے ری عورت، ڈوبنے کیلئے بھی تیار ہے، اگر تیرا چاہنے والا ایک سمندر ہو۔‘‘
پھر دھلیا آ گیا۔ ہم ٹرک میں سے اتر گئے اور چند منٹ تک ایک خیال میرے دل کو کریدتا رہا۔ یہ’’رتنی‘‘ایک ادھ کھلی کلی جیسی لڑکی۔مانکو اسے پتہ نہیں کہاں سے توڑ لایا تھا۔ کیا اس کلی کو وہ اپنی زندگی میں مہکنے دے گا؟ یہ کلی کہیں قدموں میں ہی تو نہیں مسلی جائے گی؟
گزشتہ دنوں دہلی میں ایک واقعہ ہوا تھا۔ ایک لڑکی کو ایک ماسٹر وائلن سکھایا کرتا تھا اور پھر دونوں نے سوچا کہ وہ بمبئی بھاگ جائیں۔ وہاں وہ گایا کرے گی، وہ وائلن بجایا کرے گا۔ روز جب ماسٹر آتا، وہ لڑکی اپنا ایک آدھ کپڑا اس کو پکڑ ا دیتی اور اسے و ہ وائلن کے ٹوکری میں رکھ کر لے جاتا۔ اس طرح تقریباً مہینے بھر میں ،اس لڑکی نے کئی کپڑے ماسٹر کے گھر بھیج دیے اور پھر جب وہ اپنے تین کپڑوں میں گھر سے نکلی، کسی کے ذہن میں شک کے سائے تک نہ تھے۔ اور پھر اس لڑکی کا بھی وہی انجام ہوا، جو اس سے پہلے کئی اور لڑکیوں کا ہو چکا تھا اور اس کے بعد کئی اور لڑکیوں کا ہونا باقی تھا۔ وہ لڑکی بمبئی پہنچ کر فن کی مورتی نہیں، آرٹ کی قبر بن گئی اور میں سوچ رہی تھی، یہ رتنی، یہ رتنی کیا بنے گی؟
آج تین سال بعد میں نے رتنی کو دیکھا۔ ہنسی کے پانی سے وہ سبزیوں کو تازہ کر رہی تھی۔’’پالک ایک آنے گٹھی، ٹماٹر چھ آنے رتل اورہری مرچیں ایک آنے ڈھیری۔‘‘ اس کے چہرے پر پالک کے پتوں کی ساری نرمی، ٹماٹروں کی سار ی سرخی اورہری مرچوں کی ساری خوشبو موجود تھی۔
جیوی کے چہرے پر دکھوں کی لکیریں تھیں ، و ہی لکیریں ، جو میرے گیتوں میں تھیں اور لکیریں لکیروں میں مل گئی تھیں۔
رتنی کے چہرے پر ہنسی کی بوندیں تھیں، وہ ہنسی، جب خواب میں اگ آئیں، توا وس کی بوندوں کی طرح ان پتیوں پر پڑ جاتے ہیں اور وہ خواب میرے گیتوں کے بند بنتے تھے۔
جو خواب جیوی کے دل میں تھا، وہی خواب رتنی کے دل میں تھا۔ جیوی کا خواب ایک ناول کے آنسو بن گیا اور رتنی کا خواب گیتوں کے بند توڑ کر آج اس کی جھولی میں دودھ پی رہا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں