تعلیم (19)۔۔وہاراامباکر

آپ نے ایک روایتی کمرہ جماعت میں استاد کا لیکچر سنا ہو گا۔ یہ دماغ کو تبدیل کرنے کا بہت موثر طریقہ نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ طلبا کی شرکت یکطرفہ کمیونیکیشن سے نہیں ہوتی۔ اور شرکت کے بغیر پلاسٹسٹی کا جادو کام نہیں کرتا۔ انفارمیشن چپکتی نہیں ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کوئی نئی دریافت ہے۔ قدیم یونانیوں نے بھی اس کو نوٹس کیا تھا۔ تجسس، شرکت اور دلچسپی کو سیکھنے کی شرط کہا جاتا تھا۔ کئی پرانی روایتی مذہبی درسگاہوں میں بھی شرکت کے طریقے کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اچھے مناظرے کی روایت، گروپ میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے دلچسپ سوالات کرنا (اس جگہ پر فلاں لفظ ہی کیوں استعمال کیا گیا؟ ان دونوں علماء کی آراء میں بنیادی فرق کہاں پر ہے؟) ہر چیز کو سوال کے طور پر اٹھایا جانا اور یاد کرنے کے بجائے شرکت پر زور دینا بہت کارگر رہتا ہے۔
پبلک ایجوکیشن میں مسئلہ یہ ہے کہ طلباء اور اساتذہ میں تناسب میں بہت فرق ہے جس وجہ سے ون ٹو ون شرکت نہیں ہو سکتی۔ لیکن ڈیجیٹل دنیا اس کو تبدیل کر رہی ہے۔ جب ایک طالب علم وکی پیڈیا کو صفحہ در صفحہ کھودتا چلا جا رہا ہے، اسے اپنی سمت کا خود بھی اندازہ نہیں، تو یہ سیکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ذہن میں سوال امڈتا ہے، تجسس کا شعلہ جلتا ہے، انٹرنیٹ سے جواب ملتا ہے جس سے نئے سوال جنم لیتے ہیں اور وہ کسی اور ٹاپک پر لے جاتے ہیں۔ تلاش کرنے سے جواب مل جانا، تجسس کی تسکین ہو جانا، وہ انعام ہے جو اس تحریک کو جاری رکھتا ہے۔ اس کو Just in Time Information کہیں گے یعنی کہ انفارمیشن اس وقت ملی جب وقتِ ضرورت تھا۔ روایتی طریقہ Just in Case Information ہے جس میں کچھ فیکٹ یاد رکھ لئے جاتے ہیں تا کہ بوقتِ ضرورت کام آ سکیں۔ اور ان میں سے پہلا طریقہ کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس طریقے میں دماغ میں نیوروموڈولیٹرز کی یخنی ٹھیک مقدار موجود ہوتی ہے جو دماغ میں فزیکل تبدیلی آسانی سے کر سکتی ہے۔
چینی قدیم محاورہ ہے، “دانا شخص کے ساتھ گزارا گیا ایک گھنٹہ ایک ہزار کتابیں پڑھنے سے زیادہ فائدہ مند ہے”۔ یہ قدیم دانائی انٹرنیٹ عمل میں لا سکتا ہے۔ کیونکہ اب سیکھنے والا کسی لگے بندھے سکرپٹ کے مطابق نہیں بلکہ اپنی مرضی اور اپنے تجسس سے سیکھ رہا ہے۔ دانا سے وہی سوال کر رہا ہے جو دماغ میں امڈا تھا۔ انفارمیشن کے متعلقہ ہونے اور انعام کے موجود ہونے کی وجہ سے دماغ کنفگریشن تبدیل کر لیتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ایک غیرمتجسس طالب علم کو فیکٹ بتانا ایسا ہے جیسے پتھر کی دیوار پر کنکر مارے جائیں۔ یہ نکمے فریڈ ولیمز کو ٹینس سکھانے والی بات ہے۔ یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔
تعلیمی نظام میں اس تصور کا داخل ہونا بہت بڑے مواقع رکھتا ہے۔ Adaptive Learning اور ایڈاپٹو سافٹ وئیر، جہاں ٹھیک جواب حاصل کرنا مشکل ہو لیکن پہنچ میں ہو۔ اور سوالات کی مشکل کا لیول کارکردگی کے ساتھ ایڈجسٹ ہوتا رہا۔ اساتذہ کا کردار بنیادی تصورات سمجھانا اور سیکھنے کا راستہ دینا ہو۔ لیکن دماغ کے ایڈاپٹ ہونے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا لینے والا کلاس روم ایسا ہو گا جس میں طلباء انسانی نالج کی وسیع دنیا میں اپنے انفرادی شوق کی مشعل کی روشنی میں سفر کر سکیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سوال باقی ہے۔ دماغ کی وائرنگ تجربات کے مطابق تبدیل ہوتی ہے تو پھر کیا وہ نسل جو سکرین کے سامنے بڑی ہو رہی ہے، اپنے سے پچھلی نسل کے مقابلے میں دماغی سٹرکچر میں کچھ بنیادی تبدیلی بھی رکھتی ہے؟
نیوروسائنس پر اس موضوع کو سٹڈی نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی اچھا کنٹرول گروپ نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن کیا جیب میں رکھے ایک آلے کے ذریعے دنیا جہاں کے علم تک رسائی حاصل ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے بچے ایک ایسے دور کے ہیں جو پہلے کبھی نہیں رہا۔ ہمارے علم کی دنیا کے فیکٹ انسانی دماغوں میں کراس لنک ہو سکتے ہیں اور ایسے نئے خیالات تخلیق کر سکتے ہیں جو پہلے کی دنیا میں ناقابلِ تصور ہوتے۔ تیزرفتار رابطوں اور خیالات کے ملاپ کے سیاسی اور سماجی اثرات کیا ہوں گے؟ معلوم نہیں۔ لیکن یہ تعلیم کے ایک نئے لیول کو غیرمقفل کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ جسم کے سینسرز اور اعضاء کے مطابق ڈھلتا ہے لیکن ان تبدیلیوں کا بڑا تعلق relevance سے ہے۔ دماغ اس چیز کے مطابق تبدیل ہوتا ہے جس پر وقت لگایا جاتا ہے، لیکن صرف اس وقت جب مقاصد اور انعام اس سے ہم آہنگ ہوں۔ ایک نابینا کے لئے دوسری حسیات زیادہ جگہ لے کر بہتر ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس کا گہرا اصول یہ ہے کہ ان کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اگر ایک نابینا اپنی انگلیاں بریل پر پھیرتا رہے لیکن اس کا اپنا ارادہ نہ ہو کہ وہ اس کو سیکھے تو کوئی ری وائرنگ
نہیں ہو گی۔ ٹھیک نیوروموڈولیٹر نہیں ہو گا۔ اسی طرح، اگر ایک مصنوعی بازو کا اضافہ کر دیا جائے اور اس کی اہمیت اور relevance ہو تو پھر یہ جسم کا حصہ بن سکے گا۔
اہمیت اور متعلقہ ہونے کا اصول ہمیں یہ سمجھنا ممکن بناتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جاندار زخمی ہوتے ہیں لیکن بائیولوجیکل مشین پھر بھی چلتی رہتی ہے۔ دماغ ضروری تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔ اس سے ہم مصنوعی مشینیں بہتر کرنے کے لئے اصول سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک اور سوال کا جواب سوچنا پڑے گا۔
ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی چیز کی قدر اس کے چھن جانے بعد ہوتی ہے؟ کسی کے چلے جانے کے بعد ہی احساس ہوتا ہے کہ اس کی یاد کس قدر ستائے گی؟
نہیں، یہ شاعرانہ بات نہیں۔ دماغ کے کام کرنے کا طریقہ ہے۔ جو سامنے ہے، اس کو غائب کر دینے کی مہارت اس کا خاص فن ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply