ادب کے تنقیدی نظریے سے بیزاری۔۔۔احمد سہیل

چند پوشیدہ نکات و معروضات

Advertisements
julia rana solicitors

ادبی تنقیدی نظریہ عملی اور اطلاقی متنون کا ادبی رویّوں کا قرات کا نظریہ ہے۔ جس میں ادب کو چند اصولوں کے ساتھ معنویت، مفاہیم، تشریح متن، اسر نو متنی قرات، بیانیے کی حرکیات کو مختلف اصناف ادب کے حوالے سے پرکھتی اور تجزیہ کرتی ہے  ۔ ادبی نظریے  میں تفہیم کی مناجیات تاریک کے علاوہ آئیڈیالوجیکل خاکہ کاری { فریم ورک}کا مسئلہ رہا ہے جس کے بطن میں ثقافت اور دانش کے انسلاکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔
اردو میں ادبی تنقیدی نظریے کے قاری کم ہیں۔ اس کی وجہ اس کی پیچیدگیاں، لفظیاتی، کشافی اور اصطلاحی سے خوف آتا ہے۔ اس لیے اس کا ادراک اور اس کی تفہیم کٹھن ہوجاتی ہے۔ اصل میں یہ کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی جو قاری نہیں سمجھ پائے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ قاری ادب کو ” لطیف” اور صحافیانہ” انداز میں پڑھنے کا عادی ہے اور وہ اسے اسی انداز میں  ہی سوچتا  بھی ہے۔ اس میں قاری کا عدم مطالعہ، کاہلی، سستی، وسیع النظری کا  فقدان اور فکری اغماّض ہوتا ہے۔ یہ عوامل سطحیت کو جنم دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ قراتی عمل سے دستبردار ہوکر پسپائیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ متن کی قرات، اس کی ترجیحات اور قاری  کا اپنی ذہنی استعداد اور اہلیت کو جانے بغیر  اس میدان میں کود پڑنا بھی ہوتا ہے۔
ادبی تنقیدی نظریہ متن کے مطالعے کے لیے’ مسلم السنا'{HEGEMONIC} طریقہ مناجیات بن چکا ہے۔ جو ایک ذیلی نظم وضبط کے طور پر ایک حساس اور نازک رسائی کا  ذریعہ بنتا ہے۔ جسم میں پیچیدہ ادبی متنون کا گہرائی سے قرات اور اس کی معنویت کو دریافت کرکے معنی  کو پیچیدگیوں اور ابہام سے آزاد کرواکر آسان فہم بناتا ہے۔ پھر ان موضوعات کو وسیع کرکے نئے متنوں، تحریکوں، موضوعات اور فکر کو نیا اسلوبیاتی اور دانش ورانہ میدان بھی عطا کرتی ہیں۔ جو دنیا کی عصری ادبیات میں جدید ادبی تنقیدی نظریاتی مطالعوں میں بھی متحرک نظر آتا ہے۔ روز بروز اس میں نئے اضافے ہورہے ہیں۔ جو ایک نظریاتی” انٹر پرائز ” کا حصہ بن جاتی ہے۔ اور اس کے  اصول مصنیفیں اور ناقدین کے لیے اس کی اقسام کاری اور سوانح نگاری کے لیے مشکلات پیدا کرتے  ہیں، مگر یہ بتدریج ترقی پذیر تنقیدی نظریات کا ایک پہلو ہے جو تنقیدی نظریے کا مثبت وظیفہ بھی ہے۔ شاید اسی وجہ سے نئی فکریات میں اسے اعتماد بھی حاصل ہورہا ہے اور یہ ناممکنات فکری میدانوں میں معاشرتی، ثقافتی مباحث کو اگر وہ معاشرتی قیود اورحصار کی وجہ سے تشریح نہیں کر پاتا تواس کو زمانی اور مکانی قیود اور حصار سے باہر نکال کر دوسرے معاشرتی فکری سیاق میں اسے آگہی اور ادراک میں لاکر اس کی تفہیمات اور تشریحات کی کوشش کرتا ہے، ساتھ ہی ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرکے اپنے طور پریہ کوشش کی جاتی ہے جو فلسفیانہ سطح پر ادب، تاریخ تہذیب، ثقافت اور فلسفے کے میدان میں ایک چیلنج بن جاتا ہے بھر اس میں  قابل اطلاق، عملیاتی میدانوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اور اس عمل میں لسانیات، فلسفہ، نفسیات، عمرانیات، بشریات، نشانیات اور دیگر معاشرتی علوم اور غیر ” انگولا فون” {ANGLOPHONE} کی روایات کے طور پر اپنا کار منصبی ادا کرتا ہے۔ اس کی دائمی حدود ادبی تنقیدی نظریاتی ناقد ، معاصر علما اور اہل دانش کے ساتھ مشاورت سے باہم  ہوکر اس کی ہیت ا ور حدود متعین کرتا ہے۔ اور نئے ادبی تشخص اور تفتیش کر کے نئے سرے سے بھی سوالات اٹھاتا ہے، ساتھ ہی اس پر مباحث اور محاکمے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ کیونکہ ادبی تنقید نظریہ سکہ بند اور جامد نہیں ہوتا، یہ بدلتے رہتے ہیں ان میں لچک ہوتی ہے اور کھلے دل و دماغ سے مثبت تنقید کو خوش آمدید کہتا ہے ۔ اس سے بڑا ادب اورتنقیدی فکریات دریافت ہی نہیں ہوتی بلکہ فکری اور جمالیاتی سطح پر ادب کو قدر و منزلت ملتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply