زہر جو خٹکزینے میں پھیلتا جارہا ہے۔۔عارف خٹک

گاؤں کی زندگی بھی کیا زندگی ہوتی ہے،اور گاؤں اگر ہمارا کرک ہو ،تو یہی زندگی پھر المیہ بن جاتی ہے۔ میرے کرک کی جو زندگی جامد کرکے سنہ 1996 میں چھوڑ آیا تھا ۔ سنہ 2021 کے سنگم پہ گُزرتے اس لمحے میں بھی وہی رنگ ڈھنگ، وہی سادگی اور وہی لچّرپن لیے ہوئے  ہے۔

غیر اور اجنبی مردوں کو آج بھی میرے گاؤں کی بہن بیٹیاں اُسی طرح سلام کرتی ہیں،جو 1996 میں کرتی تھیں۔ آج بھی مردوں کو دیکھ  کر کھوتیاں اپنا رستہ بدل دیتی ہیں، جو کبھی ہمارے  آباواجداد کو دیکھ کر بدلنے کا اُن کا خاصہ تھا۔ آج بھی گاؤں میں کوئی عورت سُنسان دوپہر میں آپ کو کھوتی سے پانچ فٹ کے فاصلے پر دیکھ لے،تو فوراً پوچھ لیتی ہے کہ۔۔؟
“پو خرے سہ کوے؟”۔(گدھی کے ساتھ کیا کررہے؟)
ہمارے گاؤں میں شادی کے دن بڑی بوڑھیاں دُلہن کو ہاتھ اُوپر اُٹھانے کا حکم دیکر گول گول گُھومنے کا کہتی تھیں۔آج بھی گریجویٹ دُلہنیں ہاتھ اُٹھا کر گول گول گھوم کر مطمئن کرتی ہیں،کہ اثاثے قابل گرفت ہیں یا نہیں۔

مجھے یاد ہے ہمارے گاؤں سے ملحقہ گاؤں میں ایک بندہ پنجاب سے بیوی بیاہ کر لایا۔کیوں کہ پیسوں کے عوض اس کی اوقات گاؤں کی کسی عورت سے شادی کرنے کی نہیں تھی ۔ لہذا گاؤں کی ساری خواتین پنجابی دُلہن کو دیکھنے اس کے گھر جمع ہوئیں۔اپنے تئیں دُلہن کا بناؤ سنگھار کرکے جب اُن کے سامنے لایا گیا، تو ساری خواتین نے دو ہتھڑ اپنے سینوں پر مار کے دُلہا کو باجماعت لعنت دی ۔
“تیرا بیڑہ غرق ہو امیر محمدا،نہ تو اس کا سینہ ہے نہ  ہی کولہے،اس سے بہتر تھا کہ تو عبدالرؤف سے شادی کرلیتا،کم از کم اپنے گاؤں کا تو تھا”۔

سالوں پیشتر اپنی شہری بیوی کو ساری تفصیلات سمجھا کر گاؤں لےگیا۔تو خواتین کی معنی خیز نگاہیں خود پر جمی دیکھ کر وہ بغیر بات سُنے چارپائی سے اُٹھ جاتی ۔اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر گول گول گُھومنے لگتی۔جواباً خواتین کی سراہتی نگاہیں میری طرف اُٹھ جاتیں۔۔کہ ماشاءاللہ امیر محمد جیسا کام نہیں کیا ہے۔

ابا کے چالیسویں پر حجرے میں مہمانوں کے ساتھ بیٹھا تعزیت وصول کرتا رہا ۔کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ نوجوان جو دوسرے پسماندہ گاؤں سے تھے۔ پسماندہ اس حوالے سے کہ وہاں موبائل کے سگنل ابھی تک نہیں پہنچے تھے،نہ  ہی وہاں بجلی ہے جو کہ ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔ بس اُنہوں نے ووٹ پاکستان تحریک انصاف کو نہ دے کر یہ ثابت کیا،کہ وہ ازلی جاہل پٹواری ہیں۔ اُن نوجوانوں نے کس کر دنداسہ ملا تھا۔ آنکھوں میں ٹرک بھر بھر کے سُرمہ ڈالا تھا۔ تلّے دار کھیڑیاں پہنی ہوئی تھیں۔ گھٹنوں سے نیچے لٹکتے رنگین پھولدار ناڑے آنکھوں کو بہت بھلے محسوس ہو رہے تھے۔ میں اُٹھ کر اُن کے پاس جا بیٹھا۔ اُن کے لہجوں میں ابھی تک خوشال خٹک والی کھنک باقی تھی۔ اُن کی باتیں ابھی تک مصنوعی پن سے مبّرا تھیں۔ اُن کی آوازوں میں وہی خالص مردانہ گُونج باقی تھی۔ جو میں 1996 میں اپنے گاؤں چھوڑ  آیا  تھا۔ ویسی ہی مردانگی،جو کسی انسان کی خاطر اپنا سر کٹوانے کو تیار ہوجاتی ہے۔ پانچ وقت کی نمازوں کے بعد ان کے مسائل حجروں میں طے کیے جاتے تھے۔ جہاں امام مسجد کا کام فقط اتنا ہوتا تھا کہ کوئی فیصلہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کل سے سوچ رہا ہوں کہ ایسے نرم دل اور اُصولوں پر کٹ مرنےوالے لوگ کیسے کسی کی سمادھی کو مسمار کرسکتے ہیں۔ ایسے سیدھے سادے لوگ جو اپنے حقوق سے آج بھی اتنے بے خبر ہیں جتنے انگریز سرکار کے زمانے میں تھے۔ آج بھی ان کو بانڈہ گیس پلانٹ پر چوکیداری کی نوکری کی چاہ ہے۔ آج بھی دو وقت کی روٹی کھاکر شکر ادا کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے۔ ایسے لوگ کیسے بے رحمی سے کدالیں لے کر کسی کے عبادت خانے کو مسمار کرسکتے ہیں۔وہ سادہ دل ،خلوص اور محبتوں کے نغمے گاتے لوگ جن کے گھر وں میں آج بھی ٹیری کے پریم چند کی کہانیاں الاؤ کے گرد سُنائی جاتی ہیں۔کہ ایک ہندو دوست نے ایک مسلمان دوست کی خاطر گائے کا گوشت کھا کر یہ ثابت کردیا، کہ دوستی عقیدے اور رسوم سے بالاتر چیز ہوتی ہے۔ جہاں کی بڑی بوڑھیاں سنہ 1994 تک شادیوں میں دُلہنوں کی مانگ میں سندور بھر کر اپنی ہندو سہیلیوں کو یاد کرکے آرزدہ ہو جاتی تھیں۔میری دادی کے صندوق میں آج بھی کسی سہیلی کے ہاتھ کی سندور کی شیشیاں رکھی ہیں۔پھر کیسے بےحسی اور سنگدلی کا عفریت ان کے بیچ اچانک سے گُھس آیا۔دل و دماغ دونوں ہی یہ بات ماننے کو تیار نہیں سوائے اس کے۔۔
“کہ ضرور یہ زہر باہر سے ہی کوئی ہمارے اندر اُنڈیل رہا ہے۔

Facebook Comments