لیاری ۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط1

11 ستمبر 2001 کے حملوں کے دوران میں سندھ اسمبلی بلڈنگ کے سامنے واقع “رضا ٹریول” میں بکنگ و ٹکٹ ایجنٹ تھا ـ تھری پیس سوٹ پہنے، چہرے پر نمائشی مسکراہٹ سجائے، کارپوریٹ سیکٹر کے بابو لوگوں کے ہوائی سفر کو مرتب کرنے کا کام میرے لیے سوہانِ روح تھا ـ پیٹ، مزاج پر حاوی ہوتا ہے سو کررہا تھا ـ

دنیا کے دیگر مقامات کی طرح ہمارے آفس میں بھی یہ حملے موضوعِ بحث بن گئے ـ ہمارے ساتھ ان حملوں کا یوں بھی تعلق تھا کہ اس سانحے نے ٹکٹنگ بزنس کو عرش سے فرش پر پٹخ دیا تھا ـ

چار افراد کے علاوہ میرے تمام کولیگز ان حملوں پر ایسے خوش تھے جیسے سانحہ نہ ہوا حلوائی کی دوکان پر دادا جی کا فاتحہ ہوا ـ ہزاروں افراد کی موت پر خوشی کے اس اظہار نے “پڑھے لکھے” کراچی سے مجھے متنفر کر دیا ـ چار افراد میں سے دو کیتھولیک مسیحی ایلوس فرنینڈس اور نیلسن فرنینڈس تھے ـ

ان دونوں کا تعلق گوا کی کرسچن برادری سے تھا ـ کینٹ کا علاقہ اس برادری کا گڑھ ہے ـ کافی تعلیم یافتہ اور مہذب برادری ہے ـ نیلسن البتہ مسیحی طالبان تھا ـ ایک دن میں نے نیلسن سے پوچھا، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں کیا فرق ہے؟ ـ اس نے ترنت جواب دیا، وہی جو تم لوگوں میں اور شیعوں میں ہے ـ میرے نرم خیالات سے آگاہی ملنے کے بعد نیلسن اکثر مجھے بتایا کرتا تھا کہ دنیا کے کمینے ترین لوگ، میاں لوگ (مسلمان) ہوتے ہیں ـ ایلوس ایسے فضول جھمیلوں سے دور خالصتاً پروفیشنل نوجوان تھا ـ آفس کے دیگر افراد ان کو پیٹھ پیچھے “بھنگی” بلاتے تھے ـ

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے دیگر دو مخالفین میں سے ایک تو میں تھا، دوسرے ہمارے جنرل منیجر ظفر کریم بلوچ تھے ـ ظفر کریم بلوچ، بلوچی زبان کے ادیب ہیں ـ وہ بسا اوقات اردو شاعری کا بھی شوق فرماتے ہیں ـ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں ـ میرے والد کی درخواست پر مجھے ٹریول ایجنسی کے شعبے میں لانے کا گناہ بھی انہی کے سر جاتا ہے ـ ظفر صاحب بحث مباحثے سے گریز کرتے تھے، اس لیے ان کے خیالات کا صرف مجھے ہی علم تھا ـ

انہی دنوں ایک دن گرما گرم بحث کے دوران اعجاز نامی کولیگ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ وہ تو چلو عیسائی کافر ہیں تم مسلمان ہو کر بھی یہودی عیسائیوں کے مرنے پر دکھی ہو، افسوس کی بات ہے ـ ہمارے اکاؤنٹنٹ بلال صدیقی نے طنزاً کہا “لیاری والوں سے اور کس چیز کی امید رکھی جا سکتی ہے، لیاری اور جہالت ایک ہی چیز ہے” ـ

بلال صدیقی ملیر کھوکھراپار کا اردو اسپیکنگ تھا ـ اس کے بقول نہ وہ کبھی لیاری گیا اور نہ ہی کبھی جائے گا ـ بقول اس کے وہ اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا ـ

لیاری کو بغیر دیکھے و جانے اس کے متعلق منفی رائے رکھنا میرے لیے معمول کی بات ہے ـ ایسا صرف کراچی میں نہیں بلوچستان کے متعدد بلوچ بھی لیاری کے حوالے سے انتہائی یک رخے ہیں ـ تکلیف دہ ہے، مگر حقیقت ہے ـ

لیاری اتنا بدنام کیوں ہے؟ ـ سوال اچھا ہے ـ اس کا شافی جواب لیکن میں آج تک نہ ڈھونڈھ سکا ـ قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں، اندازوں کے دریا میں غوطہ خوری ممکن ہے مگر یقین کا پودا کھلانا کم از کم میرے بس میں نہیں ـ

لیاری میں گینگسٹر کلچر نئی صدی کی پیداوار ہے ـ اس سے قبل غنڈے ہوتے تھے، منشیات کے اڈے بھی چلتے تھے، اِکا دُکا رہزنی کے واقعات بھی ہوتے رہتے تھے ـ یہ سب کچھ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی عام تھے بلکہ ضلع وسطی جہاں نوے فیصد ایم کیو ایم کی بادشاہت تھی وہاں تو تشدد کے خوف ناک واقعات ہوتے تھے ـ فرقہ واریت اور لسانی فسادات سے بھی لیاری کا دامن پاک رہا ہے ـ

اس کے برخلاف لیاری ہمیشہ سے علم و ثقافت اور ترقی پسند سیاست کا محور و مرکز رہا ہے ـ تقسیمِ ہند سے قبل بھی لیاری کی شناخت اینٹی ایمپیریلسٹ خطے کی رہی ہے ـ بلوچوں کی پہلی سیاسی جماعت ، مسلم لیگ کی فرقہ پسندی کے مقابل “بلوچ لیگ” بنانے کا سہرا بھی اہلیانِ لیاری کے سر جاتا ہے ـ

میرے دادا کامریڈ جمعہ بلوچ کی یادداشتوں کے مطابق بلوچ لیگ 1926 یا 1927 میں لیاری کے سرکردہ دانش وروں اور سیاسی رہنماؤں نے بنائی ـ ماہرِ تعلیم غلام محمد نورالدین، شہر کی بڑی سیاسی شخصیت خان بہادر اللہ بخش خان گبول، مولانا عبدالصمد سربازی، محراب خان، پیر بخش شھداد وغیرہ نے کراچی سمیت بلوچستان بھر کے بلوچوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے اس کی بنیاد رکھی ـ بعد کے سالوں میں علی گڑھ سے لوٹنے والے جید بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے بھی اس میں شامل ہو کر اسے مزید عزت بخشی ـ

لیاری کو سیاسی شعور کی اس منزل تک پہنچنے میں بہرکیف کافی وقت لگا ـ ایک صدی سے بھی زائد ـ اس کی شروعات 1790 کے آس پاس ایرانی شہنشاہوں کی جارحیت سے ہوئی ـ

1789 کو ایرانی سلطنت پر ترک نژاد قاجار حکمرانوں نے قبضہ کر لیا ـ تہران کو مرکز بنا کر انہوں نے ایران کے مختلف علاقوں تک اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کا آغاز کر دیا ـ انیسویں صدی کے اوائل میں انہوں نے بلوچستان کو بھی اپنی قلمرو میں شامل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ـ پہلے پہل “بم” نشانہ بنا پھر رفتہ رفتہ قاجار لشکر نرماشیر کو تاراج کرتا بمپور پہنچا ـ اس زمانے میں بمپور کو مغربی بلوچستان کے سب سے بڑے اور پرہجوم شہر کا درجہ حاصل تھا ـ قاجار لشکر نے بمپور کو مستقر بنا کر باقی ماندہ بلوچستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ـ

ہزاروں مسلح ترکوں کے سامنے غیر منظم بلوچ دیہاتیوں کی ایک نہ چلی ـ کچھ لڑ کٹ کر مرگئے، کوئی غلام بنا، کچھ نے اطاعت اختیار کر لی اور کچھ نے ہجرت کا فیصلہ کیا ـ بمپور، لاشار، کسرکند، سرباز، سراوان وغیرہ سے سیکڑوں بلوچوں نے رختِ سفر باندھا اور مہینوں کی خواری کے بعد کیچ مکران کے راستے گرتے پڑتے کراچی پہنچے ـ

مغربی بلوچستان سے آنے والے بلوچوں نے کراچی کے مضافات میں ڈیرہ جمایا ـ شہر کے قبرستان کے عقب میں لیاری ندی تک کا علاقہ ایک ویران جنگل تھا ـ جہاں جنگلی جانوروں کا بسیرا تھا ـ ویرانی کی وجہ سے شہری اسے لیاری یعنی ایسی جگہ جہاں سناٹا ہو کے نام سے پکارتے تھے ـ لٹے پٹے مہاجرین نے اسے آباد کر کے شہر کا اہم ترین خطہ بنا دیا ـ ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد کراچی میں مہاجرین کا ایک اور ریلا آیا اور ان مہاجرین کا بھی پہلا پڑاؤ لیاری قرار پایا ـ تاہم یہ مہاجرین بلوچستان سے نہیں، شمالی ہندوستان سے آئے ـ

کراچی پہنچنے والے ان بلوچوں کو کسی اجنبیت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ شہر اور اس کے مضافات میں کیچ مکران کے علاقے “کلانچ” سے تعلق رکھنے والے بلوچوں سمیت کلمتی اور براہوی بلوچوں کی بھی معقول تعداد پہلے سے ہی رہائش پذیر تھی ـ

مانا جاتا ہے کراچی کا موجودہ نام بھی کلانچ کے بلوچوں نے ہی “کلانچی” رکھا جو رفتہ رفتہ کلاچی سے سندھی زبان میں ڈھل کر کراچی کا روپ دھار گیا ـ بعض محققین کی رائے ہے کہ کلانچ سے تعلق رکھنے والی ماہی گیر خاتون “مائی کُلاچی” نے موجودہ شہر کی بنیاد رکھی ـ بہرحال جو بھی ہے، کلانچ اور کراچی کا قدیم تعلق ثابت ہے ـ

کلمتی البتہ اس دور کے شہری مرکز سے دور رہائش پذیر تھے ـ کلمتی غالباً کلہوڑہ دور میں کراچی آئے تھے ـ ان کے اور مقامی جھوکیہ قبائل کے درمیان بڑی بڑی جنگوں کا احوال بھی ملتا ہے ـ سمندر اور اس کے قرب و جوار میں موہاڑ، بھیل جیسی سندھی نژاد ماہی گیر ذاتیں اور ریاست قلات سے آنے والے براہوی بولنے والے بلوچوں کا بسیرا بھی تھا ـ براہوی قبائل کا مسکن گزری کا علاقہ تھا، جہاں گئے وقتوں میں خان آف قلات کی بیٹھک ہوا کرتی تھی ـ خان قلات سے متعلق یہ عمارت آج بھی موجود ہے مگر اردگرد بننے والی نئی آبادیوں نے آج اسے چھپا دیا ہے ـ

مجھے 2010 کو اس وسیع و عریض عمارت میں جانے کا موقع ملا ـ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اتنی بڑی زمین پر کوئی بھی مستقل نہیں رہتا ـ اس زمانے میں عمارت کے ایک کمرے میں بلوچ تحریک کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک میر عبدالنبی بنگلزئی قیام پذیر تھے ـ میر بنگلزئی چند مہینے قبل طویل اسیری کے بعد جیل سے رہا ہوئے تھے ـ موصوف آج کل مسلح تحریک کے ایک دھڑے کی قیادت کر رہے ہیں ـ

جلد ہی مغربی بلوچستان کے نووارد مقامی افراد سے گُھل مِل گئے ـ قاجار لشکر کے ستائے بعض گھرانوں نے کراچی کو مستقل ٹھکانہ بنانے سے گریز کر کے میرپور خاص، ٹنڈو آدم، ڈگری، کلر شاخ، ٹنڈو غلام علی وغیرہ کا رخ کیا ـ

دوسری جانب قاجار حکمران مسلسل بلوچستان کی سرزمین کو اپنی سلطنت کا حصہ بناتے جا رہے تھے ـ ان کا ارادہ گوادر ، کیچ اور پنجگور پر بھی قبضہ کرنے کا تھا ـ بے دست و پا اور نالائق ریاستِ قلات سکڑتی جا رہی تھی ـ قریب تھا کہ قاجار اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاتے، ایسے میں چالاک انگریز آڑے آئے ـ انگریز اور قاجار کے درمیان مذاکرات ہوئے ، ٹیبل پر بلوچستان دو طاقتوں کے درمیان تقسیم ہوگیا ـ خان قلات دو طاقتوں کے درمیان اپنی ریاست کی تقسیم کو بے بسی سے دیکھتے رہے ـ تقسیم کے بعد بلوچستان میں “امن” قائم ہوگیا اور ہجرتوں کا سلسلہ عارضی طور پر تھم گیا ـ البتہ بلوچی زبان کی ڈکشنری میں ایک نئے لفظ “گجر” کا اضافہ ہوگیا جو “قاجار” کا بلوچی تلفظ ہے ـ

مغربی بلوچستان کی اجتماعی نفسیات میں “قاجار” ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئے ـ آج بھی وہاں کے بلوچ، غیر بلوچوں کو “گجر” کہہ کر پکارتے ہیں ـ وہ غیر بلوچ جو گجر کے تاریخی پسِ منظر سے واقف ہیں انہیں اس اصطلاح سے شدید تکلیف پہنچتی ہے ـ میرے ایک عزیز بزرگ، امیر بہمن عامری اصفہان کے جاگیردار خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ـ انہوں نے ایک دفعہ مجھے غصے سے کہا ؛ میں نے اور میرے پورے خاندان کے کسی بھی فرد نے نہ بلوچوں پر حملہ کیا، نہ کسی تاریخی ظلم و ستم میں ہمارا حصہ ہے مگر پھر بھی یہ جاہل بلوچ مجھے گجر جیسے توہین آمیز نام سے پکارتے ہیں ـ میرا مشاہدہ ہے نئی نسل کی بلوچ اکثریت گجر کے تاریخی پسِ منظر سے واقف نہیں ہے وہ بس نسل در نسل سے قائم اس اصطلاح کو عادتاً استعمال کرتے ہیں ـ

قاجار دور میں بلوچ سرداروں و حاکموں کو بے انتہا طاقت فراہم کی گئی ـ سرداروں و علاقائی حاکموں نے مالیات جمع کرنے کے لیے کسانوں کا بے دریغ استحصال کیا ـ اس دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں کو بدترین قحط سالی کا بھی سامنا کرنا پڑا ـ سب سے بری حالت افریقہ سے غلام بنا کر لائے گئے سیاہ فاموں کی تھی ـ سیاہ فام سماج کا سب سے نچلا طبقہ ہے جس کا استحصال اور اجتماعی توہین عام ہے ـ بلوچ سماج انہیں انسان ہی نہیں سمجھتا ـ ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل تک بلوچستان بالخصوص مکران میں کسی سیاہ فام کو معمولی لغزش پر قتل کرنا ، ان کے بچوں کی خرید و فروخت اور معاشی غلامی، سماجی سطح پر معمول کے واقعات سمجھے جاتے رہے ہیں ـ اسلامی انقلاب کے بعد سیاہ فاموں کی حالت نسبتاً بہتر ہوئی ہے مگر قبائلی سماج کا سابقہ ظالمانہ رویہ ہنوز برقرار ہے ـ

قحط سالی اور طبقاتی و نسلی جبر نے مل کر ہجرتوں کے ایک نئے سلسلے کو جنم دیا ـ باہو کلات ، دشتیاری ، چابہار ، کسر کند، سرباز ، راسک وغیرہ سے مزید سیکڑوں افراد زندگی کی تلاش میں کراچی پہنچے ـ لیاری میں ایک اور مغربی بلوچستان آباد ہوگیا ـ مشرقی بلوچستان بالخصوص کیچ، گوادر اور پنجگور کے اضلاع سے بھی سیکڑوں خانوادے ہجرت کر کے کراچی چلے آئے ـ مشرقی بلوچستان کے بلوچوں کی اکثریت نے البتہ لیاری کو ٹھکانہ بنانے سے بوجوہ احتراز برتا ـ انہوں نے گولیمار، ماری پور، گارڈن، لالو کھیت اور ملیر وغیرہ کا رخ کرنا بہتر جانا ـ یہ تمام علاقے اس زمانے میں شہر کے مضافات سمجھے جاتے تھے ـ

دلچسپ بات یہ ہے ہجرت کر کے آنے والوں نے لیاری کو بھی علاقائی لحاظ سے تقسیم کر دیا ـ یہ تقسیم آج بھی نظر آتی ہے ـ جیسے سید آباد اور میرا ناکہ میں سراوانی آباد ہوئے ، بمپوریوں نے اپنے لیے غریب شاہ پسند کیا ، سرباز سے آنے والوں نے ریکسر لائن، سنگولائن اور عمر لائن آباد یے، کسرکندی ، بغدادی (علی ہوٹل) کی طرف نکل گئے البتہ کچھ کسرکندیوں نے کلری (دبئی چوک) میں پڑاؤ ڈالا ، سیاہ فاموں نے بغدادی کو رونق بخشی، دشتیاری کے جدگال جو نسبتاً جدید مہاجر تھے انہوں نے نوالین کو بہتر جانا ، گل محمد لائن اوائل میں بمپور کے چند خاندانوں نے آباد کیا مگر بعد میں سراوان سے آنے والوں نے وہاں اپنی اکثریت قائم کر لی ، لاشاری ندی پار براہوی بولنے والوں کے علاقے شیرشاہ کے پڑوسی بنے اور اپنے خطے کا نام انہوں نے جہان آباد رکھا ـ کیچ مکران ، پسنی اور پنجگور سے متعلقہ افراد کلری میں بس گئے ، شاہ بیگ لائن اور کلاکوٹ البتہ مختلف النوع افراد کے مسکن بنے ـ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ منفرد کراچوی بلوچی لہجہ شکل پذیر ہونے کے باوجود لیاری سمیت کراچی بھر میں آج بھی سابقہ علاقائی لہجے زندہ ہیں ـ

مشرقی و مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے ان بلوچوں کا کراچی کے دیگر شہریوں سے پُرتضاد تعلق بن گیا ـ معاشی مفادات نے ان میں یکجا ہونے کی ضرورت کو جنم دیا ـ مشترکہ مارکیٹ، مشترکہ مفادات اور عدم تحفظ کا مشترکہ احساس ان کی سابقہ قبائلی و علاقائی شناختوں پر حاوی ہوتے گئے ـ ذات پات کا وہ نظام جو بلوچستان میں ان کی معاشی ضرورتوں کی پیداوار تھا، کراچی کے پیچیدہ معاشی نظام نے اس کو بھی نگل لیا ـ کون لوڑی، کہاں کا ڈومب ، کس کا میر، کہاں کا تفخر ، سیاہ و سفید کی تقسیم؛ سب ہوا ہوگئے ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

اکثریتی آبادی اور شہری مرکز سے قریب ہونے کے باعث لیاری نے جلد ہی رہنمائی کا منصب حاصل کر لیا ـ سستی مزدوری، سادہ مزاجی، وفاداری اور مضبوط جسم جیسے اوصاف رکھنے کی وجہ سے وہ شہر کے متمول ہندوؤں اور پارسیوں کے پسندیدہ بن گئے ـ بیسویں صدی آتے آتے لیاری نہ صرف شہر کی گنجان ترین آبادی بن چکی تھی بلکہ انتخابی سیاست میں اسے اہم ترین حیثیت بھی مل گئی ـ

(جاری ہے)

 

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply