ایک درویش صفت انسان اسلم بھائی۔۔سلمان نسیم شاد

کل صبح سے ہی دفتر میں بہت مصروفیت رہی، فائلوں کا ایک نہ  ختم ہونے والا سلسلہ تھا جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا  تھا اور اسی مصروفیت میں شام ہوگئی، مگر اچھا خاصا  کام اب بھی باقی تھا۔ اور ہم نے بھی تہیہ کر رکھا تھا آج چاہے جتنی دیر ہوجائے کام ختم کرکے ہی گھر کو جاؤں گا۔ اسی اثناء میں ہم نے اپنے پیون سے چائے کی فرمائش کردی، وہ بیچارہ ہمارے حکم کی تعمیل کرتے ہی چائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔ اور ہم دوبارہ اپنے کام میں مشغول  ۔ اسی اثناء میں ہمارے فون کی بیل بجی ہم نے ایک لمحے کے لئے فائلوں سے نظر ہٹاکر اپنے سیل فون کی اسکرین پر دیکھا تو ہمارے دوست فرقان کا فون تھا۔

عام طور پر یہ ہماری یہ بری عادت بن چکی ہے کہ کام میں مصروفیت کے وقت ہم فون ریسیو نہیں کیا کرتے اور نمبر دیکھ کر سائلنٹ کردیا کرتے ہیں۔ کہ کام سے فراغت کے  بعد ہم خود متعلقہ شخص سے رابطہ کرلیں گے۔ مگر قدرتی طور پر نجانے ایسا کیا تھا کہ ہم نے اپنی منشاء کے خلاف چند سیکنڈز میں فون اٹھالیا اور دعا سلام کے  بعد دوسری طرف سے ہمارے دوست نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کے لئے ایک انتہائی افسوسناک خبر ہے “اسلم بھائی” کا رضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے۔

اتنا سننا تھا کہ چند لمحوں کے لئے ہم پر  سکتہ طاری ہوگیا،اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالتے ہوئے ہم نے اپنے اس دوست کو اپنی کیفیت بتاتے ہوئے اظہار افسوس کیا اور کہا کہ اس وقت ہم دفتر میں ہیں اور فوراً یہاں سے نکل کر “اسلم بھائی” کے گھر پہنچ رہے ہیں آپ بھی وہاں پہنچیں۔

فون بند کرکے ہم نے اپنا کمپیوٹر بند کیا اور تمام فائلیں اکھٹی کرکے اپنی  شیلف میں رکھیں اور اپنی کرسی سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں چلے گئے۔ اسلم بھائی سے متعلق دی جانے والی خبر غمناک تو تھی ہی ساتھ ہمیں افسردہ اور نمناک بھی کر گئی۔ لیکن ساتھ ہی یادوں کی ایک پٹاری کھول گئی۔

اسلم بھائی ہمارے سابقہ محلے کاسموس پلازہ فیڈرل بی ایریا میں ہمارے ہی زینے پر رہائش پذیر تھے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک ہم وہاں رہے ان سے شناسائی اتنی نہیں رہی مگر کاسموس سے ہجرت کے  بعد ہی ہمارے ان سے مراسم بڑھتے چلے گئے۔ گوکہ وہ ہم سے عمر میں کافی بڑے تھے مگر وہ ہمارے دوستوں کی طرح تھے۔ ان کی شخصیت ایک سیدھے سادے محبت کرنے والے انسان کی سی تھی۔ ہمارا بہت سارا وقت ان کے ساتھ گزرا۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب ہم اپنے سابقہ محلے نہ  جاتے ہوں اور وہاں پہنچتے   ساتھ ہی کمپاؤ نڈ میں ان کی گیلری کے نیچے سے ان کو آواز لگاتے اور وہ پہلی ہی آواز میں گیلری میں آجاتے اور ہمیں دیکھ کر فوراً  ہی سیڑھیاں اتر کر نیچے آجاتے۔ اور پھر ہم ان کے ساتھ گھنٹوں گفت و شنید میں مصروف رہتے تھے۔

روز سویرے اٹھتے  ساتھ ہی ناشتہ پانی سے فارغ ہوکر وہ نیچے چلے آتے اور اپنے گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر گراؤنڈ جاکر کبوتروں اور دیگر پرندوں کو دانہ ڈالا کرتے۔
اور ہمیں بھی اس عمل کی دعوت دیا کرتے۔ وہ ایک حساس اور رحم دل شخصیت تھے۔ کسی بھی انسان حتیٰ  کہ چرند پرند کو بھی مشکل  و پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

تاریخ اسلام ہو یا تاریخ پاکستان وہ اس پر عبور رکھتے تھے ، کتابوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ وہ علم کا ایک بھرپور خزانہ تھے۔ اور سیاسی امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ساتھ ہی وہ ایک پرسرار روحانی شخصیت بھی تھے۔ سخت ترین گرمی ہو یا سردی برسات ہم نے اسلم بھائی کو باجماعت نماز کی ادائیگی اور اذکار کرتے دیکھا۔ ہماری زندگی جب بھی کسی منجدھار میں پھنسی یا مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے ہم ان سے ہی اپنی پریشانی شیئر کیا کرتے اور وہ ہمیں بہت مفید مشوروں سے نوازا کرتے اور ہاتھ بلند کرکے ہمارے لئے دعا کیا کرتے اور یقین کریں ان کی دعاؤں سے ہماری پریشانی محض چند دنوں میں ختم ہوجایا کرتی۔

اسلم بھائی اولیاء اکرام اور بزرگان دین سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ اور ہمیں ان کے قصے و واقعات سنایا کرتے تھے۔
ہم سے اکثر درگاہوں پر لے جانے کی فرمائش کیا کرتے تھے اور کئی بار ہم ان کو مختلف درگاہوں پر لے کر گئے جہاں ان کی عقیدت و محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ فارغ اوقات میں جب بھی ہم نے ان کو دیکھا  ،تسبیحات اور اذکار میں مشغول دیکھا۔ انھوں نے ہمیں ہمیشہ ایک ہی نصیحت فرمائی نماز کی پابندی اور کثرت سے استغفار پڑھنے  کی تلقین۔ جس کے  وہ خود بھی پابند تھے۔

جیسا ہم نے اوپر بیان فرمایا اسلم بھائی کی شخصیت ایک سیدھے سادے اور محبت کرنے والے انسان کی تھی۔ ہمیں اب بھی یاد ہے آج سے چار سال پہلے جب جب ہمیں  گردے کا درد اٹھا تو ہم ان کے ساتھ ہی قریبی ہسپتال گئے تھے اور جب ڈاکٹر نے ہماری رپورٹ دیکھی تو ہمیں کہا کہ آپ فوری طور پر صبح ہسپتال میں ایڈمیٹ ہوجائیں، کل ہی آپ کا آپریشن کرنا پڑے گا کیونکہ صورتحال بہت خراب ہے آپکی کڈنی میں اسٹون ہے جو گردہ خراب کرسکتا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ ہم نے اسلم بھائی کے چہرے پر شدید پریشانی کے اثرات دیکھے اور ان کی آنکھیں ایک دم نم سی ہوگئیں ڈاکٹر سے بات چیت کے  بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو اسلم بھائی نے  فکرمند لہجے میں ہم سے کہا تم کل صبح آجاؤ ہسپتال داخل ہوجاؤ ، میں تمھارے ساتھ رک جاؤں گا۔ ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ہم نے ان سے کہا اسلم بھائی ایسی کوئی خطرناک بات نہیں ہے۔ اول تو ہم نے اس کا ہومیوپیتھک علاج کروانا ہے اور فرض کریں آپریشن کروانا بھی پڑا تو یہ بہت معمولی آپریشن ہوتا ہے محض دس سے بیس منٹ میں مریض چل کر اپنے گھر جاتا ہے۔ تو آپ پریشان نہیں ہوں اللہ بہتر کرے گا۔

گزرشتہ ایک سال سے وہ علیل تھے جس کی وجہ سے ان کا زیادہ تر وقت گھر پر آرام کرتے گزرتا۔ اور پھر کورونا کی وبا نے سماجی فاصلے پیدا کردیئے۔ اس دوران کئی بار ہم نے سوچا اسلم بھائی سے ان کے گھر جاکر شرف ملاقات حاصل کرکے ان کی عیادت کرتے ہیں مگر کمبخت اس Covid 19 کی وجہ سے ہم یہ سوچ کر ہمیشہ پیچھے ہٹ گئے کہ ہماری آمد سے ان کے اہل خانہ کسی پریشانی میں مبتلا نہ  ہوجائیں۔ جب بھی ہم کاسموس آتے تو ہمارا سب سے پہلا سوال اسلم بھائی کی صحت سے متعلق ہی ہوتا ہماری بدنصیبی رہی کہ ہم آخری وقت میں ان سے ملاقات نہیں کرسکے۔

بلا شبہ دنیا آنی جانی ہے، جو بھی یہاں آیا ہے اسے مالک کی جانب سے عطا کردہ مدت ِ حیات پوری کرکے دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرنا ہے۔ یہی نظام کائنات ہے اور اسی نظام کے تحت لاکھوں برس سے آباد انسانی دنیا میں آمد و رفت کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور قیامت تک خالق کائنات کا بنایا ہوا یہ نظام، اسی طرح جاری رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اسلم بھائی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے۔ اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply