ہوٹل کی لابی کا اندرونی حصہ دیدہ زیب ہے، بالائی منزل سے زینوں سے اترتے ہی دائیں طرف کاؤنٹر اور بائیں طرف دیوار پر ایک بورڈ آویزاں ہے جس میں
سیاح یادگاری کلمات لکھ لیتے ہیں۔ کاؤنٹر کے بالکل سامنے میز اور کرسیاں رکھی ہوئی ہیں، فرش پر مختلف قسم کی سائیکلیں ہیں، جن پر بیٹھ کر کچھ وقت کے لیے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔ ہم نے یادگاری بورڈ پر کچھ لکھا۔ میں نے شاید “بلوچستان” لکھا اور نیچے اپنے دستخط ثبت کر دیے، کہ کبھی ہماری آنے والی نسلوں میں سے کوئی اگر ہمارے نقشِ پا پر چل کر ادھر کو آ نکلے، تو باپ دادا کے کھروں کے یہ نشان انہیں آوازیں دے کر اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔
ہم تینوں ہم سفر دائرہ بنا کر میز کے ساتھ لگی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ میز پر انگریزی زبان کے کچھ ٹورسٹ گائیڈز میپ رکھے ہوئے تھے۔ اعلیٰ قسم کا کاغذ۔اور پرنٹنگ ایسی کہ پہلی نظر میں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرے۔ ایک ورق جو چار پانچ صفحے کا تھا اور تہہ در تہہ کیا ہوا تھا۔ جس کے ایک طرف سری لنکا کا بہت بڑا نقشہ اور دوسری طرف تاریخی مقامات کی تصاویر اور تعارف تھا۔
بھاپ اڑاتی گرم چائے میز پر سجا دی گئی اور ساتھ کچھ لوازمات بھی۔ یہ ہمارا ناشتہ تھا، جس کے بعد ہمیں اس ہوٹل سے جہاں ہم نے رات قیام کیا تھا، رخصت ہو کر سری لنکا کے دیومالائی علاقہ نور ایلیا جانا ہے، جو پریوں کا دیس ہے۔
کینڈی میں قیام کا دورانیہ بہت مختصر رہا، شام کو آئے اور علی الصبح کوچ کرگئے، یہاں دیکھنے کو بہت کچھ تھا مگر تنگی وقت نے اجازت نہ دی کہ مزید ایک دن گزار دیا جائے۔ دن ہی چھ تھے، ان میں وقت کی فضول خرچی کیسے کی جا سکتی ہے، ایک ایک لمحے کو سوچ سوچ کر، سنبھل سنبھل کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس ماسٹر کی تنخواہ کی طرح جسے وہ کھینچ تان کر مہینے کی آخری تاریخوں تک لے جانے کی کوشش تو کرتا ہے مگر بچا نہیں پاتا ہے، اور ہر خواہش پر اس کا دَم نکلتا ہے۔
گاڑی نور ایلیا کی راہوں پر چل نکلی۔ سنا ہے وہاں محبوب کے آنے پر بہاریں پھول برساتی ہیں، مگر یہ بہار کا موسم نہیں تھا، اکتوبر تھا۔ اکتوبر، ستمبر کی ساری ستمگری کو خود میں جذب کر کے موسم کے سرے کو ازسر نو دلوں کے ساتھ جوڑ دینے کا مہینہ ہے۔ اکتوبر بہار نہیں ہے، مگر سدا بہار ہے، اس مہینے میں ایسا کچھ ضرور ہے کہ اسے چاہا جائے۔ دیکھتے ہیں کہ نور ایلیا پہنچنے پر ہم پر کتنے پھول برسیں گے۔
نغمہ سرا راستے ہیں، گیت گاتے بادل ہیں، مست و رقصاں ہریالی ہے۔ انگڑائیاں لیتی شاخیں ہیں، ان شاخوں پر ٹھہرے ہوئے موسموں کے وہ پرندے ہیں، جن کے پر، گزشتہ شب کی گرتی بوندوں سے بھیگ چکے تھے، ابھی تک ان کی نمی نہیں جاتی ہے کہ وہ نئی منزلوں کو اڑان بھر سکیں۔ وہ دور چائے کے کھیتوں میں کام کرتی عورتیں ہیں، ساتھ ان کے کھیلتے بچے ہیں۔ جو بڑے ہو کر انہی کھیتوں میں چائے کے پتے چنیں گے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے، یہ لوگ خون کی طرح اپنے کام کو بھی دوسری نسلوں تک منتقل کر دینے والے کمی کمین ہیں۔
سندھ و پنجاب اور بلوچستان کے بے زبان ہاری ہوں یا سری لنکا کے چائے چنتی عورتیں ان میں سے ہر فرد دوستوسکی کے ناول “ذلتوں کے مارے لوگ” کے وہ بے رنگ کردار ہیں، جن کی زندگی کی تمام خوشیاں ان کی انگلیوں کے سخت جان پوروں کی جھریوں میں چھپے قبرستان میں دفن ہیں۔
ہم موسموں کا لطف لے رہے ہیں اور کھیتوں میں چائے کے پتے چننے والی سری لنکن عورتیں ان رتوں سے بے خبر، سخت محنت میں مصروف ہیں، یہ سخت محنت، جب شام کو ان کی چمنیوں سے دھواں بن کر نکلتی ہے یا گرم توے پر روٹی کی خوبصورت پینٹنگ بناتی ہے، تب جا کر ان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آتی ہے۔ اس مسکراہٹ کو منہ میں جاتے ہر نوالے میں گوندھ کر حلق میں اتار جاتا ہے، جو ان کی خشک ہوتی رگوں میں جا کر انہیں کل کی محنت کےلیے کچھ توانائی دے دیتی ہے۔
یہ ایک سیرگاہ تھی، جہاں ہم چند لحظے کےلیے رکے، سڑک سے دائیں جانب ٹورسٹوں کےلیے جگہ بنائی گئی تھی، جس پر کھڑے ہوکر سامنے پھیلی ہوئی وادی کو دیکھیں، نیچے کو نظر کریں تو گہری کھائی ہے، ایسی کھائی نہیں جو وحشت زدہ کر دے، بلکہ سبزے سے لدی وہ کھائی کہ خود کھود جانے کو دل کرے۔
وادی میں وہ کچھ تھا جو ہم جیسوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہو، میں نے دیر تک دور سے نظر آنے والی آبشار پر نظریں ٹکائے رکھیں، دوری کی وجہ سے اس کا ترنم اگرچہ کانوں تک نہیں پہنچ رہا تھا لیکن حسن کی دلکشی سے تشنہ لبوں کی سیرابی ہو رہی تھی۔
نور ایلیا کو تو ابھی گھنٹوں کا فاصلہ رہتا ہے، مگر خوبصورتی کے شرارے کینڈی سے کچھ دور نکلتے ہی پھوٹ رہے تھے۔
ہم مسلسل اونچائی پر سفر کر رہے تھے۔
ایک گھنٹہ یا کچھ زیادہ وقت گزرا تو ہم ایک پُررونق مقام پر پہنچ گئے۔ یہاں سیاحوں کا بہت رش تھا، یہ ایسی جگہ تھی جہاں رات بھی گزاری جا سکتی تھی، ایک رات دو راتیں یا کچھ راتیں۔ اعلیٰ و نفیس خواب گاہوں کا انتظام تھا، انواع و اقسام کے کھانے دستیاب تھے۔ گاڑی پارک کر کے نیچے اتر جائیں، یعنی سطح زمین سے کافی نیچے۔ یہاں ایک خوبصورت ریسٹورنٹ ہے، اسے اس طور سے بنایا گیا تھا کہ نیچے آبشار کو جانے کے لیے اس ریسٹورنٹ کا داخلی دروازہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ ریسٹورنٹ ایک طرح سے آبشار تک جانے کی گزرگاہ ہے، ہم ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے سے اندر ہوئے تو سیاح لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ کھانے کا وقت نہیں تھا، لیکن کھانے والوں کے لیے کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا ہے، جب کھانے کو کچھ ملے تو سمجھ لیں کہ کھانے کا وقت خود بخود ہو جاتا ہے۔ بیشتر سیاح ولایتی تھے۔ یعنی گورے تھے۔ یورپین یا کچھ افریقن۔ کالے و سانولے گالوں یا چپٹی ناک والے نہ ہونے کے برابر تھے۔
ریسٹورنٹ سے نکل کر آبشار تک کافی اترائی ہے، ایک حد تک خطرناک اترائی۔ جسے اترنے کے لیے غیرمعمولی توجہ اور چڑھنے کےلیے توانائی درکار ہے، اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو نیچے جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بس بلندی پر کھڑے ہو کر آبشار کا شور سنیں اور اس میں چھپی قدرت کی موسیقی سے لطف لیتے رہیں، دل کرے تو ساتھ گنگناتے جائیں۔ جو ضعیف سیاح نیچے آبشار تک نہیں جا سکتے تھے وہ یہی کر رہے تھے، ریسٹورنٹ سے نکل کر ایک طرف کھڑے ہو کر آبشار کی بکھرتی دھنیں اپنے اندر بکھیر رہے تھے۔
میں آخر تک گیا، میرے دیگر ساتھی وہاں تک نہیں آئے، وہ آ سکتے تھے، مگر نہیں آئے۔ اس لیے کہ ان میں وہ ذوق لطیف نہ تھا، جس سے میری شاعرانہ حس معمور تھی۔ میں آبشار سے اڑتی ہر چھینٹ پر ایسے بے خود ہوتا جیسے سندھ کے صحراؤں میں محوِ خواب سچل کے مزار کے محرابوں سے ٹیک لگایا وہ نابینا قلندر جو دنیا و مافیہا سے بے خبر سچل کے عشق میں کلام پڑھتا جاتا ہے۔
آبشار سے کچھ پرے، آبشار کو دیکھنے والوں کےلیے ایک مخصوص جگہ بنائی گئی تھی، وہاں میری طرح فطرت کے دیگر عشاق بھی تھے، صنفِ نازک اور صنفِ غیرنازک دونوں تھے، ان کے بیچ الگ رنگت کا، میں اجنبی تھا۔۔۔ لیکن آبشار جس طرح ان میں اترتی تھی، اسی طرح مجھے بھی اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔۔۔ الگ رنگت، جدا تہذیب، ہزاروں میل کے فاصلے۔۔۔ مگر یہ احساسات میں قدرتی یک رنگی تھی جس نے ہم اجنبی دیسوں کو اس آبشار کے قدموں میں یکجا کر دیا تھا، اس لیے کہ وہ جس عشق کے مکتب کے شاگرد تھے، میں اسی مکتب عشق کا پیالہ نوش تھا۔
مکتب عشق میں کوئی محمود نہیں ہوتا،
کوئی ایاز نہیں ہوتا۔
یا سب محمود ہوتے ہیں،
یا سب ایاز ہوتے ہیں۔
مکتبِ عشق! تہذیبوں کو یک رنگ کر دیتا ہے، فاصلوں کو سمیٹ لیتا ہے، گورے، کالے سانولے سب کی رنگت ایک جیسی بنادیتا ہے۔
مکتبِ عشق! جو انسانی روح میں محبتوں کی لے چھیڑ دیتا ہے اور اسی لے میں حضرت انسان اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر کر خود شناسی کے ساحل سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔
بلندی سے گرتی آبشار کا پانی جب نیچے بڑے بڑے پھتروں پڑتا تو ان پھتروں سے اٹھتی پھوار ہم پر برستی تھی۔ الفاظ سے ماورا منظر تھا، جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں