تاریخ کسی کے باپ دادا کی جاگیر نہیں ۔۔۔سلمیٰ اعوان

ماسکومیں رُوسیوں کی اکثریت آؤٹ سکرٹز Skirts علاقوں کی مکین ہے ۔ مرکزی حصّوں میں رہائش رکھنا ممکن ہی نہیں کہ وہ سب کاروباری اور دفتری جگہیں ہیں جن کے کرائے آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ہماری ٹیکسی یم سکایا سڑک پر تھوڑا سا چلنے کے بعد ایک وسیع وعریض میدان کے گرداگرد فلیٹوں میں سے ایک کے سامنے رُک گئی۔دروازہ انتونینا نے کھولا جو پاکستانی انجنئیر منصور کی روسی جرنلسٹ بیوی ہے اور ہمارا استقبال ایک پُر خلوص پاکستانی کی طرح سے کیا  ۔کمرے میں کُرسی پر بیٹھاسمیر نوف چھوٹی سی میز پر رنگوں کو بکھیرے ڈرائنگ بورڈ پر پھُولوں میں رنگ بھر رہا تھا۔ میں پاس جا کر بیٹھ گئی تھی۔ انتونینا بولی۔کیا کروں؟ ایسی فضول ڈرائنگ کرتا ہے۔ اُوپر سے رنگ بھرنے کی بھی تمیز نہیں۔
میں ہنس پڑی تھی۔پورب ہو یا پچھم اُتّر ہو یا دکھّن ماؤں کی نفسیات بُہت حد تک ایک سی ہوتی ہے۔ پہلے بچے پر تو بس نہیں چلتاکہ کیسے اُسے پی ایچ ڈی کروا دیں۔ مجھے بیٹی اور بُہو دونوں یاد آئی تھیں۔ مار   مار ہلکان ہو ہو جاتی ہیں۔

انتونینا نے بتایا تھاکہ یکم ستمبر کو سکول کھُلتے ہیں۔ بچے اپنی ٹیچر کے لئے پھول لے کر جاتے ہیں۔میں کہتی ہوں کہ اِس بار تم تازہ نہیں خود اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ پھول لے کر جاؤ گے۔ چلو ڈرائنگ اور کلرنگ تو اِس بہانے کچھ بہتر ہو جائے گی۔
’’انتونینا رُوسی عورت میرے مشاہدے کے حسابوں بڑی محنتی ہے۔ کولُہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے ۔ مرد خاصی موج میں ہیں۔‘‘

سالوں پہلے جب میں پاکستا ن میں تھی۔ ایک گانا میرے سُسرکے گھر میں بُہت کثرت سے بجا کرتا تھا۔ میرے سُسر کا پسندیدہ ۔ پہلے میں نے توجہ نہیں دی۔ جب تسلسل سے بول کانوں میں پڑے تو اپنی نند سے اُس کا مطلب پُوچھا۔ عُمراں لنگیاں پبّاں پھار۔
بس تو سمجھ لو کہ عام رُوسی عورت بھی زندگی پبّاں پھار ہی گذارتی ہے۔ آٹھ گھنٹے کی روزانہ کام کی ڈیوٹی اور پھر چھ آٹھ گھنٹے گھر کی ذمہ داریاں۔اب مجھے دیکھو۔ اما ں کی مثال تو بعد میں دوں گی۔ میں جدید رُوسی عورت کی نمائندہ ہوں، مڈل کلاسی، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کم وبیش آدھی دُنیا گھومی ہوئی۔ کام پر جانے کے لئے مجھے پبلک ٹرانسپورٹ، کبھی بس، کبھی ٹرام، کبھی ٹرالی بس اور کبھی میٹرو سے سفر کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کے اعتبار سے ہی فیصلہ کرتی ہوں کہ کون سا موڈ مُجھے کام پر جلدی پہنچائے گا۔ میرے اوقات کار شکر ہے رَش والے نہیں ہیں۔ وگرنہ سویرے سویرے حشر ہو جاتاہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ڈربے میں مرغیاں یا کین میں مچھلیاں ٹھُنسی ہوئی ہوں۔اس پر کام کی درد سری۔ اب ہمارے پاس گاڑی ہے۔ یہ گاڑی تھوڑا عرصے پہلے ہی لی تھی۔ مگر بالعموم یہ منصُور کے پاس ہوتی ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاسیوں کے پاس گاڑیاں بُہت کم ہوتی ہیں۔اگر گاڑی ہے تو وہ زیادہ تر شوہر کے پاس ہی ہوگی۔کام سے واپسی پر مجھے راستے میں پڑنے والی کِسی دوکان پر رُکناہے ۔ اپنے پرس میں سے تھیلا نکالنا ہے دودھ ، ڈبل روٹی ، انڈے، پھل اور دیگر روزمرہ ضروریات کی چیزوں سے بھروا کر اُسے اُٹھانا بھی ہے۔ پہلے جب اکیلی تھی تو کنڈرگارٹن سے بیٹے کو بھی لیتی تھی۔چلو اب کوئی نہ کوئی اُسے لے آتا ہے۔

اب دوسرا رُخ دیکھیں ۔
منصُور کے کزن کی بیوی اَپر کلاس سے ہے۔ کچھ تو اُس کا بھائی تیز ،کچھ بیوی کی پُشت پناہی ۔ اُس کا کاروبار بُہت عُروج پر ہے ۔کہیں کام نہیں کرتی۔ دو بچے ہیں۔ ماسکو کے ٹاپ سکول میں پڑھتے ہیں۔ بریک فاسٹ سے لنچ تک سکول میں ۔ اب وہ ایلیٹ کلاس کی عورتوں کی طرح گیارہ بارہ بجے تک بیڈ پر اینٹھتی ہے۔ تو بھئی یہ اُس کامقدّر۔ یقین کیجئیے رُوسی عورت جب گھر آتی ہے تو وہ انگریزی کے لفظ ایگزاسٹڈ Exhausted کی مکمل تصویر نظر آتی ہے۔اب را ت کے کھانے کی تیاری کا مرحلہ درپیش۔ نیم پُختہ چیزوں کی بُہت افرا ط ہے لیکن وہ زیادہ تر درآمد شدہ ہونے کی وجہ سے باوا کے مول ہوتی ہیں۔ شوہر کا کردار دیکھ لیں۔منصُور کے کام کی نوعیت ایسی کہ وہ بالعموم را ت کودس سے پہلے نہیں آسکتا۔ وہ میری مدد کپڑوں کی دھلائی اور گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہی کرتا ہے۔

یہ تو گھر سے گھر تک کے مناظر ہیں جومیں دیکھ رہی ہوں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

ایک عام رُوسی عورت کی زندگی کام، گھر، کام، گھر، دوکان، گھر۔ اب کہا جا سکتا ہے یہی زندگی مغربی عورت کی بھی ہے۔ مگر نہیں۔۔فرق ہے سسٹم کا ۔ یہ جو مثل مشہور ہے کہ مغربی زندگی کے فلسفے کی بنیاد فرد کی زندگی کو آسان اور پر لُطف بنانے پر رکھی گئی ہے جبکہ رُوسی زندگی کی ’’ خدا مشقّت جھیلنے کا حوصلہ اور ہمت دے ۔‘‘ پر ہے۔سو فی صد سچ ہے۔
انتونینا کھلِکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

ایک واقعہ سُنیں۔ میر ی دوست ایوگینیا کاسمیٹکس کی ایک غیر مُلکی فرم میں کام کرتی ہے۔ کمپنی نے اُس کی تنخواہ میں سے وہ دن کاٹ لیا جس دن وہ اپنے نئے باس کے لئے معلومات اکٹھی کرنے کِسی حکومتی ادارے میں گئی۔اب اُس کا یہ اصرارکہ اُسے ڈیوٹی پر سمجھاجائے اور باس کا کہنا کہ ہرگزنہیں۔ یہ معلومات تو تمہیں دفتر بیٹھے ایک فون یا فیکس پر حاصل ہو سکتی تھیں۔ یقیناً تم نے اپنی کِسی ذاتی کام کے لئے یہ ہیرا پھیری کی۔اب وہ بھی جانتی تھی۔ میں بھی اور فرم کا پُرانا باس بھی کہ ایک کال پر معلومات کا ملنایورپ میں تو ممکن ہے رُوس میں ناممکن۔ جب تک دفتر خو د نہ جاؤ۔ اور ہر ڈپارٹمنٹ میں بھاگ ڈور نہ کرو۔ کام نہیں ہو سکتا۔
یقیناً اُس وقت میں نے خود سے کہا تھا تو میں اپنے وطن کو کِس نمبر پر کھڑا کروں۔

یہ نمبر تین تھا۔ کام تو چُٹکیوں میں ہو جاتا ہے۔ بس لال ہرے نوٹ نیچے سے اُوپر تک اگر گردش کریں یا پھرکوئی تگڑی شفارش پُشت پر ہو۔ پر نوٹوں والی بات تو بُہت پکی ہے۔

’’انتونینا رُوسی لڑکیاں بُہت اچھی بیویاں ہوتی ہے۔‘‘

یقیناً اس میں کوئی شک نہیں۔ یورپ میں رُوسی بیویاں پسندیدہ ترین شمار ہوتی ہیں۔ سوویت زمانوں میں تو بُہت بھولی اور سادہ ہوتی تھیں۔ آسانی سے مردوں کے جال میں پھنستی تھیں۔ پرذرائع ابلاغ کی آزادیوں نے خاصا ہوشیار کر دیا ہے۔ تاہم پھر بھی گھر بچانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ایک بات بڑی زبان زدِ عام ہے ۔ ’’رُوس میں کیا سب سے اچھا ہے ؟ ‘‘
رُوسی لڑکیاں۔۔۔
خوبصورت ، مہذب ، سادہ اور آسانی سے گرفت میں آنے والیاں۔رُوسی لڑکیاں جلدی شادی کرنا پسند کرتی ہیں۔ تعلیم کی تو خیر کچھ پروا کرہی لیتی ہیں پر کیرئیر کے لئے بالکل سنجیدہ نہیں ہوتیں۔ زیادہ عمر اگر ہو جائے تو اس کا سیدھے سیدھے مطلب ہے کہ لڑکی کے ساتھ کچھ گڑ بڑ ہے۔ سیکس کا مسئلہ بُہت ثانوی ہے ۔ ہماری زندگیوں میں اُس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ یہ شراب کی طرح معمول کی بات ہے۔اب پاکستان میں کیا ہے؟ یہی کام لڑکیاں چور ی چھُپے کرتی ہیں۔ انتونینا کا مشاہدہ بُہت تیز تھا۔ کتنا عرصہ پاکستان میں رہی؟ آٹھ نو ماہ۔ پاکستانی معاشرت کے سارے کچّے چٹھوں سے شناسا ہو چکی تھی۔
اور جب میں نے ہنستے ہوئے یہی بات کہی۔ تو وہ کھِلکھلاکر ہنس پڑی اور بولی۔’’لکھنے والے کی ایک آنکھ زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

انتونینا یہ سب تو تقریباً گھر سے گھر تک کی باتیں تھیں۔ مجھے کچھ اُس وقت کا حال سُننا ہے جب سوویت ٹوٹ رہا تھا۔
یہ گھر ابّا کا ہے ۔ میرے ابّا پکے کمیونسٹ اور سچے انقلابی تھے۔ٹکے کی ہیرا پھیری کو بھی حرام سمجھتے تھے۔پھر یار لوگوں کی دیکھا دیکھی ہاتھ پیر مارے۔ جب سوویت ٹوٹا اور آپو دھاپی پڑی تو اس گھر کو تو انہوں نے بغیر ڈکار مارے ہضم کر لیا۔ اور بھی چکر چلائے۔یہ دورلوٹ کھسوٹ کا تھا۔ شریف لوگ رگڑے گئے۔ بدمعاشوں اور زبردستوں نے جو جو سمیٹ سکتے تھے سمیٹ لیا۔ نہ کہیں شنوائی اور نہ کہیں داد رَسی۔مزید تفصیل کے لیے میں ابّا کو بلاتی ہوں۔ وہ تو ماسکو میں تھے اور خیر سے بڑے سرگرم بھی تھے۔
انتونینا اُٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی۔ چندلمحوں بعد مُسکراتا ہوا زیوگانوف میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور گفتگو شروع ہوگئی۔

مترجم کے فرائض انتونینا نے سنبھال لیے تھے۔ دفعتاً انتونینا کے بلند قہقے نے مجھے چوکنّا ساکردیا۔وہ بولی ارے ابا ملک کے ا میر ترین رُوسیوں کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ جب غریبوں کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ، ملک کا امیر ترین طبقہ لند ن میں جائیدادیں خرید رہاتھا۔بینکوں میں پاؤنڈ اور ڈالر جمع کروا رہا تھا۔‘‘
اب میرے کھِلکھلا کر ہنسنے کی باری تھی۔

’’انتونینا یہ تو پھر گھر سے گھر تک کا منظر ہے۔ ہاں توسوویت کا جھنڈا اُتار کر رُوس کا جھنڈا لہرانے کو لوگوں نے کیسے دیکھا؟ ‘‘ ’’ارے لوگ بیچارے روٹی کے لئے ہپو ہان۔ سوویت کا جھنڈا لہرائے یا رُوس کا۔ اُنہیں تو بنیادی سہولتوں کی ضرورت تھی۔ وہ صرف لعنت بھیج رہے تھے سبھوں پر۔ ہاں البتہ فوج کا ایک عنصر ناراض تھا۔‘‘
سینٹ پیٹرز برگ کی لینن گراڈ، پیٹرو گراڈ پھر لینن گراڈ سے پیٹرز برگ واپسی کے ردّعمل والے سوال پر باپ بیٹی ذرا اُلجھ سے گئے تھے۔ باپ کا کہنا تھا وہ بالشویک تحریک کا شہرتھا۔ لینن کا شہر تھا۔ نام تو کِسی صورت تبدیل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اور بیٹی نے قدرے غصّے سے کہا۔
’’لو یہ تو وہی بات ہوئی، جس نے پکایا ریندھااُس کا نام نہیں۔ پر وسنے والے کانام ہوگیا۔ پیٹر دی گریٹ اُ س کا خالق تھا۔ اب کوئی تحریک وہاں پھلی پھُولی یا کوئی وہاں رہااور تحریک کی قیادت کی تواِس کا مطلب ہے اُٹھاکر نام بدل دواور تاریخ کی صورت بگاڑ دو۔1988ء میں گوربا چوف کی سنٹر ل کمیٹی جن میں ہمارے ا بابھی خیر سے خاصے اہم تھے۔ برژنیف اور چرننکوکے ناموں کی تختیوں اور یادگاروں کو اُکھاڑنے پچھاڑنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ جو بیچاروں نے گلی کوچوں اور شاہراہوں پر نصب کروائی تھیں۔ یہ لوگ تو پبلک لائبریریوں سے برژنیف کی کتابوں کو بھی غائب کروا کے ردّی کے بھاؤ بیچ کر دام کھرے کرنا چاہتے تھے۔‘‘
مجھے Friends Not Masters اور In The Line Of Fire یاد آئی تھیں۔ پرانی انارکلی کے تھڑے یا د آئے تھے۔
انتونینا بول رہی تھی۔

’’ تاریخ کوئی آپ کے باپ دادا کی جاگیر نہیں کہ جس کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے بھی ناموں کی اِس اکھاڑ پچھاڑ پر ہمیشہ بڑا اعتراض رہا۔غلامی کے دور کی یادوں کا ہر نقش مٹادو۔یہ کیا منطق ہے بھئی۔غلامی اگر نصیب ہوئی تو نالائقیوں کے کارن ہوئی۔تاریخ نے وقت کا وہ دورانیہ اپنے سینے میں محفوظ کرلیا اور تاریخ کو مسخ کرنا مذاق نہیں۔
میرے ملک میں بھی یہی تماشے ہوتے ہیں۔لائل پور کا نام فیصل آباد رکھ دیا۔منٹگمری کو ساہیوال بنادیا۔کوئی پوچھے نئے شہر بنانے سے موت پڑتی ہے۔نئے شہر بساؤ اور اُنہیں اپنے پسندیدہ نام دو۔مگر یہ کام نہیں کرنا ہم نے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply