پاکستانی مسیحی کا کھتارس ۔۔اعظم معراج

کسی آرٹیکل کی تیاری کے لئے ریسرچ کرتے ہوئے پتہ چلا کہ  قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی پندرہ دفعہ  بننے والی اسمبلی میں تقریباً 45بارقومی اسمبلی کی سیٹوں پر 28مسیحی ممبر قومی اسمبلی بنے۔

مجھے یقین ہے پاکستانی ہندو بھائیوں کے اعداد وشمار بھی ایسے ہی ہونگے،پنجاب اسمبلی 63بار  صوبائی نشستوں پر    38 مسیحی سینٹ میں بھی چار پانچ لوگ سما سکتے تھے لیکن تین ہی اس سے مستفید ہوسکے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی کچھ یہ نسبت تناسب رہا ہے۔ اس طرح کُل ملا  کر کم و  بیش 140سیٹوں پر گھوم پھر کر ستر کے قریب لوگ ایم این اے،ایم پی اے،سینٹر بنتے رہے۔ ۔

بلکہ  شاید اس سے بھی کم ہوں ۔میں سوچ رہا تھا جس طرح فوج میں کمیشن،سول سروس، کاروبار،ڈاکٹری انجینئرنگ، فنون لطیفہ ودیگر پروفیشنل فیلڈ میں قومی سطح نمایاں کارکردگی دکھانے سے اور ہاں مذہب کا بیوپار چمکنے سے انسان کا معیار زندگی بدل جاتا ہے۔اسی طرح جیسے تیسے الیکشن یا سلیکشن،سے بندہ یا بندی ایک دفعہ  ممبر اسمبلی کا ٹھپہ لگوالے تو اچھے ہوٹلوں کے بٹر پینر،ہوائی سفر،ویزہ،شیزا، مفت فارن ٹرپ ، بچوں کی باہر تعلیم اور پھر آخری منزل سیاسی پناہ جیسے کئی راستے کھل جاتے ہیں۔

دونمبری نہ بھی ہو تو ٹی  اے، ڈےاے  تنخواہ  شنخواہ  سے بھی مالی حالات بدل جاتے ہیں۔

اب ہونا یہ چاہیے کہ پاکستانی مسیحیوں  کی سماجی بھلائی کے لئے دن  رات کوشاں این جی او کو چاہیے کہ  ان لوگوں کا ترلہ منت کریں’ چار پانچ سال اپنے بچوں اور لوگوں کی خدمت کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔لہذا  ہر دفعہ کسی نئے سیاسی کارکن کو موقع دیا جائے تاکہ بہتر سالوں میں یہ تقریباً 140 دفعہ ملنے والے موقع سے تقریباًصرف 63 لوگ ہی مستفید نہ ہوتےبلکہ 63 کی جگہ بھی یہ چالیس پینتالیس بار ہی سمجھیں ، کیوں  کہ کئی دفعہ  یار لوگوں نے اپنی جگہ بیوی بچوں کو آ گے کیا ہے۔

اس طرح تقریباً  140 مسیحی گھرانوں کے بچے باہر پڑھ سکتے تھےاور ان تقریبا ً چالیس پچاس لوگوں کی بجائے ایک سو چالیس مسیحیوں کی زندگیوں میں اوپر بیان کی  گئی ترقی کی راہیں کھل سکتی تھیں۔

اس  کا کریڈٹ جمہوری ڈکٹیٹر اور ڈکٹیٹری حلیے  میں جمہوری جھانسے دینے والے بھی لے سکتے تھے ۔۔کہ دیکھو  ہم نے ہر دفعہ نیا بندہ لا کر کتنے خاندانوں کی زندگی بدل دی ہے۔۔ کیونکہ یہ سیاست برائے خدمت یا سیاست برائے چسکہ تو معروضی حالات میں مسیحی کیا اب کم ہی پاکستانی افورڈ کر سکتے ہیں، اب تو سیاست برائے روزگار،اور ذرا بڑے منصبوں والے سیاست برائے ہوس زر و اقتدارہی کرتے ہیں۔

(خیر یہ میری خام خیالی ہے ورنہ وطن کی یہ سیاسی اشرفیہ اگر ان بیچاروں کے لیے  اچھا سوچتی تو ان مسکینوں کو کوئی  اچھا انتحابی نظام ہی 72  سالوں میں دے دیتی )

ویسے یہ ایک انتہائی غیر جمہوری اور فضول خیال ہے۔اور ہاں میں ایسے موقع کی تلاش میں قطی نہیں ہوں۔بس ایسے ہی اس آس میں سیاسی جماعتوں میں شامل سیاسی ورکروں کا خیال آگیا۔لیکن ہمارے ایم این ایم پی اے اورسینٹر حضرات کا جذبہ خدمت اس لیول پر پہنچ چکا ہے ۔کہ پچھلے دنوں ایک سیاسی کارکن سے پتہ چلا ہمارے سینٹر ایم این اے ایم پی اے تو پارٹی عہدے بھی دوسرے ورکروں کو دینے کو تیار نہیں ہوتے۔تو بٹر پینر، ٹی  اے،ڈے اے  والے عہدے کیسے رضاکارانہ طور پرچھوڑ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  کتابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply