سانول موڑ مہاراں۔۔محمد علی عباس

اپنے کچھ مزاج میں سُستی ہے کچھ ایسی وجوہات کہ آج کا کام کل پہ رہ جانا تو معمول ہے، ایسے بھی اکثر ہوتا ہے کہ آج کا کام کئی مہینوں بلکہ کئی  سالوں تک چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اب کی بار بھی ہوا۔ زیرِ نظر سطور تحریر کیے  قریب مہینے سے اُوپر کا وقت گزر گیا ہے ان کو کاغذ سے اٹھا کے ٹائپ  کرانا اور حتمی شکل دینا ایسا دشوار کام تو نہ تھا مگر ہماری کاہلی آڑے آئی  اور ایک پرانی تحریر پڑی پڑی  مزید پرانی ہو گئی ۔ قبل اس کے  کہ اپنی افادیت مزید کھو دیتی اس کو   آپ کے سپرد  کر دینا مناسب سمجھا۔

منیر نیازی کی طرح ہمیں بھی ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ کئی دِنوں سے سرپارک کی تنگ و تاریک گلیوں کی پُرشکوہ عمارتوں کی اپنے اندر سالوں کی داستانیں سموۓ در و دیوار ذہن پہ چھائے ہوئے تھے۔سالانہ محفلِ جشنِ مولود کعبہ کا اہتمام ہر سال کی طرح برادرم چوہدری محسن حسن خان کے گھر کیا گیا تھا۔ دن کو ہی دفتر سے چھٹی لے کر جانے کا ارادہ تھا، خیال تھا کہ کہیں مغرب کے قریب چکوال شہر پہنچ کربھون روڈ سے موتی بازار کا راستہ پکڑیں گے۔تقسیم سے قبل یہ بازار ہندوؤں کےپاس تھا موتی رام نامی کسی ہندو نے شاید اسے آباد کیا ہو،گلیاں یہاں بھی تنگ و تاریک ہی ہیں جب یہ بازار بنا ہو گا تو شہر سے باہر ہو گا اب یہ شہر کا وسطی محلہ ہے۔ عظیم موسیقار مدن موہن نے یہیں جنم لیا۔ تقسیم کے بعد اُس پار چلے گئے ۔اب بازار میں اُس طرف سے آنے والے مہاجرین کی تیسری، چوتھی نسل رہ رہی ہے۔ تقسیم سے قبل کے ہندوؤں کا موتی بازار اب مسلمانوں کے پاس ہے۔ مگر نام اس کا پرانا ہی ہے اور وہی اس کی پہچان ہے۔یہاں سے آگے محلہ خواجگان ہے ،نام سے ہی ظاہر ہے یہاں پر خواجگان کے ہی گھر ہوں گے۔ تھوڑا آگے پرانی سبزی منڈی ہے جو کسی زمانے ميں شہر سے باہر سمجھی جاتی ہو گی مگر اب یہ پرانے چکوال کی سب سے تنگ گلیوں میں ایک نشانی   ہی رہ گئی ہے۔ سبزی منڈی اب تلہ گنگ روڈ پر ہے جس تیزی سے یہ شہر بڑھ رہا ہے یہ اور بھی دور چلی جائے گی۔ پرانی سبزی منڈی میں پکی مسجد قریب تین سو سال پرانی ہے اس مسجد کی تاریخی اہمیت، اس سے جڑے واقعات اور کہانیاں پھر کسی موقع پر اٹھا رکھتے ہیں۔ چند قدم آگے آئیں تو سرپاک محلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا پُر شکوہ عمارتیں ہیں ، یہاں کے لوگ وضع دار ہیں۔ کچھ اب بھی یہیں آباد ہیں جبکہ کچھ آبائی مسکن چھوڑ کے جاچکے ہیں ،جو یہاں رہ رہے ہیں ،ان کی عظمت کو سلام بنتا ہے، کہ پُرکھوں کی حویلیاں آباد کیے ہوئے ہیں۔ سرپاک کی ان تنگ گلیوں میں پھرنا کبھی پسندیدہ مشغلہ تھا۔اب بھی ہے ،مگر وقت اجازت نہیں دیتا۔یہ گلیاں اپنے سَحر میں جکڑ لیتی ہیں اپنا اس بات پہ ایمان تو نہیں مگر پھر بھی فرض کیا  جائے، تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ پچھلا جنم یہیں کہیں ہواتھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موقع کی تلاش میں رہتا ہوں کہ بس یہیں چلتا رہوں اور ان در و دیوار کو دیکھتا رہوں جو صدیوں کی تاریخی داستانوں کے گواہ ہیں۔

امید تھی کہ محفل میں جانے سے پہلے یہ حسرت پوری ہو جائے گی ،مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اسلام آباد سے نکلنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ وارثانِ بری امامؒ سرکار کے خاندان کے چشم و چراغ، پیر سید نثار حسن کاظمی سے رابطہ ہو گیا۔ یہ طے پایا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ کر  سال لے کر جائیں  گے،جہاں جشن کا اہتمام تھا وہاں حاضری لگوا کر ہم چکوال محفل میں چلے جائیں  گے۔ پیرانِ کرسال باذوق ہیں ،شعر و سُخن کو بھی سمجھتے ہیں۔ سُر، تال اور لے کی بھی سمجھ رکھتے ہیں سُر، سنگیت ہو یا فنونِ لطیفہ کی کوئی  بھی صنف اس کی سمجھ ہی بادشاہ کو آتی ہے یا فقیر کو۔

بیک وقت یہ دونوں صفات اس خاندان کے اس چشم و چراغ میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اہم خاصیت یہ بھی انگریزی میں  عالمی حالات پہ اچھا تجزیہ بھی کر لیتے ہیں۔ ان کے انگریزی میں لکھے کالم بڑے دلچسپ اور معلومات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اسلام آباد سے کرسال پہنچے تو پہلی بار پیرانِ کرسال کی بیٹھکوں کو دیکھا جہاں مریدین میلے کے ایام میں قیام کرتے ہیں ،کچھ بیٹھکیں نئی طرز کی بنی ہوئی ہیں مگر اتفاق سے جہاں ہمیں بٹھایا گیا وہ پرانی طرز کی تھی۔ اونچی  چھت، لکڑی کے دروازے، کھڑکیوں کو سفید پینٹ کیا گیا تھا جو ہمارے علاقے میں اکثر گھروں میں ہوا کرتا تھا۔ اب ایسی شان و شوکت والی بیٹھکیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پُرسکون بیٹھک کی دیوار سے ایک دروازہ دوسرے کمرے میں کھلتا تھا یہاں مجھے کمپنی دینے کے لیے میرے ہی ہم نام پیر سید علی عباس کاظمی آ گئے ۔دھیمے لہجے میں کیا کمال گفتگو کرتے ہیں۔ ساتھ امام بارگاہ ہے جسے مقامی لوگ دارا کہتے ہیں جشن کا اہتمام مختصر تھا چکوال کے لیے نکلنے لگے تو حسن شاہ جی نے ایک اور کار میں مریدین کو بھی ساتھ آنے کا کہا تو جیسے وہ تیار بیٹھے تھے ساتھ ہو لیے ۔استاد شفقت سلامت علی کا نام سن کر پیر علی عباس کاظمی بھی ساتھ ہو لیے ، 13 رجب کی رات تھی باہر چاند کی چاندنی گویا نور میں ڈھل کر طول وعرض کو روشن کر رہی تھی، راستے میں پیر حسن شاہ جی نے گاڑی کی چھت کا شیشہ کھول دیا۔ چاند سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے بادل ایک منفرد سماں باندھے ہوئے تھے ۔تازه ہوا کے جھونکے نے گالوں کو ایسے چھوا جیسے کوئی  گلاب کا پھول پیار سے چہرے پر پھیر رہا ہو۔دل میں سرپاک کی رات کا سحر انگیز منظر دیکھنے کی خلش تو بہر حال تھی ہی’ 15 چوک پہ پیر سائیں نے خود ہی کہا کہ اسی راستے سے جائیں گے محسوس ہوا کہ دل کی بات زبان پہ نہیں آئی مگر سن لی گئی  ۔سرپاک کے مناظر آنکھوں میں محفوظ کرکے کوٹ سرفراز جا پہنچے جہاں نوابی طرز کی حویلیاں اپنے مکینوں کی معاشی خوشحالی  کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں-مکین بھی ان کے ایسے نرم مزاج اور وضع دار کہ الله الله ۔اُس وقت کے تعلقہ دار چوہدری طورا باز خان نے یہاں گھر اور ڈیرا بنا کے اس کا نام کوٹ طورا باز خان رکھا تھا۔ جہاں وہ انتظامی امور سرانجام دیا کرتے تھے۔ چوہدری طورا باز خان کے بعد ان کی نسل میں راجہ سرفراز جیسی قد آور شخصیت کی وجہ سے یہ کوٹ سرفراز کہلانے لگ گیا ۔راجہ سرفراز خان کا بنگلہ کچھ اس طرح تعمیر کیا گیا کہ اس کی بالائی منزل کی کھڑکیوں سے چکوال شہر نظر آتا تھا گویا اس وقت اس کا مقصد رعایا پر نظر رکھنا بھی ہو سکتا ہے،بنگلے سے چند قدم آگے چند حویلیاں ہیں جن میں سب سے آخری حویلی چوہدری محسن حسن خان کی ہے ۔کلاسیکی موسیقی کا فن جس طرح پوری دنیا میں زوال کا شکار تھا ایسے میں اسے سہارا دینے کاجو کام چوہدری محسن حسن خان اور سید حسن علی شاہ نے کیا، یہ انہی کے بس کا تھا۔ ڈاک کے پلیٹ فارم سے ہر سال دو تین ایسی محفلوں کا انعقاد لازمی کیا جاتا ہے جس میں فنِ موسیقی کے دلدادہ آتے ہیں ۔ڈیڑھ دہائی قبل جب حضرت علی علیہ اسلام کی ولادت کی مناسبت سے اس محفل کا انعقاد کیا گیا تو چند لوگ ہی شریک محفل ہوئے پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ہر طرف سے تنقید کے تیر برسانے والوں کی فوج نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں وہ وقت بھی گزر گیا ۔اب سننے باہر گلی میں بھی کھڑے ہو کر محفل سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم پہنچے تو محفل اپنے نصف پر پہنچی ہوئی تھی۔ استاد شفقت سلامت علی خان کے بیٹے فیضان اور نادر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے لوگوں سے کھچا کھچ بھری محفل میں کچھ تو محض دیکھنے آئے تھے مگر زیادہ تعداد سننے والوں کی تھی دوردراز سے آئے سادات بھی محفل کی رونق بنے بیٹھے تھے-استاد شفقت علی خان کا شاندار پورٹریٹ برادرم رضا عباس رضی نے بنایا ۔حیرت انگیز طور پہ انتہائی کم مدت میں ایسا شاہکار دیکھ کر عش عش کرنے کا جی چاہا- یہ پورٹریٹ سید اسد علی شاہ، پیپلز پارٹی پنجاب کے اعلیٰ عہدیدار بیرسٹر عامر حسن اور رضا عباس نے استاد شفقت علی خان کو ڈاک ٹیم کی طرف سے پیش کیا۔

رات دوسرے پہر میں داخل ہو چکی تھی ۔استاد شفقت علی خان کے شروع کرنے سے پہلے دیکھنے والے جا چکے تھے اب سننے والے باقی رہ گئے تھے جو کثیر تعداد میں تھے- مرزا غالب کی چند غزلیں نئی کمپوز شده تھیں ایسی گائیں کہ غالب اگر خود سنتے تو گانے والے سے مغلوب ہو جاتے- یقیناً عالمِ بالا میں غالب کی روُح خوش ہوئی  ہوگی۔ “آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے” مدن موہن کی کمپوزیشن ہے۔ حاضرین محفل استاد شفقت سلامت علی خان کی زبانی سن کر محظوظ ہو رہے تھے،رات گہری ہو رہی تھی اور محفل اپنے جوبن پر جا رہی تھی۔ ہلکی بوندا باندی نے محفل کو اور بھی خوشگوار بنا دیا تھا استاد شفقت سلامت علی خان نے اپنی مشہور زمانہ کافی “سانول موڑ مہاراں” اس بار ایک نئے انداز سے پیش کی ۔درجنوں بار سننے کے باوجود ایسا لگ رہا تھا جیسے پہلی بار سن رہے ہیں،کچھ کے گالوں کو موتی چھو رہے تھے جیسے وہی لوگ قطار سے بچھڑی کونج  ہوں، جب کہ کچھ کے گلے نمکین بگولوں سے تر ہو رہے تھے۔ بقول شخصے ہاتھ چھڑا کے گیا سانول بھی کبھی مہاریں موڑتا ہے؟ یہ خاصیت مگر سانول مجازی کی ہے۔ حقیقی سانول سے تو آدمی کا ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ بس طالب اور مطلوب میں دوری پیدا ہوجاتی ہے۔ طالب اور مطلوب، ساجد اور مسجود، عابد اور معبوُد کی یہ باتیں ہم ایسی چھوٹی عقل والوں کے ذہنوں میں کیسے سما سکتی ہیں؟ لوگوں کو تو محفل میں سب سے آگے پڑے وہ جوتے سمجھ نہ آ رہے تھے کہ کسی ہستی کی روُحانی شرکت تھی۔ یہ باتیں جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ روحانیت کی یہ باتیں ہم ایسے گناہ گاروں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔

پیر نصیر الّدین نصیر کا شعر یاد آتا ہے جو عشق حقیقی کو چند الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کون جانے،کون سمجھے کون سمجھاۓ نصیر
عابد و معبود  کی جو گفتگو سجدے میں ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply