• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یوم یکجہتی کشمیر۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے ۔۔۔۔۔نیر نیاز خان

یوم یکجہتی کشمیر۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے ۔۔۔۔۔نیر نیاز خان

انیس سو نوے میں جب پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا پہلا دور حکومت تھا۔ اسی دوران بھارت کے زیر قبضہ وادی کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلح شورش عروج پر تھی۔ مسلح شورش کی بظاہر ابتدا بھارتی زیر قبضہ جموں کشمیر میں 1986 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہوئی جس میں مسلم متحدہ محاذ کو شکست ہوئی۔ اسی مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے یوسف شاہ (جو بعد میں سید صلاح الدین کے نام سے جانے جاتے ہیں اور پاکستان نواز حزب المجاہدین کے کمانڈر انچیف اور وادی میں برسرپیکار پاکستان نواز مسلح اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ بھی ہیں) نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1948 میں جموں کشمیر کو عالمی سطح پر متنازعہ تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اسلئے اس کے بعد سارے انتخابات بین الاقوامی قانون کے تحت متنازعہ ہی ہیں۔ اور جموں کشمیر کے کسی بھی منقسم حصے میں انتخابی عمل کو دو افواج اور دو ممالک کے قوانین کے طابع ہونے کی وجہ سے شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں وادی کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف عوامی ردعمل شدید تھا۔ عوامی نفسیاتی کیفیت مسلح شورش میں بدل گئی اور اس کی بھاگ ڈور اس گروہ کے ہاتھ میں آ گئی جو سیاسی اعتبار سے جموں کشمیر کو ایک الگ ملک کی حیثیت دینا چاہتا تھا اور جموں کشمیر کی کثیر المذہبی ساخت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سیکولر طرز حکومت کا خواہاں تھا۔

گیارہ فروری 1984 کو مقبول بٹ کی بھارتی تہاڑ جیل میں پھانسی سے لیکر 11 فروری 1989 تک پانچ سالوں میں آزادکشمیر میں موجود آزادی پسندوں کے ہاں مقبول بٹ بلا تخصیص قومی آزادی کا استعارہ بن چکا تھا۔ لیکن وادئی  کشمیر میں پہلی بار 11 فروری 1989 میں مظفرآباد کا چکر لگا کر جانے والے نوجوانوں نے مقبول بٹ کی برسی ایک مجاہد کے بجائے ایک قومی رہنما کے طور پر بنائی جو جموں کشمیر کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتا تھا۔ یہ ساری صورتحال اسلام آباد اور راولپنڈی والوں کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ لہذا 11 فروری کے سیاسی اثر کو زائل کرنے کے لئے بیک وقت دو کام کیے گئے۔ ایک تو سیکولر اور آزادی پسند مسلح شورش کو تقسیم کرنے کی غرض سے مذہبی مزاحمت کے نام پر حزب المجاہدین کو لانچ کیا گیا۔ اور اس کا خمیر افغانستان سے روس کے چلے جانے کے بعد بے روزگار حزب اسلامی اور دیگر گروپوں سے اٹھایا گیا اور دوسرا 5 فروری کو پوری ریاستی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے یوم یکجہتی کشمیر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام کی تاریخ میں کچھ ایام تاریخی۔ سیاسی یا ثقافتی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اسلئے انہیں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ 5 فروری کو کشمیر کی 5 ہزار سالہ معلوم  تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کے پالیسی سازوں نے صرف اسی دن کو چننا تھا؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ بھرپور تشہیری مہم اور ریاستی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے یوم یکجہتی منایا جائے تاکہ ٹھیک 6 دن بعد آزاد وطن کے حامیوں کو عوام کی نظروں میں ایک اقلیتی گروہ کے طور پر جانا جائے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ 5 فروری میں صرف ریاستی ملازمین۔ اور سکول کے بچے محدود پیمانے پر۔ جبکہ 11 فروری کو نہ صرف جموں کشمیر کے تینوں حصوں بلکہ ساری دنیا میں جہاں بھی جموں کشمیر کے عوام آباد ہیں قومی دن اور یوم عزم کے طور پر مناتے ہیں
پانچ فروری 1990 سے شروع ہونے والی یکجہتی نے وادئ کشمیر میں مسلح شورش کو دو درجن سے زائد مختلف النوع گروپوں میں تقسیم کر دیا اور نتیجے کے طور پر کبھی میجر مست گل۔ تو کبھی مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کو کشمیریوں کے مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی ناکام سعی ء کی گئی۔ ایسے حالات میں مسلح شورش تو کیا کامیاب ہوتی یا کم از کم ایک تحریک کی شکل اختیار کرتی۔ ہاں البتہ آر پار کچھ لوگوں کے معاشی حالات ضرور سدھر گئے اور نتیجے کے طور پر ایک قوم کی قومی آزادی کی تحریک پر بین الاقوامی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ جسے اتارنے کے لیے کئی دہائیوں کی محنت درکار ہو گی۔

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اگر واقعی پاکستان کے ارباب اختیار وادئ کشمیر میں جاری (جو بقول ان کے آزادی کی تحریک ہے) کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں تو اس سارے عمل میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان(جنھیں حکومت پاکستان متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ سمجھتی ہے) کے عوام کا بنیادی حق آزادی سلب کرنا اور ان علاقوں کو معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ رکھنے کی کیا منطق ہے؟ انتظامی طور پر 1947 میں قبائلی یلغار کے نتیجے میں مظفرآباد کی حکومت تو پاکستان کی اپنی تخلیق تھی اس حکومت کی انتظامی عملداری اور آزادانہ حیثیت پر قدغن لگا کر وادئ کشمیر سے کس طرح کی یکجہتی کی جا رہی ہے؟
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں جو پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر موقف کی سیاسی اساس ہیں اور عملی طور پر پاکستان بحثیت فریق انہی کی نفی بھی کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے سرینگر میں قائم شیخ عبداللہ کی حکومت کو مقامی حکومت تسلیم کیا تھا نہ کہ مظفرآباد میں قائم سردار ابراہیم کی حکومت کو۔ اور ان قراردادوں کو پاکستان نے تسلیم کر رکھا ہے۔ پھر ٹروس ایگریمنٹ میں پاکستان نے یہ بھی تسلیم کر رکھا ہے کہ وہ جموں کشمیر سے اپنی فوج اور شہریوں کا پہلے مرحلے میں انخلا کرے گا تاکہ بھارت بھی جموں کشمیر کی سرینگر حکومت کی انتظامی ضرورت کے علاوہ زائد فوج کا انخلا کر کے رائے شماری کا راستہ ہموار کرے۔(قارئین۔ ریفرنس کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کی 13 اگست 1948 کی قرارداد کو گوگل کر سکتے ہیں)۔ کیا پاکستان نے اپنے حصے کے اقدامات کر لیے کہ جن کے نتیجے میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام بغیر کسی جبر کے آزاد زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا آزادکشمیر یا گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مالک ان خطوں کے عوام یا مقامی حکومتیں ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ وہ چند سوالات اور گزارشات ہیں۔ جنھیں جذبات کے بجائے پاکستان کے ارباب اختیار اور خاص طور پر پاکستانی عوام کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی وادئ کشمیر کے عوام سے یکجہتی کے اظہار کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے باشعور شہری بھی سمجھ سکیں اور عالمی سطح پر بھی اسے ایک مذاق کے بجائے سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر کی حکومت سیاسی اور انتظامی امور میں مکمل طور پر بے اختیار ہے۔ جسے اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ اسلام آباد سے صرف اتنی التجا کر سکے کہ ہزاروں میگا واٹ بجلی کے منصوبوں پر ہم سے دستخط ہی کروا لیا کرو یا ہمارے دریاوں کا رخ موڑ کر ہمیں بنجر کرنے سے پہلے ہماری رائے جان لیا کرو۔ ہمارے آباؤ اجداد کے قبرستانوں پر ڈیم تعمیر کر کے اپنے ملک کو روشن کرنے سے پہلے ہماری تاریکیوں کو مٹانے کے لیے صدقے اور خیرات کے طور پر ہی سہی صرف 300 میگا واٹ ہی عطا کر دیا کرو۔
خدا را۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جن قراردادوں پر آپ نے دستخط کیے تھے ان قراردادوں کو اصلی حالت میں اپنی عوام کے سامنے لانے کے ساتھ ساتھ ان کے وہ اقدامات جو آپ کی اولین ذمہ داری تھے ان پر عمل کر دیجیے پھر چاہے وہ سال کا کوئی بھی دن ہو آپ کا یوم یکجہتی کشمیری عوام کے لیے کوئی معنی رکھے گا۔ اور عالمی سطح پر بھی اسے پذیرائی مل سکے گی۔ وگرنہ یہ یکجہتی کشمیریوں کے زخم پر نمک چھڑکنے اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply