انشورنس۔۔وہاراامباکر

انشورنس قدیم آئیڈیا ہے۔ سب سے قدیم ملنے والے معاشرتی قوانین عراق میں ملنے والا ہامورابی کا کوڈ ہے۔ اس میں ایک ٹاپک پر بڑی توجہ دی گئی ہے جو bottomry ہے اور بحری انشورنس اور بزنس کے قرض کی فائننشل پراڈکٹ ہے۔ ایک تاجر بحری سفر کو فنڈ کرنے کے لئے قرض لیتا ہے لیکن اگر جہاز ڈوب جائے تو قرض واپس نہیں کرنا پڑتا۔ اور اسی زمانے میں چینی تاجر اپنے رِسک کو کم کرنے کے لئے ایک طریقہ اپناتے تھے جو اپنے سامان کو بکھیرنے کا تھا۔ اگر دس جہاز ہیں اور دس تجارتی قافلے۔ تو سب سے آسان تقسیم یہ ہے کہ ہر قافلے کا سامان ایک جہاز میں ہو۔ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک جہاز ڈوب گیا تو وہ تاجر مکمل تباہ ہو جائے گا۔ اس سے بچاوٗ کا طریقہ یہ کہ ہر بحری جہاز میں سامان کا دسواں حصہ تقسیم کر دیا جاتا تھا تاکہ کسی ایک جہاز کے ڈوبنے کی صورت میں نقصان سب کے لئے قابلِ برداشت ہو اور یہی انشورنس ہے۔
سامان کو الگ الگ جگہوں پر تقسیم کر دینے کے بجائے زیادہ ایفی شنٹ طریقہ نقصان کو مالیاتی لحاظ سے تقسیم کر دینے کا آپسی معاہدہ ہے اور اس سے دو ہزار سال بعد رومیوں نے یہی کیا۔ یہ میرین انشورنس کی متحرک مارکیٹ تھی۔ اس کے بعد یہی پریکٹس بحیرہ روم کے دوسرے تجارتی مقامات تک پھل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوا اور انشورنس؟ ان میں قانونی اور کلچرلی فرق بالکل واضح ہے لیکن مالیاتی لحاظ سے یہ فرق دیکھنا آسان نہیں۔ دونوں میں ایک چیز طے کی جا رہی ہوتی ہے کہ مستقبل کے کسی نامعلوم واقعے کی صورت میں کچھ پیسوں کا تبادلہ ہو گا۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ بالکل مختلف ہوتے ہوئے بھی کئی بار ان کو ایک ہی طریقے سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ ایک کا استعمال تفریح کے طور پر رہا ہے جبکہ دوسرے کے بغیر بہت سے کاروبار نہیں چل سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن میں ٹاور سٹریٹ میں 1687 میں کافی ہاوس کھلا۔ لندن کی بار کے ماحول سے مختلف۔ چائے، کافی، شربت کی چسکیاں لیتے ہوئے یہاں پر گپ شپ ہوتی۔ اور بہت سی گپ شپ ہوتی۔ شہر کے واقعات، آتشزدگی، بیماریوں کی بارے میں۔ انقلاب اور ڈچ نیوی کے بارے میں۔ لیکن سب سے زیادہ بحری جہازوں کے بارے میں۔ کونسا جہاز کونسے سامان کے ساتھ کہاں جا رہا ہے۔ کیا یہ محفوظ پہنچ بھی پائے گا اور یہاں پر شرط لگانے کے مواقع تھے۔ شرطیں لگنے لگیں اور ہر چیز پر لگنے لگیں۔ کیا ایڈمرل جان بنگ کو جنگ میں اپنی نااہلی کی وجہ سے شوٹ کر دیا جائے گا (انہیں شوٹ کر دیا گیا تھا)۔ لائیڈز کے مالک کو لگا کہ ان کے گاہکوں کو انفارمیشن کی مانگ ہے۔ اور یہ مانگ گپ شپ سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے فہرستیں بنانا شروع کر دیں جن کو لائیڈز لسٹ کہا جاتا تھا۔ یہاں ہر قسم کے معاہدے ہوتے جن میں بحری جہازوں کی انشورنس بھی تھی۔ ان کے نیچے دستخط کرنے والے کو نقصان کی صورت میں ادائیگی کرنا ہوتی۔ انکو اس وجہ سے انڈر رائیٹر کہا گیا۔ (یہی اصطلاح آج بھی استعمال ہوتی ہے)۔ اور ظاہر ہے کہ جتنی انفارمیشن جس کے پاس زیادہ ہو گی، وہ اس میں اتنا کامیاب ہو گا۔ یہ قسمت سے زیادہ انفارمیشن کا کھیل تھا۔ یہیں پر اکٹھے ہونے والے انڈررائیٹر تھے جنہوں نے سوسائٹی آف لائیڈز بنائی جو لائیڈ آف لندن کے نام سے انشورس میں مشہور ترین ناموں میں سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن انشورنس کی بنیاد ہر جگہ پر شرط لگانے سے نہیں تھی۔ ایک اور قسم کی انشورنس بندرگاہوں پر نہیں بلکہ پہاڑوں پر شروع ہوئی۔ یہ سولہویں صدی کے کسان تھے۔ انہوں نے میوچل ایڈ سوسائٹی منظم کیں۔ اگر کسی کی گائے، کسی کا بچہ ۔۔ بیمار ہو جائے تو سب اس پر آنے والے خرچ میں حصہ ڈالتے تھے۔ یہ خطرہ بانٹ لینے والے کا نظام تھا۔ اس نظام کو تخلیق کرنے والے کسان جب ایلپس کی پہاڑیوں سے زیورخ اور میونخ پہنچے تو دنیا کی سب سے بڑی انشورنس کمپینیاں قائم کیں۔
آج رسک شئیر کرنے والی میوچل ایڈ سوسائٹیز دنیا کی سب سے بڑی تنظیمیں ہیں۔ ان کو “حکومت” کہا جاتا ہے۔ حکومتوں کی انشورنس بزنس میں آمد پیسے کمانے کے لئے ہوئی تھی۔ یہ جنگ کرنے کے لئے پیسے اکٹھے کرنے کا طریقہ تھا۔ ان کو annuity کہا جاتا تھا۔
اب انشورنس مہیا کرنا حکومت کی بنیادی ترجیحات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ معذور ہو جانے پر، بوڑھوں کے لئے، ناداروں کے لئے۔ ویلفئیر سٹیٹ ایک طرح کی انشورنس ہی ہے۔
غریب ممالک میں حکومتیں اہم خطرات سے زیادہ تحفظ مہیا نہیں کر پاتیں۔ جیسا کہ فصل کی ناکامی یا بیماری کے خلاف۔ اور پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو بھی ان میں دلچسپی نہیں۔ اور یہ بڑی شرمناک بات ہے کیونکہ نہ صرف انشورنس ذہنی سکون دیتی ہے بلکہ صحت مند معیشت کا کلیدی عنصر ہے۔ لیسوتھو میں ہونے والی ایک سٹڈی بتاتی ہے کہ انشورنس کی موجودگی میں کسان زیادہ سپیشلائز کر سکتے ہیں۔ انہیں خشک سالی سے حفاظت ہو تو زیادہ پیداوار بھی دے سکتے ہیں۔ محققین نے انشورنس کمپنی بنا کر فصلوں کی انشورنس بیچنا شروع کی تو اس کو خریدنے والے بہت تھے۔
لیکن فصلوں کی ناکامی کی انشورنس کی جائے یا موبائل فون کی سکرین کریک ہو جانے پر انشورنس کی پراڈکٹ ہو؟ دوسری قسم کی انشورنس ضرورت سے بہت زیادہ بکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشورنس کئی اقسام کی ہے۔ فائننشل ڈیری ویٹو کی مارکیٹ بھی یہی کام کرتی ہے۔ گندم کا کاشتکار گندم کی گرتی قیمت کے خطرے سے محفوظ بنا سکتا ہے۔ لیکن اس کی بے قابو ہو جانے والی مارکیٹ بحران بھی پیدا کر سکتی ہے۔
ریاضی، رِسک مینجمنٹ اور بزنس کے سنگم سے ہونے والی یہ ایجاد آج کی دنیا کا اہم تصور ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply