جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(3)۔۔نذر حافی

ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 370 کشمیر کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ آرٹیکل کشمیر کی مکمل خود مختاری کو تسلیم کرتا ہے۔ اسی کی وجہ سے بھارت میں مقبوضہ کشمیر کا الگ جھنڈا اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی متنازعہ حیثیت قائم ہے۔ اس آرٹیکل کی رو سے کشمیر تین حصوں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر، پاکستان کے تحت آزاد کشمیر اور چین کے زیر قبضہ اکسائی چن میں منقسم ہے۔ مذکورہ بالا نکات کو سمجھنے کے بعد ہر باشعور آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ بھارت کی طرف سے اس آرٹیکل کو لغو کرنے سے کشمیر کی جداگانہ شناخت ہی ختم ہوگئی ہے۔ اب سوال یہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی یہ جداگانہ شناخت ضروری ہے بھی یا نہیں۔؟ اب تک اس شناخت کو قائم رکھ کر ہندوستان، پاکستان اور کشمیریوں نے کیا حاصل کیا ہے۔؟ اس کے بعد سوالات در سوالات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے کہ جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آیا یہ جداگانہ شناخت یا عدمِ شناخت کا مسئلہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہے یا پاکستان و ہندوستان اور چین کیلئے بھی یہ مسئلہ اہم ہے۔؟

یہ مسئلہ جو اہمیت کے اعتبار سے دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان نزاع کا باعث ہے، کیا اسے دبا دینے اور چھوڑ دینے سے حل ہو جائے گا۔؟ کیا کشمیر کی اصلی، مقامی، عوامی اور جمہوری قیادت اس سہ فریقی مثلث (ہندوستان، پاکستان اور چین) کے درمیان اپنی جداگانہ شناخت سے دستبردار ہو جائے گی۔؟ کیا جداگانہ شناخت کا مطالبہ کشمیریوں کو مزید تنہا نہیں کر دے گا۔؟ کشمیریوں کی طرف سے جداگانہ شناخت کا یہ جھگڑا صرف ہندوستان کے ساتھ ہی کیوں ہے؟ پاکستان اور چین کے ساتھ کیوں نہیں۔؟ اگر کشمیر گذشتہ تہتر سال سے نظریاتی طور پر پاکستان کا حصہ ہے تو جدوجہد کے اس طولانی سفر کے بعد آج کشمیری کس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔؟ کیا وہ پاکستان کے ساتھ اپنے الحاق کے فیصلے پر قائم ہیں۔؟

دوسری طرف اب یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان اب کشمیر کے حوالے سے کس نتیجے پر پہنچ چکا ہے۔؟ کیا پاکستان کی حکومتیں اور عوام اب بھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں یا پھر کشمیر ڈے کو چند بیانات اور ایک چھٹی کی حد محدود کر دیا گیا ہے۔؟ کیا بطورِ عوام ہم بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں اور یا پھر یہ ایک خالصتاً سرکاری نوعیت کا مسئلہ ہے، جسے حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا جانا چاہیئے۔؟ بحیثیت پاکستانی میرے لئے یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ بفرضِ محال اگر بنگال کی طرح کشمیر سے بھی پاکستان دستبردار ہو جائے تو کیا اس کے بعد پاکستان اپنا وجود قائم رکھ پائے گا۔؟

یاد رکھیئے! عقلمند وہ نہیں ہوتے جو صرف اپنے پیٹ، اپنی بقاء اور صرف اپنی ہی سلامتی کی فکر کرتے ہیں، عقلمند وہ بھی نہیں ہوتے جو زیادہ سے زیادہ اپنے بچوں کی بھلائی کیلئے فکرمند ہوتے ہیں بلکہ عقلمند وہ ہوتے ہیں، جو اپنے ممالک اور اپنی اقوام کی آئندہ نسلوں کی سلامتی، رشد، ارتقاء اور بھلائی کیلئے سوچ و بچار کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل سے صرف ہماری ہی نہیں بلکہ ہماری آئندہ نسلوں اور منطقے کے ممالک کی سلامتی اور ترقی وابستہ ہے۔ اگر بطورِ عوام ہم اس مسئلے کو زندہ نہیں رکھیں گے اور اس کے حل کیلئے سوچ و بچار نہیں کریں گے اور صرف حکومتوں پر ہی انحصار کریں گے تو پھر ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں اور خطے کے ممالک کو شعوری یا لاشعوری طور پر ایک بھیانک ایٹمی و اقتصادی جنگ اور خوفناک مستقبل کے حوالے کر رہے ہیں۔

19 نومبر کو سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے تیسرے آن لائن سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامک سکالر احمد میر کشمیری (قم، ایران) نے کہا کہ دیگر تہذیبوں کے درمیان اسلامی تہذیب کو ایک منفرد اور نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تمدن اور تہذیب و ثقافت کی روح مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت ہے۔ ظلم یمن میں ہو یا کشمیر میں، اس کے خلاف بولنا یہ مسلمان ہونے کی علامت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر اگر کوئی غیر مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہوتا اور وہاں اس طرح انسانی حقوق کی پامالی ہوتی تو ہم بعنوانِ مسلمان پھر بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خطے میں ظلم بھی ہو اور امن اور ترقی بھی ہو۔ انہوں نے اس مسئلے کے حل کیلئے سارے مسلمانوں سے یہ اپیل کی کہ وہ اس مسئلے کے حل کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان رضاکارانہ طور پر منطقہ کشمیر کیلئے سفارت کاری کرے، مختلف مذاہب و مسالک کے لوگ کشمیر کے مظلوموں کی آواز بنیں، کشمیر کے تازہ ترین حالات سے آگاہ رہیں اور اپنی تقاریر و تحاریر اور خطبات و مجالس میں اس مسئلے کو بیان کریں اور اس کے حل کیلئے حکومتوں پر دباو بڑھائیں۔ اس موقع پر معروف اسکالر اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ندیم بلوچ (پاکستان) نے اپنے تجزیئے میں روایتی طریقوں سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے او آئی سی اور اسلامی ممالک کی ناکامیوں اور بے بسی پر بھی سوالات اٹھائے، انہوں نے متعدد ممالک کی مثالیں بھی دیں کہ جہاں جغرافیائی مسائل کو قانونی جدوجہد سے حل کر لیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں اس موقع پر جہاں پاکستانی حکمرانوں اور حکومتوں کی ناکام سفارتی پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا، وہیں یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کا مسئلہ ہے، لہذا اسے کسی بھی حکومت، پارٹی یا کمیٹی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جانا چاہیئے۔ راہِ حل بتاتے ہوئے انہوں نے روایتی سوچ کی نفی کی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے صرف قانونی جدوجہد کو بھی ناکافی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ قانونی جدوجہد اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے، لیکن یہاں قانونی جدوجہد کے ہمراہ طاقت کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی، اقتصادی، عسکری اور اجتماعی طور پر ایک مضبوط اور طاقتور پاکستان ہی اس مسئلے کو قانونی طور پر حل کرا سکتا ہے۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے چوتھے آن لائن سیشن کی سرگزشت جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply