موت وہ جو قابل ِرشک ہو / گل بخشالوی

انسان کی تخلیق مٹی سے ہے ، اور مٹی ہی ہو جانا ہے، یہ دنیا گلشنِ  فانی ہے ، گلشن میں مختلف رنگوں کے پھول ہوتے ہیں ،ان خوش نما رنگوں کے پھولوں کی خوشبو بھی مختلف ہوتی ہے کچھ پھول ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی  خوش بُو نہیں ہوتی ۔ وہ بس پھول ہی ہوتے ہیں رب ِ کائنات کے وہ ہی رنگ انسانوں کے لئے بھی مخصوص ہیں،یہ رنگ ہماری قومیت ، نسل اور شخصیت کی شناخت ہیں۔

ہم رب کی رضا سے خالی ہاتھ اور بے لباس جہان ِفانی میں آئے ہیں اور صرف دو چادروں میں لپٹ کر خالی ہاتھ عالم ِارواح میں جائیں گے ، لیکن کب جائیں گے یہ وہ ہی بہتر جانتا  ہے جو خالق اور رازق ہے ،ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم دارالعمل میں ہیں ، جسے بھی جو کچھ دنیا میں زندگی کے حسن کے لئے ملا ہے وہ اس کا امتحان ہے ، جسے دنیا کے حسن کے لئے کچھ نہیں ملا اس کا بھی امتحان ہے ، دینے والے نے دیکھنا ہے کون شاکر ہے اور کون ناشکرا ، کو ن اچھا ہے کون بُرا ۔ ظاہر میں توانسان جانتا ہے ، لیکن دلوں کے راز اللہ ہی جانتا ہے۔ ایک وقت اس جہاں سے رخصتی کا وقت ہے، یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بتا دیتا ہے ، جو  میں جانتا   ہوں، تم نہیں جانتے  ، اور یہ وہ وقت ہے جس پر انسان کسی کے متعلق اپنی سوچ پر پشیمان ضرورہو تا ہے لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

ا نسان مرتے ہیں ، کچھ حادثات میں کچھ قدرتی آفات میں ا ور کچھ بیمار ہوکر گھر میں چار پائی پر، یا ہسپتال میں فوت  ہو جاتے ہیں ۔دینِ مصطفیٰ میں سب سے خوبصورت موت شہادت کی ہے ۔ لیکن ایک وہ موت ہے جو چلتے پھرتے آتی ہے یہ ہی وہ موت ہے جس کے اعلان وفات پر انگلی دا نتوں تلے دب جایا کرتی ہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کل ہی تو مجھ سے ملا تھا اچھا بھلا تھا لیکن۔۔موت برحق ہے۔ اور یہ ہی مومن کا ایمان ہے۔

میرے داماد کی والدہ المعرو ف ” بے بے جانی “ ہم اہل خا ندان کی نظر میں انتہائی سخت مزاج خاتون تھیں اس لئے کہ سچائی اس کی زبان پر ہوتی تھی ۔ وہ اپنے وجود کے اندر کیا تھیں وہ صرف خدا جانتا تھا۔ زندگی کی 80 ویں بہار دیکھ رہی تھیں ۔ انتہائی بیمار ہونے کے باوجود بھی خود کو بیمار نہیں کہا کر تی تھیں ، پانچ وقت کی نمازی تہجد گزار خاتون تھیں ، برادری کی غمی خوشی میں شریک ہونا اپنا فرض اولین سمجھتی تھیں، کئی مرتبہ موت کے منہ میں جاتے جاتے واپس ہوئیں تھیں ، ایک مرتبہ تو د ریائے جہلم کے پل پر بس ایکسیڈنٹ میں بس کی  فرنٹ سیٹ سے دریائے جہلم میں جا گری تھیں لیکن زندگی کی بہت بہاریں دیکھنا اس کے مقدر میں تھیں ، جہاں گری تھیں وہاں دریا میں پانی کم تھا گرتے ہی خود ہی اٹھ کھڑی ہوئیں اور ایک مچھیرا ا نہیں کشتی میں کنارے تک لے آیا تھا کوئی خراش تک نہیں آئی تو اپنوں نے کہا بے بے تو نہیں مرے گی ۔

میری بیٹی نے بتایا کہ  بے بے جانی  مقامی درس میں باترجمہ درس ِ قرآن لینے جاتی تھیں۔ 20 ویں رمضان کو مدرس نے کہا میں اعتکاف بیٹھ رہا ہوں ان شاءاللہ عید کے تیسرے دن درس شروع ہو گا ، تو ” بے بے جانی نے مدرس اور خواتین سے مخاطب ہو کہا ، کون جانے کہ عید کے بعد ملاقات ہوگی یا نہیں اس لئے ایک دوسرے کے لئے بخشش کی دعا مانگیں ۔ گلے شکوے دور کر دیں ۔

مرحومہ پانچ وقت کی نماز میں ایک ہی دعا مانگتیں ، اللہ مجھے محتاجی کی زندگی سے محفوظ رکھنا ، اور ا للہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کر لی تھی۔ 27 ویں رمضان المبارک کی شام پوتے کی منگیتر کو عید گفٹ دینے کے لئے بہو اور بیٹیوں کے ساتھ دوسرے گاؤں گئی  تھیں ، سحری کے وقت اٹھیں ہلکا سا ناشتہ کیا ، اور بڑی بیٹی کو فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں بیٹے کے ساتھ ابھی آؤ ، وہ آئیں تو ”بے بے جا نی “ نے اسے کچھ ہدایات دیتے ہوئے کہا ، لگتا ہے میرا وقت پورا ہو چکا ہے ، دل گھبرا رہا ہے ، اس کی طبیعت خراب تھی، بیٹی کے کہنے پر ہسپتال جانے کے لئے تیار ہوئیں، الماری کی دراز سے ڈاکٹر کی فائل نکالی اور گاڑی تک بغیر کسی سہارے گئیں۔

بے بے جانی کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا ۔ ڈاکٹر کے مشورے پر اسے شاہ منصور صوابی ہسپتال لے جایا جا رہا تھا ،لیکن وقت پورا ہوچکا تھا  ، بے بے جانی   ایمبولنس میں سیدھی ہوکر سٹریچر پر لیٹ گئیں ہاتھ پاؤں خود ہی سیدھے کئے اور 28 رمضان کی صبح کو دار ِفانی سے کوچ کر گئیں۔

رمضان کی صبح آسمان صاف تھا دھوپ چمک رہی تھی مرحومہ کا جنازہ بعد نماز ِ عصر تھا ، جنازے کے وقت آسمان پر کالے بادل چھا گئے ، بارانِ  رحمت برسی اور خوب برسی ، جنازے میں شریک لوگ باران ِ رحمت میں خوب نہائے اور جیسے ہی   بے بے جانی ، جنت مکانی  کو سپرد ِ خاک کیا گیا تو آسمان صاف ہو گیا اور دھوپ نکل آئی۔

یہ تھی جنت مکانی بے بے جانی کی وہ موت جس   پر رشک کرتے ہوئے مرحومہ کے غم میں شریک خواتین و حضرات کی زبا ن پر ایک ہی کلمہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ہر مومن مرد اور خاتون کو ایسی   قابل ِ رشک موت سے سرفراز کر دے۔

بے بے جانی کی اس قابل رشک   موت سے قبل میری والدہ کی موت بھی مومنہ کی موت تھی ، میری والدہ بی بی روشان ٹی بی کی دائمہ مریض تھیں ادویات پر زندگی جی رہی تھیں وفات سے ایک ہفتہ قبل کہنے لگیں ، بخشالوی سے میرے رشتوں کو بلاؤ میں ان سے ملنا چا ہتی ہوں ، اطلاع ملنے پر میرے  سبھی قریبی رشتے دار کھاریاں آئے تو میری ماں انہیں دیکھ کرگلاب کی طرح کھل اٹھیں۔ تین دن قیام کے بعد رشتہ داروں نے اجازت چاہی میری وا لدہ نے ان سے کہا ، آج نہیں کل جائیں گے میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔

بہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کلثوم تم بھی تیار ہو جاؤ، کل ہمارے ساتھ جانے کے لئے سب راضی ہوگئے۔

دوسری صبح میں فروٹ منڈی سے خربوزے لایا گھر کے صحن میں اماں جی نے اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر خربوزے کھائے خوب گپ شپ لگی تو کہنے لگیں، تم لوگ تیاری کرو میں آرام کرتی ہوں ، خود ہی چارپائی سے اٹھ کر کمرے میں جا کر لیٹ گئیں۔چند ہی لمحے بعد ایک بچی کمرے سے دوڑتی ہو ئی یہ کہتے ہوئے باہر آئیں کہ بے بے کو کچھ ہو گیا ہے۔ہم سب دوڑے دوڑے کمرے میں گئے تو امی جان  کے لب ہل رہے تھے اور امی جان دارِ  فانی سے رخصت ہو گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مرحو مہ نے سچ کہا تھا اس کو دارِ  فانی سے رخصتی کا ویزہ مل چکاتھا ، اور واقعی ہم سب امی جان کی لاش کے ساتھ بخشالی چلے آئے تھے ۔ میں آج بھی وہ لمحات یاد کرتا ہوں تو دل سے آواز آتی ہے اللہ کے محبوب بندوں کو اشارہ مل جایا کرتا ہے کہ اپنوں سے آخری ملاقات کر لو ، اور یہ ہی اللہ کے محبوب بندوں کی وہ خوشحال ملاقات ہوتی ہے ، اس لئے جب ان کی وفات کی خبر آتی ہے تو انگلیاں دانتوں میں دب جاتی ہیں ۔ یہ ہے مو من کی شان اور پہچان ، یہ ہے وہ قابلِ رشک موت جس پر ہر کسی کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے ، اے اللہ ایسی موت سے مجھے بھی سرفراز کر دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply