بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔۔۔۔علینا ظفر

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آج پاکستان کے عظیم رہنما محسنِ مسلمانانِ برِ صغیرِ پاک و ہند بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کا یومِ پیدائش منایا جا رہا ہے۔ یوں تو مجھے قائدِ اعظم ؒ کی بہت سی خصوصیات بے حد پسند ہیں لیکن اگر ان کی کسی ایک خوبی کا ذکر کروں تو میں ان کی مضبوط قوتِ ارادی والی خوبی سے بے تحاشا متاثر ہوں۔ میں نے جب کبھی زندگی میں اپنا کوئی بھی کام کرنا ہو تواسے ذہن میں رکھ کر کرتی ہوں اور یقین جانیئے کہ اس کام میں حوصلہ اور کامیابی کا گراف اتنا بلند ہوجاتا ہے جومیرے دماغ پر اس قدر خوشگوار تاثر قائم کر دیتا ہے کہ میں شائد اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہ کر سکوں۔ مثبت سوچ اور مضبوط قوتِ ارادی یہ دو باتیں میں نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی زندگی کا تھوڑا سا مطالعہ کرنے کے بعد سیکھیں۔ شعبہ ء وکالت کی بات کی جائے تو میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی وکیل ہو تو قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ جیسا ہو جو وکیلِ با کمال تھے، جنھوں نے مسلمانوں کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑا جس کی صورت آج پاکستان کا نام دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا ہے۔

لیڈر عوام کے لیے ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔رول ماڈل کی موجودگی اقوام کی کامیابی کا راز ہے۔ اللہ نے اپنے حبیبﷺ کو رول ماڈل والی تمام خصوصیات عطا فرمائیں اور انھی سے کام لیتے ہوئےآپؐ نے پورے معاشرے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ جو مشن رسول اللہﷺ نے بنایا ، اسے لے کے چلے اور اس پر کام کیا اُس رول ماڈل کا رویہ بھی اس کے مطابق ہونا چاہیئے۔ میرے استادِ محترم فرماتے ہیں کہ رول ماڈل اچھے اخلاق کا نمونہ ہوتا ہے۔ رول ماڈل میں جھوٹ نہیں ہو تا وہ سچا ہوتا ہے۔کسی کے لیے دل میں ذاتی دشمنی، عناد، نفرت اور غصہ کی بجائےنرم خوئی، محبت، پیار شفقت موجود ہوتی ہے۔ رول ماڈل کے لیے کوئی کلاسیفیکیشن (درجہ بندی)یا اقربا پروری نہیں ہو تی، وہ صرف اپنوں، دوستوں اوررشتہ داروں کوہی نہیں نوازتا بلکہ اس کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں ۔ وہ تعصب اور بد دیانتی سے پاک ہوتا ہے۔رول ماڈل ملنسار، مہذب ، محنت کا خوگر ہوتا ہے۔ وہ باکردار، نیک، اہلیت سے بھرپور اور حکمت سے پُر ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کون سا کام کرنا ہے اور کون سا نہیں کرنا یا کون سا کام کب اور کس طریقے سے کرنا ہے۔ جب کوئی بھی ایسی صورتحال ہو جو مشکل ہو ، وہ اُس کو بہتر اور صحیح طریقے سے نمٹنا جانتا ہے۔
نگاہ بلند، دل سخن نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

Advertisements
julia rana solicitors

میرے استادِ محترم فرماتے ہیں کہ جو رسول اللہ ﷺ کے پیروکار ہوتے ہیں ، جن کے دل میں اللہ کا خوف اور مخلوقِ خدا کے لیے ہمدردی ہوتی ہے ، کسی کا دکھ اُن سے برداشت نہیں ہوسکتا ، وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ سکتے ہیں نہ کسی کے لیے درد کی وجہ بنتے ہوں، اللہ ہمیشہ انھیں کامیابی اور عزت سے نوازتا ہے۔ ہمارے لیڈروں کو ایسا بننا ہے، یہ روپ دھارنا ہے کہ وہ بالکل تندخو نہ ہوں، ان میں چڑچڑا پن اورغصہ نہ ہو، ٹانٹنگ(طنز) نہ ہو، خالی باتیں اور نصیحتیں نہ ہوں بلکہ اپنے لوگوں کے لیے دل میں گداز اور درد ہو، ان کے لیےخدمت اورسروس ہو۔ قائدِ اعظمؒ نے مسلمانوں کے درد کو سمجھا، ان کی مدد کے لیے اپنا ٹارگٹ بڑا رکھا اور انتھک محنت اور مضبوط قوتِ ارادی سے حق اور سچ کی فتح کے لیے ڈٹے رہے ۔ اللہ نے انسان کے ہاتھ میں نیت اور کوشش دی ہے جبکہ کامیابی وہ (اللہ) دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے قائدِ اعظمؒ کو ان کی لازوال کاوشوں کا صلہ پاکستان کی شکل میں عطا فرمایا۔ آج ہم سب معاشرے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن دوسروں کو اگر آپ محض زبانی کلامی نصیحتیں ، تقریریں یا بیان دیتے جائیں جبکہ خود رسول اللہﷺ کا بتایا گیا خلفائے راشدین کا روپ نہ دھاریں تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ہمارے معاشرے میں جتنے بھی شعبوں کے سربراہان ہیں چاہے وہ جو اپنے گروہوں کے، اپنے اداروں کے، اپنے خاندانوں کےاور اپنے ملک کےسربراہ ہیں ان سب کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ایک اچھی لیڈر شپ کے لیے انھیں بلندی پہ نگاہ رکھنی ہے، ٹارگٹ بڑے ، کوشش اور قوتِ ارادی مضبوط رکھنے ہیں۔ جب تک کوئی لیڈر ان تمام چیزوں کو خود بھی عملی طور پرنہیں اپناتاتو وہ اپنے لوگوں کو کبھی بھی اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی راہ نہیں دکھا سکتا۔ اس ملک کی بہتری کے لیے ہمیں قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کا سپاہی بننا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت نے جیسے قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ کو مسلمانوں کی تقدیر بدلنے کا وسیلہ بنایا اسی طرح ہمارے ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب جو پسماندہ حالات میں امید کی کرن ہیں انھیں بھی پاکستان کو فلاح اور ترقی کی بلندیوں تک پہنچانے والوں میں رکھے اور اس قوم میں بھی وہی جذبہ بیداری عطا فرما دے جو پاکستان بنتے وقت اپنے حالات کی بہتری چاہنے والے ہمارے اباؤ اجداد میں موجود تھا، آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply