مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔۔۔۔۔فرحانہ صادق

گو کہ یہ بات تصدیق شدہ نہیں مگر میں تو اسے اتفاق یا اپنی خوش قسمتی کے علاوہ اور کچھ تسلیم نہیں کرتی کہ مجھے زمانہ طالب علمی میں جشن یوم آزادئ پاکستان کے پروگرام میں قومی نغمہ کی پیشکش کے لیے چن لیا گیا تھا۔ بظاہر تو ایسی کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ خاص طور پر اسکول کی اچھی خوش گلو طالبات کو صرف میری خاطر نظر انداز کردیا جائے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جماعت ہشتم تک میں ایک سہمی ہوئی، چہرے پہ ہونق تاثرات لئے ، دبلی پتلی چھوٹی سی لڑکی ہوا کرتی تھی ، جسکے گھر والے خصوصاً ماں، ہمیشہ اسکی بڑھوتری اور قد کے سلسلے میں فکرمند رہتے۔ سو ظاہری شخصیت کا بھی کوئی کمال نہ ہوا۔ اور نہ ہی میرے ماں باپ کا شمار ان والدین میں ہوتا تھا جو وقتاً فوقتاً اسکول فنڈ کی مد میں انتظامیہ کی مدد کرتے تھے۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر میں اس سے اسکول کے آخری سال تک لاعلم رہی۔
ظاہری شخصیت کے بارے مجھے کوئی خاص خوش فہمی نہ پہلے تھی نہ اب ہے ، مگر آواز کے سریلے ہونے کی خوش گمانی ضرور ہمیشہ سے ہے ۔ موسیقی سے بھی شغف تھا اور محبوب مشغلہ یہی تھا کہ چھت پہ موجود اسٹور روم میں چھوٹے بہن بھائیوں کو جمع کرکے یا صحن میں لگے جھولے پر یا خاندان و محلے میں کسی دوست کزن کی ڈھولکی پر اور سب سے زیادہ اسکول میں آدھی چھٹی کے موقع پر، جہاں بھی موقع ملے کبھی تو چپکے چپکے یا کبھی باآواز بلند گانا گنگنا لیا جائے اورکمرہ جماعت کی میز، گھی کا خالی کنستر، سلائی مشین کا ڈھکن یا جو میسر ہو اسے بطور طبلہ بجا لیا جائے۔ مگر مجھے اتنا یقین تھا کہ میں نے کبھی اپنے اس فن کا مظاہرہ اساتذہ کے سامنے نہ کیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ مخبری کسی ہم جماعت کی شرارت ہو۔ سو ایک دن استانی صاحبہ نے بلا کر کچھ بھی گنگنانے کا حکم دیا اور ابھی اپنی لرزتی آواز میں نے انترا بھی پورا نہ کیا تھا کہ اشارے سے روک دیا اور ہاتھ میں ایک پرچہ تھما دیا جس میں ملی نغمات کی فہرست تھی ۔۔۔ اور کہا اس میں سے کوئی ایک نغمہ منتخب کرلو گھر جا کر اچھی طرح مشق کرنا کل میں سن لوں گی۔ مجھ پر بیک وقت مسرت اور خوف کی جو کیفیات طاری ہوئی تھیں انہیں مکمل طور پر الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ جہاں ہزاروں نہ سہی دسیوں طالبات سے ممتاز ہونے کا احساس خوشی بخش رہا تھا وہیں سیکڑوں نگاہوں کا سامنا کرنے کا ڈر اپنے لپیٹے میں لے رہا تھا ۔۔ انہوں نے میرے تاثرات بھانپ لیے۔ حوصلہ افزائی کے لیے کندھے پر دست شفقت رکھا اور ایک کیسٹ دیتے ہوئے بولیں کہ فہرست میں موجود سبھی گانے اس میں موجود ہیں۔ میں جس نغمے کا انتخاب کروں اسے بار بار سن کر مشق کرلوں ۔۔۔

خیر یہ کہ میں خوشی سے سرشار بھاگتی دوڑتی واپس آئی، گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی اس قسمت آزمائی کا اعلان کیا۔ نہ یونیفارم بدلا نہ کھانے کا ہوش کیا بس فورا کمرہ بند کر کے کیسٹ لگا دی اور فہرست ہاتھ میں تھامے بڑی توجہ سے ایک کے بعد دوسرا نغمہ سننے لگی ۔ انہی نغمات کے دوران اچانک کسی مجمع کی کھلبلی کی آواز سنائی دی اور پھر ایک بھاری پاٹ دار گرجتی آواز کیسٹ پلئیر سے برآمد ہوئی
” ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان قائم رکھنے کے لیے ابھی بھی بہت محنت کرنا ہوگی ۔ ۔ ۔
” ارے یہ کیا آگیا؟
فوراً کیسٹ پلیئر کو اسٹاپ کرکے ریوائنڈ کیا ، نغمہ ختم ہوا پھر وہی آواز گونجنے لگی۔ دل نے کہا ہو نہ ہو یہ میرے قائد کی آواز ہے بھاگم بھاگ چاچو کے پاس پہنچی انہوں نے نہ صرف فوراً تصدیق کی بلکہ اس تقریر کا پس منظر بھی بتا دیا گانے کا انتخاب تو ایک طرف ہوگیا میں نے وہی تقریر دوبارہ لگادی ، جوں جوں سنتی گئی معاشرتی علوم کی درسی کتب میں تحریک پاکستان کے حوالے سے محمد علی جناح کی تمام کاوشیں ایک فلم کی مانند تصور میں گھومنے لگیں۔ دل خوشی سے جھومنے لگا اور آنکھیں جذبہ تشکر سے چھلکنے لگیں۔ تقریر جاری تھی کہ ایک حصہ نے چونکنے پر مجبور کردیا کہ
” مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ارے ! ! ! ! !
مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا !!
مسلمان مصیبت میں !
مسلمان ۔۔ !

آگے کچھ اور بھی تھا مگر میری سماعت کی سوئی تو جیسے وہیں اٹک گئی ۔ ۔ ساتھ ساتھ کانوں میں وہی آوازیں گونجنے لگیں جو کچھ تو اپنے خاندان کے بڑوں اور کچھ اساتذہ سے دبی دبی سرگوشیوں اور معنی خیز جملوں کی صورت سنی تھیں۔۔۔
” محمد علی جناح تو صرف نام کے مسلمان تھے ، ارے میں نے فلاں کتاب میں پڑھا ہے انہیں تو کلمہ، نماز بھی صحیح طرح نہیں آتا تھا ۔
” مذہب سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا لبرل تھے لبرل”
“سنا ہےانگریزوں کے ساتھ شراب پیتے تھے ”

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا شخص اسلام اور مسلمان کے بارے کیسے کوئی بات کہہ سکتا ہے؟ میرا دماغ الجھ گیا، دل میں گرہ پڑ گئی کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے اتنے وثوق سے کوئی بھی بات کہنے کا اختیار تو صرف مسجد کے مولوی صاحب کو ہے جنکی آواز ہر جمعہ لاوڈ اسپیکر پر آتی ہے ۔۔ ذہن میں سوالات کی گتھی سی بن گئی جانے کس جذبے کے تحت میں نے وہ تقریر بار بار سنی ایسا لگتا تھا جیسے لاشعوری طور پر میں اپنے ذہن کی گتھی اسی تقریر کے ماخذ سے سلجھانا چاہ رہی ہوں ۔
قصہ مختصر، اسکول میں جشن آزادی کی تقریب ہوئی ، میں نے منتظمین سے گزارش کی کہ میری خواہش ہے میرے نغمہ سے پہلے قائد کی تقریر کا کچھ حصہ حاضرین کو سنوایا جائے مگر بوجوہ درخواست رد کردی گئی۔ خیر جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر میں نے قومی نغمی گایا اور داد بھی سمیٹی۔ جانے یہ اس تقریر کا اثر تھا یا کچھ اور عجیب بات یہ رہی کہ جتنی دیر اسٹیج پر رہی مجھے یہی لگتا رہا کہ یہ مجمع وہی مجمع ہے جس کے سامنے قائد نے اپنی تقریر کی تھی ۔
گزرتے وقت نے بڑا کردیا۔ اسکول سے کالج اور کالج سے سسرال ۔۔۔۔۔ محمد علی جناح سے محبت وہی رہی مگر جب تقریر کے اس حصے کا خیال آتا عقیدت کی زمین پہ تنفر کے ناگ سرسرانے لگتے ، جنہیں بعد میں کچھ مزید مطالعہ نے اور کچھ شعور و آگہی نے کچل دیا۔
میکہ میں تو ناخدا کے حوالے سے کئی رشتے موجود تھے والدین ، دادی چاچو ، ماموں وغیرہ، مگر شادی کے بعد یہ جانا کہ زندگی کیا ہوتی ہے مشکل فقط لغت میں لکھا بامعنی لفظ نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اسکی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ اصل سفر اب درپیش ہے۔ شریک سفر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے۔ اپنے بچوں کا ناخدا بننا ہے۔ غرض یہ کہ اب مشکلات جھیلنے کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔ اس جوکھم کو بخوشی قبول کیا بہت سے پر خار راستے نکلے، کئی کٹھن موڑ آئے، سینکڑوں رکاوٹیں گزریں ۔۔۔ کامیابی کا لطف بھی اٹھایا اور ناکامی کو بھی سہنا پڑا۔ زندگی کا سفرآج بھی اسی زور و شور سے جاری ہے۔
ان لوگوں سے معذرت کے ساتھ، جنہیں میری طرح ان الفاظ کو قائد سے منسوب دیکھ کر دکھ ہوگا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ صوم و صلوٰة کے پابند دوستوں اور عزیزوں کی بہت سی اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ، اس ایک ‘شرابی’ بے نمازی لبرل شخص کے اس ایک جملے کی تکرار نے ہمیشہ ایک مذہبی ذہن رکھنے اور شراب سے برآت رکھنے والی عورت کی ہمت بڑھائی اور اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا کہ
“مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا”۔
“مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply